اپنے بچوں کی فکر کیجیے!

ڈاکٹر صابر حسین خاں (ماہرِ نفسیات)

باشعور والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت پر اپنی توانائی، وقت اور رقم خرچ کر کے انہیں معاشرے کا عزت دار اور ذمے دار شہری بنا ئیں۔ ایسی ہی خواہش آپ کی بھی ہوگیلیکن یہ عین ممکن ہے، شعوری یا لاشعوری طور پر آپ سے کوئی ایسا قدم اٹھ جائے جو معصوم ذہنوں کو منتشر اور پراگندہ کر دے۔
اکیسویں صدی ہمارے لیے کئی سوغاتوں کے ساتھ ایک شدید نوعیت کا معاشرتی مسئلہ بھی لائی ہے اور اس کے ذمے دار ہم اور آپ ہیں…. بچوں کا ناپختہ ذہن وہی کچھ سیکھتا اور اپنے اندر محفوظ کرتا ہے جوا سے ملے یا نظر آئے۔ جب اذانوں کی آواز راگ رنگ موسیقی کے شور میں دب جائے، محفلوں میں علم ،دانش اور کتابوں کے بجائے کپڑوں، اداکاروں اور فلموں کے بارے میں گفتگو ہونے لگے، معاشی دھندوں سے نجات پانے کے بعد لوگ ہمسایوں، رشتے داروں اور اقربا کا حال پوچھنے اور ان سے ملنے کے بجائے کلبوں اور ہوٹلوں کا رخ کریں تو آپ خود ہی بتائیے ہم اپنے بچوں کی ذہنی تربیت اور فکری نشو و نما کے لیے کس قسم کا سامان مہیا کر رہے ہیں؟
کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کے لڑکے یا لڑکی کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ان کی مصروفیات اور تفریحات کیسی ہیں؟ کبھی آپ نے سوچا کہ بیٹے کے دوست کیسے ہیں یا بیٹی اپنا زیادہ وقت آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر گزارنے لگی ہے؟ کبھی آپ نے دیکھا کہ نصابی کتابوں کے علاوہ بچے کیسے رسائل و جرائد کا مطالعہ کرتے ہیں؟ دفتر یا دکان میں بیٹھے ہوئے کبھی آپ کو خیال آیا کہ گھر میں اس وقت کون سی فلم دیکھی جارہی ہوگی یا کیبل پر کون سا پروگرام آ رہا ہے؟ کیا آپ کو علم ہے کہ آپ کے بیٹے کو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ، طارق بن زیادؒ اور خالد بن ولیدؓ کے بجائے نئی فلموں کی کہانیاں اور تمام نئے اداکاروں کی سوانح عمریاں زبانی یاد ہیں؟ کیا آپ کو پتا ہے کہ بیٹی کے پاس نیل پالش اور لپ اسٹک کے کتنے شیڈ اور نئے گانوں کے کتنے البم موجود ہیں؟ کیا کبھی آپ نے ان کی بک ڈائری اٹھا کر دیکھی ہے کہ ان میں ٹیلی فون نمبر اور پتوں کے علاوہ کس نوعیت کے اشعار اور اقوال لکھے ہوئے ہیں؟کیا آپ نے کبھی ان کا موبائل فون کھول کر دیکھا کہ اس میں کیا کچھ ہے؟
کیا بھی آپ نے اپنے سولہ سالہ بیٹے یا چودہ سالہ بیٹی کو پاس بٹھا کر ان کے تیزی سے وسیع ہوتے ذہن کے مسائل، تضادات اور کشمکش سمجھنے کی کوشش کی ہے؟ کیا آپ کو یاد ہے کہ جب آپ خود بارہ سال کے تھے تو آپ کتنی شدت سے اپنے والدین کی عدم توجہی اور شفقت کی کمی شکار ر ہے اور کیسے خواب دیکھا کرتے تھے؟ کیا آپ کا بارہ سالہ بچہ بھی عمر کے اس حصے اور تجربے سے گزر رہا ہے جس سے گزرتے ہوئے آؑپ کے نازک احساسات کو بھی ٹھیس لگی تھی؟
اگر ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے تو یقین کیجیے آپ خسارے میں ہیںاور زمانہ آپ کی شہ ر گ پر ہاتھ رکھ چکا ہے۔ ساحل کے ریت کی طرح آپ کے قدموں تلے زمین سرکتی جارہی ہے۔
یادر کھیئے، بڑوں کی نقل کرنے اور ماحول کا اثر لینے کے علاوہ جو بات بچوں کے ناپختہ ذہنوں پر آہستہ آہستہ نقش ہو، وہ کاغذ پر چھپے حروف ہیں۔ خواہ وہ نصابی کتابوں میں ہوں یا غیر نصابی کتابوں میں! زندگی کے اولین برسوں میں قدرتی ذہنی نشو ونما کے ساتھ ساتھ یاد کرنے اور رکھنے کی فطری صلاحیت بھی جلا پاتی ہے۔ اس دوران نوجوان ذہن جو خواب سنے، جس تصویر میں کچے رنگ بھرے، یا جس خیال کی بنیادیں تعمیر کرے، وہ خواب، تصویر یا خیال اس کےعمل کی تفسیر اور سوچ کی تعبیر ہوتا ہے۔ ہم سب اپنے بچپن کی پیداوار ہیں پھر بھی یہ احتیاط نہیں رکھتے کہ آج جو کچھ ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو دیکھنے، پڑھنے اور برتنے کے لیے دے رہے ہیں، وہ اخلاق، کردار اور ان میں اعلیٰ صفات جنم دینے اور پروان چڑھانے کے لیے قطعاً نا کافی ہے۔
اولاد کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خواہشات کا احترام ضرور کریں مگر کچھ حدود کے درمیان رہتے ہوئے! انہیں کوئی آسانی یا آسائش مہیا کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ آج آپ بچے کو جو ماحول دیں گے، کل وہ اسے ہی اپنے عمل میں جمع کر کے معاشرے کے سپرد کر دے گا۔ بچوں کو وقت دیجیے، انہیں آپ کی توجہ، محبت اور شفقت کی ضرورت ہے۔ ان کو دولت نہیں آپ کی قربت چاہیے اگر آپ ان کی یہ ضرورت پوری نہیں کر سکیں تو وہ جذبات کی تسکین کے لیے گھر سے باہر دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔
گھرسے با ہر اگر برگد کا سایہ یا گلاب کی مہک ہے، تو ساتھ میں کیکر اورببول کی کانٹے دار جھاڑیاں بھی ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے بچے کے نصیب میں خوشبو ہے یاخون کی بوند یں ۔ البتہ ہر کوئی یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کا بچہ ہمیشہ خوشیوں کے جھولے میں جھکو لے لیتار ہے۔ یاد رکھیے حقیقی اور دائمی خوشی سچائی، سادگی اور قناعت میں ہے۔ بچوں کو اپنے عمل سے ان خصوصیات کا درس دیجیے۔ ان کی سوچ کو شروع سے ’’زیست برائے تائید ایزدی‘‘ کا محور دیں۔ اور بے بنیاد اصولوں اور بے معنی روایتوں کے پہرے نہ بٹھا ئیں۔ ذہن کی زرخیز مٹی میں مثبت سوالوں کے پودے لگائیے اور تسلی بخش جوابات سے ان کی آبیاری کیجیے۔ بصورت دیگر حالات وتجربات کی بھٹی میں یہ پھول سے چہرے کمھلا جائیں گے۔
آپ بچوں کی معصومیت، شرم و حیا برقرار رکھیں اور نگاہ کی حفاظت کریں گے تو آپ کے گھر کی دیواریں بھی مضبوط و محفوظ رہیں گی۔ بچوں کے سامنے خود کو صبر و شکر کا مثالی پیکر بنا کر پیش کیجیے۔ یوں آپ کے گھر کا سکون بھی درہم برہم نہیں ہو گا۔ یادر ہے روز محشر جہاں ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ ماں باپ کے حقوق نبھانے میں ہم نے کوئی پہلو تہی تو نہیں برتی، وہاں یہ سوال بھی اٹھایا جائے گا کہ بحیثیت والدین کیا ہم نے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیے؟ ہمارے سامنے اقوام مغرب کی جیتی جاگتی اور عبرتناک مثال موجود ہے۔ وہاں اسکولوں تک میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے پڑھائے جاتے ہیں۔ اسی لیے ایسے بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جو یہ نہیں جانتے کہ ان کا باپ کون ہے۔ تہذیبی انحطاط اور اخلاقی تنزل کے شرمناک مظاہرے دیکھ کر شیطان کےماتھے پر بھی پسینہ آ گیا ہوگا۔
کیا آپ کو بھی ایسے معاشرے کا محض تصور کرتے ہوئے کراہت محسوس نہیں ہوتی؟ یقیناً ہوتی ہوگی۔ اگر ہوتی ہے تو پھر دیر کس بات کی ،آیئے آج اور ابھی سے اپنے بچوں اور نو جوانوں کی پاسبانی کا بیڑہ اٹھالیں کہ آسمان سکڑکر ہمارے سروں تک آپہنچا ہے۔ قدموں تلے سے زمین تیزی سے سرک رہی ہے اور زمانہ اپنا ہاتھ ہماری شہ رگ پر رکھ چکا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں