جب سے جماعت کی لڑکیاں اسے چھیڑنے لگیں تب سے اس کا بیشتروقت آئینے کے سامنے کھڑے گزرنے لگا۔ سب لڑکیوں کی ایک ہی رائے تھی کہ سونا بڑی پیاری ہے۔ وہ نہ صرف نام کی سونا تھی بلکہ شکل و صورت سے بھی کچھ کم نہ تھی۔ کلاس میں جب لڑکیاںاسے چھیڑتیں کہ تم پہ تو لڑکے جان دیتے ہیں تو وہ دل ہی دل میں آسمان کو چھونے دوڑتی۔ ایک تو تھی وہ بلا کی خوب صورت، اوپر سے لڑکیوں کی تعریف نے اس کا قد غرو ر کی ملاوٹ سے بڑھانا شروع کر دیا۔ روز گھر آ کے آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے سراپے پہ نظر دوڑاتی اور نیم مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ہی آپ بْدبْداتی کمرے میںچلی جاتی۔
کچھ دنوں سے سونا کی اماں متفکر سی رہنے لگی تھی۔ جب بیٹیوںکے قد حد سے نکلتے اور قدم دہلیز کی طرف لپکنا شروع ہوتے ہیں تو کسی اورکو خبر ہو نا ہو، ماں کے دل میں فِٹ گھڑیال گھنٹا بجانا شروع کر دیتا ہے۔ سونا کی ماں غور کر رہی تھی کہ سونا بیٹھے بیٹھے ہنسنا شروع کر دیتی ہے۔ کبھی اداس ہو جاتی اور کبھی بت بن کر خلائوں میںگھورتی رہتی ہے۔ اپنے ہی آپ پریشان ہو جاتی اور خود بخود خوش ہو جاتی ہے۔ کبھی اسکول سے آتے ہی کتابیں میز پر پھینکیں اور دھڑام سے بستر پر گر جاتی اور گھنٹوں کمرے سے باہر نہیں آتی تھی اورکبھی آتے ہی ہمسایوں کی بچیوں کے ساتھ کھیل کود میںایسے مشغول ہوتی کہ شام کی اذانیں ہو جانے پر بھی ان کا کھیل ختم نہ ہوتا۔
ماں روز روز اس کی حرکتوں اور بے جا سوچ بچار کے بھنور میںمبتلا اس کی صورت کو دیکھتی ایک انجانے خوف میں مبتلا ہونے لگی۔ جانے اس کی ماں کو کس چیز کا ڈر کھائے جا رہا تھاکہ وہ اندر ہی اندر گھلتی چلی جا رہی تھی، کبھی کھل کے اس نے اپنی بیٹی سے کوئی بات کی ہی نہیں تھی۔ شروع سے اس کا وتیرہ تھا کہ بیٹا ہو یا بیٹی اس سے مطلب کی بات کی جائے یا پھر غصے سے ڈانٹ دیا جائے۔ کبھی اپنی بیٹی کو ٹٹولنے یا اس کو اپنے دل کے قریب کرنے کا اس نے سوچا ہی نہ تھا۔ بیٹی کے دل و دماغ میں کون سا طوفان پل رہاہے، اس نے جاننے کی کوشش ہی نہ کی۔
ایک دن سونا اسکول سے آئی، سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ یہ دیکھ کر ماں پریشان ہو گئی۔بھاگ کر کمرے کی طرف گئی اور دروازہ بجانا شروع کیا مگر سونا نے دروازہ کھولنے کا نام ہی نہیں لیا۔ بڑی منت سماجت اور دھمکیاں ملنے کے بعد کہیں جا کر اس نے دروازہ کھولا۔ ماں نے اندر قدم رکھا اور بیٹی کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کربدلتے رنگوں کو پڑھنا چاہا۔ مگر سونا نے اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا۔
ماں کے دل میں چھپے سانپ نے اس کے دل پہ زور سے ڈس لیا۔ اس کا چہرہ اترنا شروع ہو گیا۔ وہ اپنی پریشان بیٹی سے کیا پوچھتی، خود اس کے اپنے دل کو سہارے کی ضرورت پڑ گئی۔ آخر ماں تھی، بیٹی کے ماتھے پر بہتے پسینے کی مہک نے ماں کو بتا دیا تھا کہ کس موسم کی خوشبو ان کے آنگن میں بے وقت آپہنچی ہے۔ ماں کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ ذرا بھی سمجھ نہ آئی کہ کیا کرے۔ بیٹی کا گلا دبا دوں یا خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر لوں۔
نازونعم سے پلی، چار بھائیوں کی ایک بہن نے پورے گھر کا جنازہ نکال دیا تھا۔ ماں رونا چاہے مگر اس سے رویا نہ جائے۔ بالآخر اس نے ہمت کر کے سونا کو اپنے قریب کیا۔ جو باتیں اسے شروع میں ہی اپنی بیٹی کے کان میں ہولے ہولے اور تھوڑی تھوڑی کر کے ڈالنی چاہیے تھیں ،وہ ساری کہانی آج ایک ساتھ بتانے یا سمجھانے کے وقت وہ اپنی ہمت مجتمع نہیںکر پا رہی تھی۔
سونا کا سینہ آج معمول سے بڑھ کر دھڑک رہا تھا اور آج وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنی آنکھ سے آنکھ نہیں ملا پارہی تھی۔ ایک مرتبہ تو اس نے سوچا کہ میں نے ایسا کچھ کیا ہی کیوں کہ خود اپنی تصویر کو دیکھنے کے قابل نہیں رہی۔ مگر اگلی ہی دفعہ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ میری باقی سہیلیاں بھی تو ایسی ہی ہیں۔ وہ کون سا دودھ کی دھلی ہیں۔ آخر ایک نہ ایک دن تو یہ سب ہونا ہی تھا اور اگر ابھی ہو گیا تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اور پھر ہلکی سی مسکان کے ساتھ وہ کمرے سے باہر آگئی۔
جانے یہ کیسی بزدل ماں تھی کہ اپنی بچی کو سینے سے لگا کر اس کی حفاظت نہ کر سکی۔ مرغی بھی ایک عرصہ تک اپنے چوزوںکو پروں کے نیچے چھپائے رکھتی ہے۔ ہلکی سی آہٹ، بلی کی میاؤں اور کتے کے بھونکنے پہ بھی بھاگ کے چوزوں کو آغوش میں لے لیتی ہے۔ جب کبھی کوئی بلا اس کے چوزوں پہ حملہ آور ہو تو اپنی ساری قوت کے ساتھ انھیں بچانے کے لیے سینہ سپر ہو جاتی ہے۔ مگر ہم انسان ہی اتنے بے پروا کیوں ہیں کہ بچوں کے جوان ہو جانے پر ان پہ غور نہیں کرتے۔
جب بچے جوان ہوں، تو تب ان کے والدین کو اپنی اولاد کے قریب ہونے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں والدین اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو تو سینے سے لگائے پھرتے ہیں، ان کی ایک ایک خواہش اور تکلیف کا برابر خیال رکھتے ہیں۔ مگر جب یہ بچے سن بلوغت کو پہنچ جائیں تو والدین تب ان کی طرف اتنی توجہ کیوں نہیں دیتے، تب اتنا خیال کیوں نہیں رکھتے کہ وہ بری صحبت اور کانٹوں سے بھرے راستوں پہ چلنے سے بچ جائیں۔جو باتیں سب سے پہلے اپنے والدین سے سیکھنی چاہئیں وہی باتیں بچے دوسروں سے سیکھتے ہیں۔ دوسرے لوگ ان باتوں کے ساتھ اپنی سوچ یا یوں کہہ لیں کہ اپنی خواہش انڈیل کر انھیں سمجھاتے ہیں جس وجہ سے بچوں میں عجیب و غریب قسم کی خواہشات وقت سے پہلے ہی پنپنا شروع ہو جاتی ہیں۔
لڑکپن کے بعد جوانی میں قدم رکھتے ہوئے جس موڑ سے بچوں نے مڑنا ہوتا ہے ،بس وہی جگہ ہوتی ہے جہاں والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی گاڑی کا اسٹیئرنگ خود سنبھال لیں۔ وگرنہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ کسی اور کے ہاتھ آگئی، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ گاڑی کوحادثہ پیش آنے کا احتمال بڑھ جائے گا۔ حادثہ بھی ایسا کہ انسان نہ زندوں میں شمار ہو نہ مْردوں میں۔
عورت کو سب سے زیادہ جس امانت کوپردوں میں چھپا کررکھنا پڑتا ہے۔ آج کے دور میں وہی کچھ سب سے پہلے عیاں ہوتی ہے۔ فیشن کے نام پر بے ڈھنگی سوچ اور بے راہروی کے ناگ ہماری بہو بیٹیوں کو نگلتے جا رہے ہیں۔ کہیں ماں باپ جدیدیت کے عشق میں اپنے بچے بچیوںکو سنبھال نہیں پاتے تو کہیں والدین اپنے بچوںکے ساتھ اس قدر گھلے ملے نہیں ہوتے کہ بچوں کے ساتھ پیش آنے والے اچھے یا برے حادثات کا بروقت پتا لگا کے ان کا تدارک کر سکیں۔
سونا کی ماں اپنی ساری ہمت اکٹھی کر کے بھی اپنی بیٹی کو سمجھا نہ سکی کہ بیٹا جس راستے پہ تم چل رہی ہو، اس پرکانٹوں اور دکھوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ چند دن کی رونق اور دلکشی ایک ایسا ناگ ہے جو تمھارے مستقبل کو نگل جائے گا۔ ایسی خواہشات جو وقت سے پہلے ہی لڑکیوں میں پنپتی ہیں اور وہ اپنے خون کی گرماہٹ سے بہک جاتی ہیں، وہ نہ صرف اپنی زندگی کا خاتمہ کر بیٹھتی بلکہ اپنے سے جڑے ہر رشتے کو ایسا دھبا لگا جاتی ہیں کہ دنیا کا کوئی کیمیکل بھی اس داغ کو دھو نہیں پاتا۔
بزدل ماں جس نے پہلے جرأت کی تھی اور نہ بعد میں، زمانے کی باتوں سے تنگ آ کر موت کو گلے لگا لیا۔ بھائی اور باپ زمانے سے ایسے منہ چھپاتے پھرے کہ جیسے ان کے جسموں سے گندی بْو آتی ہے کہ لوگ دورہی سے ان کی طرف انگلی اٹھانا شروع کر دیتے کہ ان کی سونا کھوٹی نکلی! والدین لوگوں کو کیا جواب دیتے کہ ہماری پرورش اور لاڈ پیار میں ایسی کون سی کمی رہ گئی تھی کہ یہ دن دیکھنے کو ملا۔ اگر سونا اپنے گھر والوں سے اپنی پسند کا ذکر کر لیتی توشاید وہ مان بھی جاتے۔ مگر تنہافیصلہ کر کے جس طرح سے وہ اپنے والدین کو تنہا کر گئی تھی ،اس کا ازالہ ناممکن تھا۔
کچھ فیشن کی آڑ میں، کچھ میڈیا کی یلغار اور کچھ اپنے جذبات پہ کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے بچے ایسے گناہوں کے مرتکب ہو جاتے ہیں جن کا کوئی کفارہ نہیں ہوتا۔ چند منٹ کا جذباتی فیصلہ نہ صرف بچوں بلکہ ماں باپ کو بھی ایسے مقام پر لے آتا ہے کہ سوائے منہ چھپانے کے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ حد سے بڑھی خواہشات جن کے منہ تھوتھنیوں کی طرح آگے نکلے ہوتے ہیں، اگر ان سے شروع میں ہی کنارہ کشی کر لی جائے تو مستقبل کی تباہی سے کسی قدر بچا جا سکتا ہے۔ نجانے بے حسی کے اس دور میں کتنے والدین کا سونا کھوٹا ہوتاجا رہا ہے۔ والدین لاکھ سیف میں اپنا اپنا سونا محفوظ کرنے کا جتن کرتے ہیں مگر شاید چور زیادہ طاقتور ہیں یا پھر سونا بذات خودچور کودعوت دے ڈالتا ہے۔
والدین کو اپنے اپنے سونے کی حفاظت کے لیے ایسے اقدامات ضرور کرنے چاہئیںکہ اِن کا سونا اِن سے دور نہ ہو۔جہاں ماں بیٹی کی بہتر محافظ ہوتی ہے وہاں باپ کو بھی چاہیے کہ اس بات کا خیال رکھے کہ بیٹی کے بدلتے رنگ کس طوفان کا پیش خیمہ ہیں۔
اکثر والدین اپنے بچوں سے شرماتے ہیں۔ جب کبھی بچے ان سے عجیب و غریب مگر فطرت سے متعلق کچھ سوال جواب کریں توبجائے اس کے کہ والدین بچوں کے ساتھ آکر بیٹھیں اور ان کی بات سننے کے بعد کوئی اچھا اور معقول جواب دے کر ان کی تسلی کریں وہ یا تو دوسرے کمرے میں چل دیتے ہیں یا پھر موضوع ہی بدل دیتے ہیں۔ اس وجہ سے بچوں کی تسلی نہیں ہوتی اور ان باتوں سے متعلق تجسس بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ جب یہ تجسس جنون کی صورت اختیار کرلے تو ان بچوں کا مستقبل بھی سونا سے کچھ مختلف نہیں ہوتا۔lll