نپولین نے کہا تھا: تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔
ماں کی یہ اہمیت اس لیے ہے کہ انسانوں کا بچپن ماں کی گود میں بسر ہوتا ہے اور انسان کا بچپن جیسا ہوتا ہے اس کی باقی زندگی بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔ لیکن بچپن صرف ایک ’’اجمال‘‘ ہے۔ صرف ایک ’’امکان‘‘ ہے۔
استاد کی اہمیت یہ ہے کہ وہ اس اجمال کو تفصیل فراہم کرتا ہے، اور امکان کو حقیقت بناتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ماں بچپن کی ’’استاد‘‘ ہے اور استاد ایسی ’’ماں‘‘ ہے جس کا اثر پوری زندگی پر پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ ماں کی گود سے اٹھ کر بچہ سب سے پہلے مدرسہ یعنی استاد کے پاس جاتا ہے اور وہاں سے اس کی شعوری زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استاد کی اہمیت زندگی میں ماں سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ جب کہ تعلیمی اداروں کے نام کے بعد لوگ تعلیمی اداروں کی عمارت ارو وہاں فراہم کی گئی سہولتوں کو دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد لوگوں کی نظر نصاب پر جاتی ہے۔ ان چیزوں پر توانائی صرف کرنے کے بعد اگر تھوڑی بہت توانائی بچ جاتی ہے تو لوگ ’’استاد‘‘ کو دیکھنے کی زحمت کرتے ہیں۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم منہ کے بل گرا پڑا ہے اور اس سے ایسے طالب علم برآمد ہو رہے ہیں جن کی زندگی اور ترجیحات کی فہرست میں یا تو علم کہیں موجود ہی نہیں اور موجود ہے تو بہت نیچے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ایک اچھے استاد سے مراد کیا ہے؟
اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دینا ہو تو کہا جائے گا کہ ایک اچھا استاد وہ ہے جو اپنی معلومات کو علم بنا دے اور علم کو عمل میں ڈھال کر طلبہ کے لیے نمونہ عمل بن جائے۔ لیکن اس تعریف کامفہوم کیا ہے؟
بلاشبہ صرف معلومات بھی طلبہ کو متاثر کرتی ہیں، مگر معلومات کی فراہمی اور ان پر اصرار اور انحصار سے صرف ’’رٹو طوطے‘‘ پیدا ہوتے ہیں۔ صرف علم ہی طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار اور متحرک کرتا ہے۔ چنانچہ ایک استاد کا فرض ہے کہ وہ معلومات کو علم میں ڈھالے۔ معلومات کو علم میں ڈھالنے کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ استاد طلبہ کی معلومات کو مربوط کرے او ران کو ایک تناظر یا World View پیدا کرنا سکھائے۔ دوسرے یہ کہ وہ علم کو زندگی کی تعبیر کے لیے بروئے کار لائے۔ علم کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ دماغوں کو مسخر کرتا ہے۔ چناں چہ جس استاد کے پاس علم ہوتا ہے وہ طلبہ پر گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ آج کل لوگ شکایت کرتے ہیں کہ طالب علم اساتذہ کی عزت نہیں کرتے۔ بلاشبہ اس کی ذمے داری طالب علموں اور ان کے والدین پر عائد ہوتی ہے، لیکن خود اساتذہ بھی اس صورت حال کے ذمے دار ہیں۔ اس مسئلے کی بنیادی بات یہ ہے کہ جیسے ہی طالب علم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے استاد اور خود اس کی علمی سطح میں زیادہ فرق نہیں ہے تو وہ استاد کی عزت کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ خیال ہمیشہ شعور کی سطح پر نہیں ہوتا، لیکن اس کا اثر طالب علم پر مرتب ہوکر رہتا ہے۔ البتہ وہ استاد جس کی علمی سطح بلند ہوتی ہے، برے سے برا طالب علم بھی خود کو اس کی عزت پر ’’مجبور‘‘ پاتا ہے۔ لیکن طالب علموں کی قلب ماہیت کے لیے صرف علم کافی نہیں۔ طالب علم جب دیکھتے ہیں کہ استاد کے قول اور فعل میں تصاد ہے تو وہ اس کا ’’علمی اثر‘‘ ضرور قبول کرلیتے ہیں مگر ’’اخلاقی اثر‘‘ قبول نہیں کرتے اور اخلاقی اثر کے بغیر شخصیتوں کی قلب ماہیت ممکن نہیں ہوتی۔ چناں چہ اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو طلبہ کے لیے ’’نمونہ عمل‘‘ بنائیں۔ جب کوئی استاد علم اور عمل کا جامع بن جاتا ہے تو پھر وہ بجائے خود ایک چھوٹی سی تہذیب بن جاتا ہے، جیتی جاگتی تہذیب۔ پھر اس کے اثرات نسل درنسل منتقل ہوتے ہیں۔ غیر نبیوں میں اس کی سب سے بڑی مثال سقراط ہے۔ ہمارے صوفیا میں اس کی نطیر شیخ محی الدین ابن عربیؒ او رحضرت مجدد الف ثانی ہیں۔ لیکن ایک اچھے استاد کی معنویت اور اہمیت صرف انہی خصوصیات تک محدود نہیں۔
ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو کلاس روم کو ’’خود کلامی‘‘ کے جبر کا شکار نہیں ہونے دیتا، اور کلاس روم میں ’’مکالمے‘‘ کی راہ ہموارکرتا ہے۔ مکالمہ تدریس کے مشینی عمل کو تخلیقی بنا دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سبق کا مواد وہی رہتا ہے مگر اس کی تفہیم میں تنوع پیدا ہوتا رہتا ہے۔ اس صورت حال کا استاد کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ’’سکھانے‘‘ کے ساتھ ساتھ خود بھی کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے اور تدریس کا عمل اس کی شخصیت کی نمو کرتا رہتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک استاد جتنا نمو پذیر ہوسکتا ہے یا Growکرسکتا ہے اتنا کسی اور شعبے سے وابستہ شخص نہیں ہوسکتا۔ استاد کے اس شخصی فائدے کا فیضان طلبہ تک بھی پہنچتا ہے لیکن چوں کہ فی زمانہ تدریس کے اس پہلو پر لوگوں کی توجہ نہیں رہی، اس لیے کلاس رومز میں مکالمے کی جگہ خود کلامی نے لے لی ہے۔ بعض اساتذہ طلبہ سے کہتے ضرور ہیں کہ وہ سوال کریں، مگر جب طالب علم واقعی سوال کرنے لگتے ہیں تو اکثر اساتذہ اس کا برا مناتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوال ان کے علم اور تعبیر کو چیلنج کرتا ہے اور انہیں مطالعہ جاری رکھنے اور مسلسل سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ چناں چہ اساتذہ عام طور پر سوالات کے عمل کو توہین کا سلسلہ بنا کر اس کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ بعض اساتذہ کے پاس علم تو ہوتا ہے مگر اس کے باوجود وہ اچھے استاد نہیں ہوتے۔ اس کی ایک وجہ ان کے علم اور عمل کا تضاد ہوتا ہے، لیکن اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ طالب علموں سے اتنے فاصلے پر کھڑے رہتے ہیں کہ طالب علم اور استاد ایک اکائی نہیں بن پاتے۔ اس کے برعکس بعض اساتذہ کا علم زیادہ نہیں ہوتا مگر وہ طلبہ کے ساتھ ’’تعلق‘‘ پیدا کرلیتے ہیں۔ چناں چہ ایسے اساتذہ کم علمی کے باوجود طلبہ پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
یہ خیال عام ہے کہ سزا کے خوف سے طالب علموں کو پڑھنے پر مائل کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ خیال جتنا عام ہے اتنا ہی زیادہ غلط ہے۔ سزا کا خوف صرف حافظے Memorization کے عمل میں مددگار ہوتا ہے۔ لیکن خوف علم کے انجذاب میں ایک رکاوٹ بن جاتا ہے۔ چناں چہ اچھا استاد ہمیشہ سزا کے امکان کو بروئے کار لانے سے گریزاں رہتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ طالب علم میں علم کی ’’لذت‘‘ پیدا کردے، تاکہ وہ علم کو زیادہ سے زیادہ اپنے وجود کا حصہ بنا کر اس میں اضافے پر مائل ہوسکے۔
رسول اللہﷺ کی تعلیم کا ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ آپ ہمیشہ مخاطب کی سطح کے مطابق خطاب فرماتے۔ اس خوبی کے بغیر کوئی شخص اچھا استاد بن ہی نہیں سکتا۔ تاریخ میں بڑے اساتذہ نے ہمیشہ اس خوبی کا بھی مظاہرہ کیا ہے کہ وہ ایک ہی بات کو مختلف الفاظ اور اصطلاحوں میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ایک استاد کو ایک سطح کے طلبہ کو پڑھاتے پڑھاتے اپنے مواد پر اتنا حاوی ہو جانا چاہیے کہ وہ اس مواد کو مختلف پیرایوں میں بیان کرسکے۔
ایک اچھے استاد میں یہ خوبی بھی ہونی چاہیے کہ وہ جماعت کے کسی ایک حصے کے بجائے پوری جماعت کے لیے کفایت کرنے والا ہو اور وہ اپنے علم و عمل سے اوسط درجے سے کم صلاحیت کے حامل طلبہ کو اوسط درجے کا، اوسط درجے کی صلاحیت کے حامل طلبہ کو ذہین اور ذہین طلبہ کو عبقری بننے میں مدد دے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوچکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ استاد کے ادارے کا انہدام ہے۔ چناں چہ استاد کے کردار کو مستحکم کیے بغیر نہ صرف یہ کہ تعلیم و تربیت کے عمل کو موثر نہیں بنایا جاسکتا، بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ماؤں کے محنت کو ضائع ہونے سے بھی نہیں روکا جاسکتا۔lll
نے عورت پر کمانے کا بوجھ نہیں ڈالا ہے۔ یہ ساری ذمہ داری خاندان کے مردوں پر ہے۔ خاندانی نظام میں اسلام کے مطابق مرد و خواتین کے درمیان ذمہ داریوں کی جو فطری تقسیم ہے اس میں عورت کے ذمہ گھر کا محاذ آتا ہے جو اس کی فطرت و طبیعت دونوں سے میل رکھتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عورت کے لیے گھر سے نکلنا اور کمانا سرے سے جائز ہی نہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اسلام اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا اور حقیقت یہ ہے کہ عورت کو کسی بھی وجہ سے اگر گھر سے نکلنا پڑے خواہ وہ شوق کے سبب ہو یا مجبورا، روزگار کے لیے ہو یا دعوتی و تحریکی سرگرمیوں کے لیے اس کے لیے آداب و شرائط متعین کردیے گئے ہیں۔ اور یہ خود شریعت نے کیے ہیں۔ اگر عورت ان آداب و شرائط کا لحاظ رکھتی ہے تو پھر اس کے کمانے کھانے کے لیے نکلنے یا دعوتی سرگرمیوں کے لیے نکلنے میں کوئی حرج نہیں، اس کے برعکس خواہ وہ کتنے ہی نیک کام کے لیے نکلے مگر ان آداب کا لحاظ نہ کرے تو ہ شریعت کے احکامات کے خلاف ہوگا۔
پہلا ادب: لباس و حجاب
وہ احکام جن کا قرآن مجید اور سنت میں عمل کرنے کا کہا گیا ہے، ان کی خلاف ورزی نہ ہو۔اس ضمن میں لباس کے احکام اور مردوں کے سامنے جاتے وقت احتیاط کے جو احکامات دیے گئے ہیں، ان کا خیال رکھا جائے۔اس میں کچھ امور کی تعلیم احادیث سے بھی ملتی ہے۔جو اپنے مزاج اور روح میں قرآن ہی سے ملتی ہیں۔ جیسے آپ کا یہ فرمان کہ عورتیں خوشبو لگا کر مردوں میں نہ آئیں۔یہ ’لَا یْبدِینَ زِینَتَھْنَّ‘ کی ایک صورت ہے۔
’’عبد اللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ نبی پاک نے ہم سے فرمایا: جب تم مسجد میں حاضر ہو تو خوشبو نہ لگاؤ۔‘‘ (صحیح مسلم)
دوسرا ادب: شرعی مطالبات کی پاس داری
زندگی میں کوئی بھی کام ایسا کرنا اسلامی اعتبار سے ناجائز ہے جو کسی عقیدے اور شرعی حکم کے خلاف ہو۔ حد یہ ہے کہ نہایت ضروری کام جیسے روزگار کا حصول ، اکل طعام بھی ان حدود کے اندر رہ کر ہو گا، جو اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے مقرر کیے ہیں۔ اگر کوئی امتی ان حدود کی پاس داری کرتے ہوئے زندگی میں اپنی ضرورت اور اپنے حقوق کے تمام داعیات کو پورا کرتا ہے تو اسلام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ کا کوئی کام جب شریعت کے خلاف نہ ہو تو کیسا ہی انوکھا کام کیوں نہ ہو وہ جائز ہے۔ مثلاًمداری کے تماشے کو جوازکی سند خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فراہم کی ہے (البخاری ) کی روایت ہے کہ:
’’عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہیں اور حبشی مسجد میں کھیل دکھا رہے ہیں، (مجھے دیکھ کر )نبیؐ مجھے چادر کی اوٹ میں لے لیتے ہیں، اور میں ان کا کھیل دیکھتی رہی۔‘‘
دینی تعلیمات کو بالعموم دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: حقوق اللہ اور حقوق العباد، جو شخص ان کی پابندی کرتے ہوئے کوئی بھی سنجیدہ، تفریحی، تخلیقی ، اصلاحی، دینی، تحقیقی غرض کسی بھی نوع کا کام کرتا ہے تو اسلام کے مطابق وہ درست کرتا ہے۔ اور یہ ضابطہ مرد و عورت، دونوں کے لیے یکساں لاگو ہوتا ہے۔
تیسرا ادب: بنیادی اور ثانوی کاموں کا فرق
یہ بات ہر مرد و عورت کو سامنے رکھنی چاہیے کہ دین کی رو سے سماجی و دینی احکام کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو بنیادی ہیں ، اور دوسرے وہ جو ثانوی ہیں۔اگر کوئی شخص ثانوی احکام پر تو عمل کرے ، مگربنیادی کو چھوڑ دے تو یہ کسی طور پر درست نہیں ہے۔خدا کے احکام جبلی تائید بھی رکھتے ہیں، مثلاً اگر جبلی طور پر دیکھیں تو حیض اور حمل، او ر ولادت اور بعد از ولادت کچھ ایام عورت کے لیے کاموں میں کسی قدر حارج ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح اولاد کی پرورش، انھیں دودھ پلانے سے لے کربالغ ہونے تک کی بہت سی ذمہ داریاں مرد کے مقابلے میں عورت پر زیادہ آتی ہیں۔ لہٰذا مجبوری کے سوا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک معصوم انسانی جان ماں کی محبت و الفتات کو ترستی رہے ، اور اس کی ماں محض کسی شوق یا کسی تفریح کے جذبے کے تحت کسی اور کام میں مشغول ہو۔سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ ان دونوں میں توازن قائم رکھے۔
نہ تفریح حرام ہے اور نہ دل چسپی کے کام ، لیکن یہ فطری امر ہے کہ ضروری کاموں کو اپنی تفریح اور دل چسپی کی نذر نہ کیا جائے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ کسی کے بیوی بچے گھر بھوکے بیٹھے ہوں اور وہ باہرگلی میں بیٹھاتاش کی بازی لگا رہاہو، یا کرکٹ کے مزے لے رہا ہو۔ تفریح کی یہ صورت ناجائز ہے، اس لیے کہ یہ بنیادی کاموں کو فراموش کرکے کی جارہی ہے۔ یہی معاملہ خواتین کا ہے کہ اگر انھیں کوئی مجبوری نہیں ہے ، تو انھیں اس توازن کو برقرار رکھنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ عورت اگرماں ہے تو وہ اپنا شوق پورا کرے اور معاشرے کی خدمت ضرور کرے، مگر ماں والی ذمہ داریاں کما حقہ پورا کرتے ہوئے ایسا کرے۔ جب وہ اس عمر میں پہنچ جائے کہ وہ گھر اور اولاد کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو تو بلاشبہ پورے وقت کے لیے کام کرے۔ لیکن مرد پر چونکہ نان نفقے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے، لہٰذا اس کے لیے یہ بنیادی کام کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے لیے اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں پڑنا جائز نہیں ہو گا۔lll