اچھی ازدواجی زندگی اور اس کا حصول کچھ عملی باتیں

ایس امین الحسن

ایک شادی شدہ جوڑا میرے پاس کونسلنگ کے لیے آیا، معلوم ہوا کہ شادی ہوئے تین سال گزرے مگرروز اول سے گھر میں ہر دن قیامت صغریٰ برپا ہوتی رہی۔ لڑکی کا چہرہ مارے غصہ کے تپ رہا تھا یوں لگتا تھا کہ ابھی بس مسئلہ چھیڑوں تو لاوا ابل پڑے گاـ۔ لڑکا پشیمانی کے مارے کچھ بول نہیں پا رہا تھا کیوں کہ دونوں کے تعلقات سوشل میڈیا سے ہوئے تھے کئی مہینے Chating ہوتی رہی۔ رومانسکی گفتگو میں لڑکا کہتا ہی ہے کہ میں تمہارے لیے آسمان سے تارے توڑ لاؤںگامگر جب حقیقی دنیا میں لڑکی کو ماہانہ خرچ کی رقم دینی ہوتی تھی تو تکرار ہوتی رہتی تھی۔ Chatingمیں لڑکے نے سبز باغ دکھائے کہ میں تمھیں پی ایچ ڈی کرواؤں گا۔ لڑکی اس احساس میں مبتلا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا۔ لڑائی جب اپنی انتہا کو پہنچتی تو لڑکی شوہر کو زد و کوب بھی کرتی اور ایک دو مرتبہ خنجر بھی نکال لیا۔ قصہ مختصر یہ کہ ازدوجی زندگی جہنم بن کر رہ گئی۔
آئیے ہم اس واقعہ سے خوشگوار زندگی کے کچھ نکات اخذ کرتے ہیں۔
حقیقت پسندی
شادی سے قبل زوجین کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں اپنے بڑوں کی موجودگی میں واقفیت حاصل کرلیں کہ دونوں کی تعلیم، صلاحیت، مزاج، منفی و مثبت چیزیں اور خاندانی پس منظر کیسا ہے؟ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ کر مکمل شخصیت جس میں کچھ مثبت پہلو کچھ قابل اصلاح کردار اور کچھ منفی جذبات کے ساتھ قبول کریں۔ تصورات کی دنیا میں باتوں کا جال جو دونوں جانب سے بنا جاتا ہے اس کا ادراک کرناآسان ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھ پائیں گے جس میں کچھ اچھے اور مضبوط پہلو بھی ہوں گے تو کچھ کمزوریاں بھی ہوں گی جن کا سامنا کرنے کے لیے ذہن کو یکسو کرنا آسان ہوجائے گا۔ ایک لڑکی کی بھول یا حماقت پر مبنی توقع سمجھئے کہ وہ ایک طرف خاندان اور وطن ترک کر کے دوسرے شہر ہجرت کرے، بچے جنم دے، شوہر کی کم آمدنی سے واقف بھی ہو پھر بھی تخیل کی دنیا میں سمجھتی ہے کہ اس کی پی ایچ ڈی ہوجائے گی، ماہانہ خرچ کے لیے پچاس ہزار ملیں گے۔ زندگی میں جب کوئی چیز توقع پر پوری نہیں اترتی تو غصہ آنا لازمی امر ہے اور غصہ کے جذبات میں انسان کس حد پر جاکر رکے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لڑکے کے نقطہ نظر سے لڑکی کا حسن تو دل میں گھپ گیا مگر اس کے بیک گراؤنڈ (پس منظر)سے ناواقفیت، جس کا خود لڑکی کو اعتراف ہے کہ وہ گھر میں ہمیشہ Boss کا رول ادا کرتی رہی اور ماں باپ کبھی شفقت میں تو کبھی مجبوری میں اس کے آگے سپر ڈال دیتے تھے۔ شوہر سے بھی اس کا برتاؤ یہی ہوگا۔ کردا رکے اس پہلو سے ناواقفیت نے لڑکے کے جھنجھلاہٹ میں روز بروز اضافہ کر دیا۔ اس لیے لازم ہے کہ زوجین حقیقت پسند بنیں اور اس بات کو تسلیم کریں کہ شادی کے بعد زندگی کی حرکی قوتیں بدل جاتی ہیں۔ کھینچ تان کے عمل کے بعد توازن و اعتدال پر مزاج کو لے آنا خوشگوار زندگی کے لیے انتہائی اہم ہے اور یہی حقیقت پسندی کا تقاضا ہے۔
معاملہ فہمی
خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ زوجین معاملہ فہم بنیں۔ معاملہ فہمی کا مطلب یہ ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں کئی امور و مسائل میں فیصلہ لینے کی ضرورت پڑتی ہے اور جب فیصلے جذبات کی بنیاد پر لیے جانے لگیں تو دوسروں کو قصور وار ٹھہرانے کا، اپنی مظلومیت کا اور زندگی کو کوسنے کا عمل جاری رہتا ہے، اس کے برعکس جب فیصلے متانت و سنجیدگی اور عقل کے ساتھ لیے جائیں تو معاملات کی تہہ تک نگاہ جانے لگتی ہے اور انسان جھٹ فیصلے کے دور رس ’’منفی نتائج‘‘ اور سمجھ داری سے لیے جانے والے فیصلوں کے دور رس ’’مثبت نتائج‘‘ کا ادراک کرنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر جب لڑکی یہ محسوس کرنے لگتی ہے کہ گھر میں اور افرادِ خاندان کے ہوتے ہوئے اس پر کاموں کا بوجھ پڑ رہا ہے تو ایک طریقہ شکایت اور بغاوت کا ہے تو دوسرا طریقہ دلوں میں جگہ پیدا کرنے اور گھر میں قیادت کا عمل شروع کرنے کاہوتا ہے۔ شکایت اور بغاوت کوتاہ نگاہی ہے تو دوسری طرف گھر کی قیادت سنبھالنے کے مواقع کا استعمال کرنا معاملہ فہمی ہے۔ اسی طرح مرد کو عورت کم پڑھائی، کم رنگ، کم قد وغیرہ جیسے امور کو لے کر ایک گھٹن کی سی کیفیت میں مبتلا رہنا ہو تو اس کے لیے بھی معاملہ فہمی کا تقاضا ہے کہ زندگی کی پرپیچ راہوں میں خاندان کی گاڑی کھینچ لے جانے کے لیے رنگ قد اور ڈگری نہیں بلکہ سمجھ داری، معاملہ فہمی اور فرد شناسی کے فن ہی کام آتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو اگروہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ وہ چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘ (۱۹:۹)
اس آیت سے اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے کہ پسند اور ناپسند کا دائرہ تنگ رکھنا ناسمجھی کی بات ہے اور پسند و ناپسند کے دائرے کو وسیع تر رکھنے میں کچھ فائدے ضرور ہیں جو بھلے آج نظر نہ آتے ہوں مگر زندگی کے معاملات و واقعات آگے چل کر ثابت کردیں گے کہ زوجین میں ایک دوسرے کے لیے بہت سے خیر کے پہلو رکھے ہوئے تھے جو بعد میں کھل کر سامنے آئے تو آگے کے خیر کو دیکھنا معاملہ فہمی ہے اور آج کی کسی ایک ناپسندیدہ بات کا بتنگڑ بنا کر تعلقات میں تلخیوں کو پیدا کرلینا ناکامی و نامرادی کا یقینی راستہ ہے۔
معاملہ فہمی کے لیے صبر اور مزاج شناسی درکار ہے۔ ازدواجی زندگی میں صبر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بعض مواقع پر اپنی پسند اور ناپسند کو تج کر دوسرے ساتھی کے موقف کو قبول کرلینا ہوتا ہے تاکہ تصادم اور ٹکراؤ سے بچا جائے اور مناسب وقت آنے پر صحیح موقف یا تو سمجھایا جاسکے یا وقت خود سمجھا دے گا۔ مزاج شناسی اس لیے ضروری ہے کہ خاندان میں شوہر، ساس، نند اور دیگر موجود افراد میں ہر ایک کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے۔ خاندانی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کے بارے میں تھوڑے سے مطالعہ کے بعد یہ سمجھ میں آجائے کہ کس کے ساتھ اختلاف درپیش ہے۔ کس کا مزاج اتفاق کے نکات کو تلاش کرنے کا ہے، کس کے اندر ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں اور کون تفاوتِ قلبی کے مرض میں مبتلا ہے اور کون اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے اور کس کی زبان آگ اگلتی ہے۔ اس طرح افراد کو سمجھ لینے کے بعد معاملات کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ کس کے ساتھ دلیل سے گفتگو کی جائے، کس کا دل خدمت سے جیتا جائے، کس کے آگے خاموشی کی ڈھال سنبھالے رکھیں اور کس کو نظر انداز کیا جائے۔ یہ ساری ترکیبیں اس وقت بروئے کار لائی جاسکتی ہیں جب زوجین ایک دوسرے کے مزاج شناس ہوں اور ازدواجی زندگی کے نبھانے میں جن جن لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہو ان سے بھی برتاؤ کی حکمت عملی تیار کرسکیں، جن کی زندگی میں معاملہ فہمی کی کمی ہوتی ہے ان کے رشتے تلخ ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس سمجھ داری اور معاملہ فہمی سے زندگی شیریں بن جاتی ہے جس کی مٹھاس کے ماحول میں پروان چڑھنے والے مثبت نفسیات کے مالک، امنگوں سے بھرپور اور حوصلہ مند ہوتے ہیں جو آگے چل کر خاندانی نظام زندگی کی خوشیوں کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔
اخلاق کی بلندی
سماجی زندگی میں اچھے لوگوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک میں گرم جوشی ہوتی ہے، دوسرے میں کردار کی پختگی ہوتی ہے۔ ایک ملنسار، خوش باش، باتوں سے اتفاق کرنے والے، مذاق کرنے والے اور خوش طبیعت انسان کو ہم گرم جوش انسان کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بالمقابل ایک آدمی باہمت، انصاف پسند، اصول پسند، ایمان دار اور ذمہ داریوں کو قبول کرنے والا ہوتا ہے جسے ہم باکردار شخص کہیں گے۔ جنرل آف پرسنالیٹی اینڈ سوشل سائیکالوجی میں ان دو طرح کی شخصیتوں کا تقابلی مطالعہ کیا گیا جس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ تعلقات کی خوش گواری اور پائیداری میں گرم جوشی کے مقابلے کردا رکی پختگی کی تاثیر زیادہ ہوتی ہے۔ کسی بھی شخص کے مضبوط کردار کی اہمیت زیادہ ہے بہ مقابلہ بزلہ سنجی کے۔ مجموعی طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ تعلقات کو بہتر بنانے میں کردا رکی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
ازدواجی زندگی میں زوجین کو اپنے درمیان بھی اور دیگر تعلقات کے مابین بھی معاملات در پیش ہوتے ہیں کہ فرد کے اندر اگر سچائی، ایمان داری اور حق گوئی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی قابلیت ہوگی تو یہ ایک ایسا معیار ہے جس سے حقیقی خوش گواری میسر آتی ہے اور مضبوط خاندان تشکیل پاتا ہے۔ گرم جوشی وقتی معاملہ ہے جب کہ کردار زیادہ مستقل اور قابل اعتماد ہے۔ عموماً خاندانوں میں جب کسی بات پر اختلاف ہوتا ہے تو یہ باور کرلیا جاتا ہے کہ چھوٹوںپر بڑوں کو، عورتوں پر مردوں کو اور کمزوروں پر بااثر لوگوں کو ترجیح دی جائے او ریہ حکمت و دانش مندی سمجھ کر سمجھایا جاتا ہے کہ اپنا حق چھوڑ دینے اور خاموشی اختیار کرلینے میں چھوٹوں کا، عورتوں کا اور کمزوروں کا بھلا ہے۔ اس طرح صنفی ناانصافی حق سے دست برداری کو کردا رسمجھ لیا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے فیصلوں سے کردار کا زوال شروع ہوتا ہے اور زوجین میں فرد کی شناخت ایک بے اصول، بے ہمت اور ابن الوقت کی تصویر ذہن میں بس جاتی ہے اور رفتہ رفتہ وہ نقوش اَن مٹ ہوتے جاتے ہیں۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب اختلافات، نااتفاقیوں اور ناخوشگواریوں کے بیچ میں کلمات خیر اعتماد اور حسن ظن کے اظہا رکے ذریعے اپنی روحانی ترقی اور کردار کی بلندی کا سامان کرتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے:
’’مخلوق خدا کا کنبہ ہے، لہٰذا مخلوق میں خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو خدا کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔‘‘
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہم جیسے عام انسانوں میں اخلاقی خوبیوں کے ساتھ کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں اور بعض کمزوریاں رشتہ ازدواج کی پختہ دیواروں میں دراڑ پیدا کردیتی ہیں۔ زوجین کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ساتھی میں اگر اس قسم کی کوئی کمزوری ہو تو اس کا ادراک کرلیں تاکہ خاندان کو نقصان سے بچایا جاسکے۔ دوسری طرف دوسرے ساتھی کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس کمزوری کے مقابلے میں اپنے اندر مثبت اخلاق پروان چڑھائے، جس کے بغیر تعلقات میں استحکام لانا ناممکن ہوجائے گا۔ دونوں ایک ہی قسم کی کمزوری کے ساتھ رشتہ نباہ نہیں سکتے۔ فرض کرلیجیے کہ ایک ساتھی میں بے حد غصہ ہو تو اس کے جواب میں بھی بے حد غصہ ہو تو گھر کو میدان جنگ بنانے میں دیر نہیں لگے گی۔ اخلاق کی بلندی کا تقاضا ہے کہ ایک پارٹنر میں زود حسی، زود رنجی اور جلد بھڑک اٹھنے کی طبیعت ہو تو اس کے پارٹنر کو چاہیے کہ اس کے مقابل اوصاف یعنی تحمل، صبر، عفو و درگزر اور ٹھنڈے دل و دماغ کے کردار کو پروان چڑھانے سے تلخیوں کا ازالہ اور خوش گواری کی آبیاری ہوسکتی ہے۔ اس کو نفسیات کی زبان میں Cardinaltrailtraitکہتے ہیں۔ یعنی افضل صفات کو بروئے کار لانا ۔
ناراضگی کی گنجائش
عام انسانوں کو دعویٰ کرنا مشکل ہے کہ وہ درجہ کمال کو پہنچا ہوا شخص ہے۔ غصہ، جھنجھلاہٹ، چڑچڑاہٹ، زود رنجی، خفگی و ناراضگی کا پیدا ہونا ایک لازمی بات ہے۔ خوشگوار خاندان کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ زوجین کے درمیان کسی بات پر نااتفاقی ہوتی ہی نہ ہو۔ زندگی اختلاف و اتفاق کے رنگ سے مزین ہوتی ہے البتہ خوشگواری کے لیے یہ ہنرمندی زوجین میں ہونا چاہیے کہ وہ دباؤ اور تناؤ کی کیفیات میں حالات کو کس رخ پر لے جاتے ہیں ار ایشوز سے کیسے نمٹتے ہیں۔ یہ کام اس وقت آسان ہو جاتا ہے جب زوجین یہ تسلیم کریں کہ فریق ثانی کو ناراض ہونے اور غصہ کرنے کا بھی اختیار ہوگا۔ اس وقت دوسرا پارٹنر سمجھے گا کہ جب ایک فریق اپنے ناراض ہونے کے حق کو استعمال کر رہا ہو تو دوسرا نہیں کرے گا، جس کے نتیجے میں تلخیوں کی آگ بھڑکنے کے بجائے فریق ثانی کے مجروح جذبات کو سمجھنے اور اس کا مداوا کرنے کی طرف ذہن منتقل ہوجائے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا:
’’میں خوب جان لیتا ہوں جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناخوش ہوتی ہو۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ آپ یہ کس طرح پہچان لیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ’’جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہا کرتی ہو کہ یہ بات نہیں ہے محمد کے رب کی قسم اور جب تم مجھ سے خفا ہوتی ہو تو کہتی ہو کہ یہ بات نہیں ہے ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ یہ بات ٹھیک ہے لیکن بخدا میں تو محض آپ کا نام ہی ترک کرتی ہوں دل میں تو آپ کی وہی محبت رہتی ہے۔‘‘
اس پر مولانا فاروق خاں صاحب یہ حاشیہ لکھتے ہیں: ’’اپنے محبوب شوہر سے اپنی ناراضگی کی یہ ادا بھی کتنی دل کش ہے۔ جہاں ام المومنین حضرت صدیقہ کے کمالِ بلاغت کا پتہ چلتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں یہ ہرگز مطلوب نہیں کہ شوہر اور بیوی کے تعلقات بے کیف اور خشک ہوں۔ محبت میں اگر کسی سے روٹھنے اور ناز اٹھانے کا سرے سے موقع ہی نہ ہو تو وہ محبت ہی کیا ہوئی، لیکن اس کے بھی آداب ہیں۔ یہ نازو انداز اگربے زاری اور نفرت کے ہم معنی ہو جائیں تو یہ چیز محبت کے حق میں کسی سم قابل سے کم نہیں۔‘‘
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کسی بات پر تلخی ہوجائے اور دوسرے فریق نے آپ کا حق سمجھ کر خاموشی اختیار کربھی لی مگر آپ کے ضمیر نے کہا کہ آپ نے اس حق کا غلط استعمال کیا اور اپنے پارٹنر کی حق تلفی تو نہیں کی، جذبات مجروح کیے تو پھر آپ کو اپنے رویہ پر پشیمان ہونے اور حق کی طرف پلٹ آنے میں بے جا پندار ارو موہوم عزت نفس رکاوٹ نہ ہونے پائے بلکہ غلطی میں پہل جس کی طرف سے ہوئی ہو وہ معافی طلب کرنے میں بھی پہل کرے یہ ایک نہایت اہم اور قابل ستائش صفت ہوگی۔ یہ بات واضح رہے کہ ازدواجی زندگی میں معافی طلب کرنے میں محبت کی مٹھاس بڑھ جاتی ہے اور سامنے والے کو اختلاف کرنے کی گنجائش دینے سے بھی آدمی قدآور ہو جاتا ہے۔
حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے ماضی کے تجربوں اور دیگر خاندانوں کے مشاہدے سے یہ اندازہ لگا لیا جائے کہ وہ کون سے نازک پہلو ہیں جن میں فریق ثانی کے ناراض ہونے کے واضح امکانات ہوتے ہیں اور پہلے ہی سے اس کا تدارک کرلیا جائے کہ وہ خفگی کا موقع آئے اور دونوں کو اس تناؤ کی کیفیت سے گزر کر پھر زندگی کو پٹری پر لانے کی تگ و دو کرنا پڑے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں