ٹیکنالوجی کے ارتقاء اور بڑھتی ہوئی مادیت پرستی سے نہ صرف ہمارے خاندانی نظام کو خطرات لاحق ہیں بلکہ اس نے والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے بھی پیدا کردیے ہیں۔
والدین اور بچوں کے درمیان اس فاصلے کی پیش گوئی نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی، حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کردہ حدیث میں جو ترمذی میں درج ہے، آپﷺ نے علامات قیامت بتاتے ہوئے فرمایا: ’’آدمی اپنی بیوی کی اطاعت کرے، اپنی ماں کی نافرمانی کرے، اپنے دوست کو نزدیک کرے، اپنے باپ کو دور رکھے۔‘‘
آج بچوں کی فیس بک میں فرینڈ لسٹ ہوتی ہے، جن کو ان کی پسند ناپسند، مشکلات و مصروفیات ہر چیز کا علم ہوتا ہے، جب کہ پاس رہنے والے والدین، بہن بھائی اس سے بے خبر ہوتے ہیں۔ گوکہ ان حالات نے معاشرے کے سنجیدہ طبقے کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اور اکثر این جی اوز اور اسکول، والدین کے ساتھ اس پر مذاکرے رکھتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنے رب کا کلام اور احادیث اٹھا کر دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ بچوں کی تربیت کے ضمن میں ہمیں کیا ہدایات ملتی ہیں تو ہم ایسے بہت سے مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔
انبیاء اور ان کی اولاد کے درمیان تعلق کا اظہار نہایت خوب صورتی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے اس واقعے کی طرف نظر ڈالیں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے صاحب زادے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کر رہے ہیں۔ آپ چاہتے تو بغیر کچھ بتائے ان کو لے جاتے اور ذبح کرنے کے لیے لٹا دیتے، اور غالباً یہ بھی کچھ غلط نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی منشاء اس طرح بھی پوری ہوسکتی تھی۔ لیکن آپؐ نے جس طرح اس حکم پر عمل کیا اس کو قرآن نے حرف بہ حرف نقل کیا: ’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا، تو ایک روز ابراہیم نے اس سے کہا: ’’بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ (الصفت:۱۰۲)
(یاد رہے کہ اس وقت روایات کے مطابق آپ کی عمردس سال سے بھی کم تھی)
اس اسلوب میں بچوں کی تربیت کے کون سے رہ نما اصول ملتے ہیں:
٭ … بچوں کو نو عمری ہی سے فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے مشوروں میں شامل کریں۔ اس سے ان میں اعتماد، معاملہ فہمی اور والدین سے قربت پیدا ہوگی۔
٭ … بچوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے انہیں ایک مکمل انسان کا درجہ دیں۔اوراہم معاملات میں ان کی رائے لیں۔
٭… ان پر اعتماد کریں کہ وہ درست رائے دیں گے۔
٭… جن فیصلوں کا تعلق بچوں کی ذات سے ہو، ان فیصلوں میں ان کو اس طرح شامل کریں کہ وہ ان کو اپنا ہی فیصلہ سمجھیں۔
٭ … بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ ابتدائی عمر سے ہی اللہ کی رضا کے حصول کے خوگر ہوں اور اس کے لیے ہر تکلیف اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔
دوسرا واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے:
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب یوسف علیہ السلام نے اپنے باپ سے کہا: ’’ابا جان میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘ جواب میں باپ نے کہا: ’’بیٹا اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا، وہ تیرے درپے آزار ہوجائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔‘‘ (یوسف:۵)
اس وقت حضرت یوسف کمسن تھے۔ اس واقعے سے یہ نتیجہ بہ آسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ:
’’والدین کو بچوں سے جذباتی طو رپر اتنا قریب ہونا چاہیے کہ وہ ہر بات ان سے شیئر کریں اور خاص طور پر باپ کو بیٹوں کو اتنا اعتماد دینا ہی چاہیے۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً بچے ماؤں کو اپنی باتیں بتاتے ہیں، باپ کو نہیں بتاتے۔
’’بچوں کو اچھے انداز سے ان افراد کے بارے میں آگاہی دی جاسکتی ہے جن سے ان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، لیکن اس میں غیبت کا عنصر شال نہیں ہونا چاہیے۔
تیسرا اہم ذکر حضرت لقمان کا ہے: ’’یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا: ’’بیٹا، خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ (لقمان:۱۳)
(اور لقمان نے کہا تھا کہ) ’’بیٹا کوئی چیز رائی کے دانے برابر بھی ہو اور کسی چٹان یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ بیٹا نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں بچے کی تربیت ان رہ نما اصول پر کی جائے:
۱- ایمانیات ۲-عبادات ۳-معاملات ۴-اخلاقیات
٭… بچے کی تربیت کا پہلا اہم ترین اصول یہ ہے کہ اس کو ایمان راسخ کی تربیت دی جائے، جس میں شرک اور توحید میں کوئی ابہام نہ ہو، نیز یہ کہ اللہ ہمارے ہر ظاہر و پوشیدہ عمل سے واقف ہے (اس طرح بچے والدین سے چھپ کر بھی غلط کام کرنے سے باز رہیں گے۔
٭ …دوسری تعلیم دینا جو والدین کی ذمہ داری ہے وہ عبادات کا التزام کروانا، جیسا کہ حضرت لقمان نے نماز قائم کرنے کی نصیحت کی۔
(اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجئے اور خود بھی اس کے پابند رہیے۔‘‘ طہٰ ۲۳۱)
’’تیسرا حکم یہ ہے کہ معاملات اور معاشرتی رویہ ایسا ہو جس سے کسی کی تحقیر نہ ہو۔
تربیت اولاد کے ضمن میں عملی رہ نمائی ہمیں آپؐ کی سیرت طیبہ سے ملتی ہے۔
ایک بار حضرت امام حسینؓ کے پوچھنے پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آتے تو اپنا وقت تین طرح کی مصروفیت میں صرف کرتے۔ کچھ خدا کی عبادت میں صرف ہوتا، کچھ وقت اہل و عیال کے لیے تھا اور کچھ وقت اپنے آرام کے لیے۔ پھر ان ہی اوقات میں ایک حصہ ملاقاتیوں کے لیے نکالتے۔ (محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم، نعیم صدیقی)
گویا اپنے اوقات کو کچھ حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے ضرور مختص کریں۔ جب آپؐ نے کارِ نبوت کے ساتھ اس کو عملی طور پر کر دکھایا تو ہمیں قلت وقت کی شکایت زیب نہیںدیتی۔ وقت کو خصوصی طور پر ترتیب دیں اور یہ ملاقات اسکول کی کاپیاں چیک کرنا، ہوم ورک اور پھر رزلٹ پر ڈانٹ ڈپٹ والی نہیں بلکہ ایسا تعلق پیدا کرنے والی ہو جس کا اظہار حضرت اسماعیل اور حضرت یعقوب علیہما السلام کی مثالوں سے پیش کیا گیا ہے۔
حضرت فاطمہؓ آتیں تو اٹھ کر استقبال کرتے۔ خود تشریف لے جاتے۔ اپنی کہتے، ان کی سنتے، ان کے صاحب زادوں امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما سے بہت ہی پیار تھا۔ ان کو گود میں لیتے۔ ان کو کندھوں پر سوار کرتے۔ ان کے لیے گھوڑا بنتے۔ حالت نماز میں بھی ان کو کندھوں پر بیٹھنے دیتے۔ ایک بار اقرع بن حابسؓ نے آپ کو جناب حسنؓ کا بوسہ لیتے دیکھا تو تعجب سے کہا کہ ’’میرے تو دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا مگر آپؐ بوسہ لیتے ہیں! آپؐ نے فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘
یہ اولاد کے ساتھ جذباتی وابستگی کا عملی اظہار ہے جس سے گھر میں محبت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ تربیت کے ان تمام اصولوں پر عمل کر کے بھی والدین کا کام ختم نہیں ہو جاتا۔ اب انہیں اپنے رب سے دعا کرتے رہنا چاہیے۔
’’اے اللہ ہمیں ہمارے ازواج اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔‘‘lll