الطاف حسین حالی نے کیسی پیاری بات دو مصرعوں میں سمودی ہے کہ:
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا!
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
لیکن کیا ہم واقعی محنت کر کے انسانیت کی اوج ثریا پر پہنچ جاتے ہیں اور اگر نہیں تو اس کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ آج ہم اس پر غور کریں گے۔
ایک متوازن شخصیت ہی ایک کارآمد فرد کے روپ میں معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے، سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں، جنھیں اپنا کر ہم اپنی ذات کو نفع بخش بنا سکتے ہیں؟
سب سے پہلے جسمانی صحت پہ بات کرتے ہیں۔ اگر آپ جسمانی طور پر تندرست و توانارہنا چاہتے ہیں تو اپنا ایک غذائی چارٹ بنائیے، جو چیزیں آپ کے جسم سے مطابقت رکھتے ہوئے آپ کو فائدہ دیں، انھیں اس چارٹ میں شامل کیجیے۔ جو چیزیں فقط زبان کا چسکا تو پورا کریں لیکن آپ کو راس نہ آتی ہوں انھیں اس چارٹ سے خارج کردیں، ایک دم سے اپنی پسند کو چھوڑنا آسان نہیں ہوتا تو اس کا حل یہ ہے کہ ہدف بنا لیجیے کہ اپنی فلاں فلاں پسندیدہ لیکن صحت کے لیے نقصان دہ چیز چھوڑنی ہے جیسے کہ کوئی بھی جنک فوڈ لیکن اس کی جگہ ایک مفید چیز چاہے وہ مجھے ناپسند ہی کیوں نہ ہو، اپنی خوراک میں ضرور شامل کرنی ہے۔ اور پھر خود پہ ضبط کرتے ہوئے اس پہ کچھ عرصہ عمل کیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ شروع میں یہ خاصا مشکل لگے گا لیکن آہستہ آہستہ آپ کی عادت بن جائے گی۔ تاہم سیلف ڈسپلن اسی کو کہتے ہیں۔
ناشتہ لازمی کیجیے، عمدہ اور غذائیت سے بھرپور ناشتہ آپ کو دن بھر ہشاش بشاش رکھے گا۔ دوپہر میں مناسب کھانا کھائیں کیوں کہ دن بھر کے کام کاج کے وقفے میں اگر آپ بہت بھاری کھانا کھالیں تو شام تک طبیعت میں سستی غالب رہے گی جب کہ رات کو ہلکا پھلکا کچھ کھائیے جو بس اتنا ہو کہ معدہ کو خالی رہنے سے بچائے۔
دوسری اہم ترین چیز جو ہمیں جسمانی صحت حاصل کرنے کے لیے درکار ہے، ورزش ہے۔ اس سے آپ خود کو متحرک پائیں، ساتھ ہی آپ کا ذہن پہلے سے زیادہ کام کرنے لگے گا کیوں کہ خون کی گردش جب دماغ میں جاتی ہے تو وہ دگنا کام کرنے لگتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ جم ہی جائیں تو ورزش ہوگی، گھر میں رہتے ہوئے بھی مستقل مزاجی کے ساتھ صرف چہل قدمی کے لیے تیس منٹ روزانہ مختص کرلیں تو آپ اپنے اندر واضح، مثبت تبدیلی دیکھیںگی، اس سے منفی سوچ سے نجات ملے گی، تازہ ہوا اندر تک تازگی سے بھردے گی۔ چاہیں تو کوئی بھی آسان سی ایروبک ورزش بھی گھر میں کرسکتی ہیں لہٰذا آپ تادیر چست، توانا اور ذہنی طور پر مستعد رہنا چاہیں تو ورزش یا چہل قدمی کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیجیے، زندگی خوب صورت لگے گی۔
جسمانی صحت کے حصول کے لیے تیسرا اہم نقطہ نیند ہے۔ آپ کتنا، کب اور کیسے سوتی ہیں یہ سب آپ کی صحت پر اتنا ہی اثر انداز ہوتا ہے جتنا آپ کا کھانا پینا اور ورزش کرنا وغیرہ۔ رات اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سونے کے لیے جب کہ دن کام کاج کے لیے بنایا ہے، جب کہ ہم راتوں کو دیر تک جاگ کر اور دن میں دیر تک سوکر فطرت کے خلاف چلتے ہیں اور حقیقتاً اپنی صحت کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں جب ہم سو رہے ہوں تو ہمارے جسم سے ایک ایسا ہارمومن خارج ہوتا ہے جو ہمیں پرسکون کرتا ہے لیکن یہ صرف تب خارج ہوتا ہے جب اندھیرے میں ہم سو رہے ہوں یعنی جاگ نہ رہے ہوں۔ سوتے وقت موبائل فون اور ٹی وی سکرین سے خود کو لازماً دور رکھیے، کم از کم فون اتنا دور ہو کہ آپ کو چل کر فون تک پہنچنا پڑے۔ کوشش کیجیے کہ عشاء کے بعد سوجائیں اور فجر سے قبل اٹھ جائیںیا پھر فجر کے وقت لازماً اٹھ جائیں۔ صبح کا بابرکت آغاز دن بھر تازگی سے ہم کنار کرے گا، لہٰذا نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد دیگر امور پہ توجہ دیجیے۔
ہماری روح پیاسی ہواور اسے غذا نہ ملے لیکن ہم پانی جسمانی صحت پر بھرپور توجہ دینے والے ہوں تو کیا ہم ایک متوازن اور کامیاب فرد بن سکیں گے؟ یقینا نہیں، تو آئیے جانتے ہیں ہماری روح کی غذا کیا ہے؟ بحیثیت مسلمان ہم نہایت خوش قسمت ہیں کہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مغرب میں روح کی تسکین کے لیے میڈی ٹیشن کی جاتی ہے۔ مثلاً آپ کو کسی ایک خاص نقطے پر نظر مرکوز کروا کر اسی لمحے میں جینے کو کہا جائے گا، مثلاً آبشار کے گرتے پانی پہ نظر جمائی جائے، اسی کو مکمل ارتکاز اور توجہ سے دیکھا جائے اور ذہن کو ہر طرح کی سوچوں سے آزاد کر کے صرف ان موجودہ لمحات کو محسوس کیا جائے۔ ہم ایسے ارتکاز اور توجہ سے نماز ادا کرنے لگ جائیں کہ سب فکریں ایک طرف رکھ کر فقط نماز پہ مکمل توجہ دیں تو ہماری روح توانا ہوگی۔ یقینا ہم ایسا کر کے دنیا کی سب سے بہترین اور کارآمد میڈی ٹیشن کریں گے۔
اس عمل کے بعد خود سے باتیں کیجیے کہ مجھ میں کیا غلط ہے جس کی اصلاح کرنی ہے۔ سوچئے جو عبادت آپ میں مثبت تبدیلی نالا پائے کیا وہ اللہ کو پسند آئے گی؟ اللہ سے باتیں کریں، اپنے مسئلے بیان کریں وہ راہیں کھولتا جائے گا۔ فطرت میں وقت گزارئیے، کھلی تازہ ہوا اندر اتارئیے، جہاں تک ممکن ہو پودوں کی قربت میں رہیے، کبھی کسی بہتی ندی یا جھیل کے کنارے بیٹھ جائیے، غرض کہ قدرتی اور خالص مناظر کا حصہ بننے کی کوشش آپ کی روح کو سرشار کر کے آپ کو شاد کردے گی۔ صدقہ دیجیے، کسی کی مدد کردیجیے، جو ہنر یا جو نعمت آپ کے پاس ہے اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچائیے۔ یہ سب بظاہر چھوٹے چھوٹے عمل ہیں لیکن یہی آپ کی روحانی صحت کے ضامن ہیں، بکثرت دعائیں کیجیے۔
ذہنی صحت
شخصیت سازی میں ذہنی صحت کی مسلمہ اہمیت سے سب ہی آگاہ ہیں۔ آپ مذکوہر بالا طریقے پر کاربند رہیں تو ذہنی مسائل کا سامنا کم ہوگا۔ یاد رکھیے اگر آپ کا ذہن منتشر خیالات کی آماج گاہ بن جائے، آپ زندگی کے منفی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دینے لگیں، آپ کو خیر میں بھی شر نظر آئے، ڈپریشن طاری رہے تو ایسی صورتِ حال میں آپ اپنی ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہیں گے، اپنے ذہن کو منفی سوچ سے بچانے کے لیے اچھی، عمدہ اور معیاری کتب کا مطالعہ کیجیے۔ کتاب دوست انسان کبھی تنہا نہیں ہوتا روزانہ کچھ وقت کتب بینی میں ضرور لگائیے۔ اپنے ذوق اور پسند کے مطابق کتاب منتخب کیجیے اور اسے پڑھ کر اپنی ذات کو نکھارنے کے لیے کچھ نا کچھ سیکھئے اور عمل میں لانے کی کوشش کیجیے۔ کہا جاتا ہے ’’جو نہیں پڑھتا اور جو نہیں پڑھ سکتا وہ دونوں برابر ہیں۔‘‘ ایسے افراد کی صحبت اختیار کیجیے جو آپ کو مثبت طرزِ عمل پر ابھاریں، جن کے پاس بیٹھ کر آپ خود کو پرسکون محسوس کریں، جن کی گفتگو روشنی کی مانند ہو، ڈپریشن سے نجات کے لیے ہاتھ سے کام کرنا بہت سود مند ثابت ہوتا ہے۔ پریشان ہیں تو ہاتھوں کو مصروف کرلیجیے، پینٹنگ کیجئے، سلائی کیجیے بنائی کیجیے، کھانا پکا لیجیے، صفائی میں لگ جائیے، غرض ہر وہ کام جس میں ہاتھ حرکت میں رہیں وہ کرنا شروع کردیں۔ آپ دیکھیں گی کہ آپ کی پریشانی زائل ہونے لگے گی۔ البتہ اگر آپ کے ڈپریشن کا دورانیہ تین ماہ سے بڑھ جائے تو آپ کسی ماہر نفسیات سے رکوع کریں کہ آپ کو مدد کی ضرورت ہے۔
اپنے ذہن کو مصروف رکھیں، کیسے؟ اپنے اہداف طے کرلیجیے مثلاً یہ کہ آپ آج سے دس سال بعد خود کو کس مقام پر دیکھنا چاہتی ہیں۔ یہ طے کرلیجیے اور پھر اس مقام تک پہنچنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیجیے۔ یوں آپ کے ذہن کو یکسوئی سے اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے ایک صحیح راستہ مل جائے گا اور آپ بہت سی ذہنی پریشانیوں سے محفوظ ہوئیں گی۔ اخلاقی برائیوں، حسد، جھوٹ، کینہ، غیبت، چغلی وغیرہ سے بچنے کی کوشش بھی آپ کے ذہنی سکون کو جلا بخشے گی۔
لوگوں کے ساتھ تعلقات
سب سے زیادہ صبر آزما مرحلہ جو شخصیت سازی پر کی گئی تمام محنت کا عملی امتحان لیتا ہے، اپنے ارد گرد موجود افراد سے تعلق ہے۔ ہمارے لڑائی جھگڑے زیادہ تر گھر میں ساتھ رہنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں نا کہ دوست احباب سے، اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے صلہ رحمی پہ بہت زور دیا ہے۔ جذباتی کنٹرول رشتوں کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔ گھر میں ہوں یا گھر سے باہر، بس یہ بات ذہن میں بٹھا لیجیے کہ جیسے آپ اپنی ذات میں منفرد ہیں ویسے ہی ہر شخص اپنی الگ پہچان رکھتا ہے جو دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ اس چیز کو قبول کرلینے کے بعد آپ میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی ہمت بڑھ جائے گی۔ اس حقیقت کو سمجھئے او رقبول کیجیے کہ تعلقات ہمیشہ انا سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا انگریزی محاورہ ہے Agreetodisagree یعنی آپ دوسرے کی کسی بات پہ متفق نہ ہونے کو قبول کیجیے لیکن قطع تعلقی مت کیجیے۔
اپنا موقف نرمی سے واضح کیجیے، دلائل بھی دیجیے اور اپنی بات بھی منوائیے لیکن نرمی سے۔ آپ کی آواز اور الفاظ کے انتخاب سے لے کر آپ کی حرکات و سکنات میں بھی شائستگی اور نرمی کا عنصر نمایاں ہونا چاہیے۔ کوئی زیادتی کردے تو معاف کردیجیے، اللہ کی خاطر اور اپنے سکون کی خاطر یہ مشکل ضرور ہے لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے استقامت کی اور نرمی دل کی دعا مانگتی رہیے، یاد رکھیے! نفسیات ہمیں اپنی ذات پر کام کرنے پہ اکساتی ہے کہ اپنی فکر کیجیے دوسروں کی فکر مت کیجیے، آپ کی ذات سے بس خیر عطا ہو مقابل بھلے شرانگیز ہو وہ آپ کا مسئلہ نہیں، آپ خود کو اتنا مضبوط بنائیے کہ جیسے ایک چھتنار درخت جو ٹھنڈی چھایا بھی دیتا ہو اور میٹھا پھل بھی، اس سے قطع نظر کہ اسے کاٹا جا رہا ہے، توڑا جا رہا ہے، وقت پہ پانی مل رہا ہے یا نہیں۔
وقت کی تنظیم
وقت کو استعمال کرنے کے طریقے سے اگر ہم ناواقف ہوں تو سمجھئے کچھ بھی درست نہیں ہونے والا، کیوں کہ جب آپ کو علم ہی نا ہوگا کہ کون سا کام کب اور کتنی اہمیت کا حامل ہے تو آپ وقت سے صحیح فائدہ اٹھانے سے قاصر رہیں گی۔ آپ وقت کے صحیح استعمال کے لیے کاموں کی تقسیم اس طرز پہ کیجیے:
فوری اور اہم کام
وہ کام جو اہم ہونے کے ساتھ ساتھ فوری طور پہ کرنے والے ہوں جیسے کہ کوئی اچانک در پیش آجانے والی ایمرجنسی کی صورت جہاں آپ کی موجودگی ضروری ہو یا کوئی اور ایسی ہی اہم اور اشد ضرورت، ان کاموں کے لیے آپ فوراً وقت نکالیے۔
فوری نہیں لیکن اہم کام
ایسے کام جو اہم تو ہوتے ہیں لیکن فوری طور پہ نہ بھی کیے جائیں تو کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا، ایسے کام کوشش کیجیے کہ فرصت کا لمحہ ملتے ہی سر انجام دے دیں، قبل اس کے کہ ان کاموں کی آخری تاریخ آن پہنچے اور انھیں بھاگم بھاگ کرنا پڑے۔ جیسے کہ بجلی کے بل جمع کروانا، راشن لانا، اسائمنٹ جمع کروانا وغیرہ اور اپنے روز مرہ کے معمول کے تمام کام۔
فوری ضروری لیکن غیر اہم
اس میں وہ کام جو فوری کرنے والے تو ہوں لیکن اہم نہ ہوں جیسے کہ آپ کو کسی کے ساتھ بازار جانا ہے یا کوئی چیز کھانے کو بے حد دل چاہ رہا ہے لیکن چیز پاس نہیں تو یہ فوری ضروری تو ہے لیکن اہم نہیں کہ ان کے پیچھے آپ دیگر اہم کام ملتوی کردیں، لہٰذا ایسے کاموں کو آپ سنجیدہ اور ضروری اہم نوعیت کے معاملات پہ فوقیت نہیں دیں گی۔
اور ایسے کام جو نہ تو اہم ہوں اور نہ ہی فوری طور پہ کرنا ضروری ہوں ان پہ وقت ضائع مت کیجیے۔ بس اسی طرح کاموں کی ترتیب بنا کر انھیں تقسیم کیجیے اور وقت کا بھرپور فائدہ اٹھائیے۔