اچھی صحت میں ذہن و جذبات کی اہمیت

حکیم محمد اقبال حسین

جیسے جیسے وقت گزرتا جا تا ہے، ہماری عمر میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے آگے بڑھاپے کا دور شروع ہو جاتا ہے اور اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ نظام جسمانی میں تحلیل اور گھساؤ کا عمل کم سے کم واقع ہو، تاکہ ہماری قوتیں زیادہ مدت تک محفوظ اور قائم رہ سکیں۔ ہم عمر کی مدت کو ’’سالگرہوں‘‘ کی اصطلاح میں شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری چالیسویں سالگرہ ہوگئی اور یہ ہماری ساٹھویں سال گرہ آگئی۔ حالاں کہ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو جو چیز ہمیں بوڑھا کرنے والی ہے، وہ سالوں کا اضافہ نہیں ہے بلکہ ہماری بری عادات اور رذیل و ادنیٰ خصلتیں ہیں، جو ہمارے جسم و دماغ کو بوڑھا کر دیتی ہیں۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بڑھاپے کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور اس سے بچنے اور محفوظ رہنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔بالکل اسی طرح جیسے کوئی دریا میں گر کر پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہتا چلا جائے اور یہ محسوس تک نہ کرے کہ خدا نے اسے تیرنے کی قوت بھی عطا کی ہے۔ وہ کوشش کرتا، تو معمولی سی جدوجہد سے پانی کے دھارے کے ساتھ بہنے کی بجائے اس میں سے تیر کر نکل سکتا تھا۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی کوششوں سے جوانی کو ایک غیر معین مدت تک قائم رکھ سکتے ہیں۔ یہ سوچنا تو بے وقوفی کی بات ہوگی جو کچھ ہم کرسکتے ہیں، وہ تو بس اتنا ہی ہے کہ کچھ سالوں کے بڑھاپے کو مؤخر کر دیں اور اس کو بہت سے تکلیف دہ عوارض سے بچالیں اور یہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ ابھی پنشن کی عمر کو پہنچتے بھی نہیں کہ معدہ اور آنتوں کے زخم اور اسی طرح کے دوسرے عوارض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے ذہن و دماغ او رنظام جسمانی پر اتنا بار ڈال لیتے ہیں کہ بیمار پڑ جاتے ہیں، حالاں کہ معمولی کوشش سے وہ اس بار سے خود کو بچا سکتے ہیں۔

بعض لوگ حسد، کینہ اور تخریب پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں اور جل جل کر اپنے کو گھن لگا لیتے ہیں۔ ہماری روز مرہ کی زندگی سے اس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔ مثلاً زید سے بکر کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے، بکر اپنے اس نقصان کی تاب نہ لاکر زید کو جوابی نقصان پہنچانے کی فکر میں لگ جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے نقصان پہنچا کر اپنا حساب بے باق کر لے، مگر جلد موقع نہ پاکر سخت الجھن میں مبتلا رہتا ہے۔ اس کے دل میں ایک آگ ہر وقت سلگتی رہتی ہے، طرح طرح کی تجویزیں سوچتا ہے اور رات دن اسی فکر میں لگا رہتا ہے کہ کب موقع ملے اور کب میں زید کو نقصان پہنچاؤں۔ یہاں تک کہ اس کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔ بکر کو خبر بھی نہیں ہوتی، وہ آرام اور سکون سے رہتا ہے، مگر زید صاحب ہیں کہ مستقلاً ذہنی کوفت اور جلن میں مبتلا رہتے ہیں۔ چناں چہ اس مستقل کوفت اورجلن کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا نظام ہضم خراب ہو جاتا ہے اور پھر یہاں سے دوسرے متعدد عوارض کا ایک منحوس چکر شرو ع ہو جاتا ہے۔

بعض صاحبان حرص و لالچ میں مبتلا ہوکر بے تحاشا روپے جمع کرنے کی دھن میں لگ جاتے ہیں، تاکہ وہ جب قبر میں پہنچیں، تو امیر آدمی کہلائیں۔ دولت جمع کرنے کی دھن ان کی زندگی کی مدت کو اس حد تک کم کر دیتی ہے کہ اپنی جمع شدہ دولت کو استعمال کرنے کی بھی نوبت نہیں آتی۔

اسی طرح خوف آدمی کے قلب کو نہایت کمزور بنا دیتا ہے۔ جدید تحقیقات اور تجربات کی رو سے بھی آج یہ امر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جسم اور دماغ ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے۔ ہمارا دماغ ہمارے جذبات کا مرکز ہے اور ان جذبات کا اثر ہمارے نظامِ جسمانی پر برابر پڑتا ہے۔

ذرا کبر و غرور کو اپنے اوپر مسلط ہونے کا موقع دیجئے، پھر دیکھئے کہ اعصاب میں کس درجہ تناؤ پید اہو جاتا ہے۔ ذرا غیظ و غضب کا دورہ اپنے اوپر پڑنے دیجئے پھر دیکھئے کہ یہ کس طرح آپ کے دوران خون میں حدت پیدا کرتا اور قلب کو متاثر کرتا ہے۔

ذرا لالچ اور حرص کو اپنے اوپر قبضہ کرنے دیجئے، پھر دیکھئے کہ یہ کس طرح آپ کو گھن کی طرح کھا جائے گا اور خرابیِ جگر کے باعث آپ کے چہرے پر زردی کھنڈ جائے گی۔ ذرا نفرت و حسد کو اپنے دل میں موجزن ہونے دیجئے، پھر دیکھئے کہ یہ کس طرح آپ کے خون کے دباؤ کو بڑھا دیتا ہے اور جسمانی اعتبار سے کسی کام کا نہیں چھوڑتا۔

جب حقیقت حال یہ ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ جسمانی صحت کا کوئی تصور اپنے ذہن کو غلط قسم کے جذبات و تصورات سے پاک کیے بغیر آپ کرسکتے ہیں۔

اچھے جذبات و تصورات درحقیقت ہمارے جسم کے انجن کے لیے ایک صحیح قسم کے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کے اندر ہمدردی، رحم،، عفو و درگزر، صلہ رحمی، حسن ظن، رجائیت اور شاد باشی جیسی اعلیٰ خصلتیں موجود ہیں، تو گویا آپ کے جسم کے انجن کے اندر بہت عمدہ قسم کا ایندھن موجود ہے اور آپ کے جسم کی گاڑی کو منزل مقصود پر بغیر راستے میں خراب ہوئے پہنچا دے گا، لیکن اگر اس کے برعکس آپ کے اندر خود غرضی، حسد، نفرت، خوف، حرص، کینہ پروری جیسی بری اور ادنیٰ خصلتیں ہیں تو گویا آپ کے جسم میں غلط قسم کا ایندھن ہے، جو آپ کی گاڑی کو مشکل ہی سے منزل پر پہنچا پائے گا اور راستے میں معتدد بار خراب ہوگا۔

اس سے معلوم ہوا کہ ہماری بیماریوں کے اسباب میں ہماری رذیل خصلتیں اور ہمارے کردار کی مذموم صفات کو بہت بڑا دخل ہے۔ پیدائش امراض کے اس نفسیاتی پہلو سے کسی طرح بھی صرف نظر نہ کریں اور اپنی ان پوشیدہ اور چھپی ہوئی خرابیوں اور معائب کو دور کرنے کی فکر کریں۔

آپ اپنی ذہنی کیفیات اور ادنیٰ خصائل و جذبات کو قیاس کرلیجئے جو دماغ کے اندر چھپے ہوئے ہیں اور نظر نہیں آتے۔ ہمارے دماغ کے اندر ذاتی تجربات اور مشاہدات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہوتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ناخوشگوار واقعات اور تلخ تجربات کو بھلا دیں، لیکن وہ ہمارے تحت الشعور میں رہتے ہیں اور ان کا اثر ہمارے نظام جسمانی پر پڑتا رہتا ہے۔

جدید طبی لٹریچر کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب مغربی طب، انسانی عواض کے اس نفسیاتی پس منظر کا تھوڑا بہت ادراک کرنے لگی ہے اور اس امر کی توقع ہو چلی ہے کہ بیماریوں کے اس نفسیاتی پس منظر پر کام کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ ہمارے جسمانی عوارض کی پیدائش میں ہماری ذہنی او رجذباتی کیفیت کچھ کم اہمیت نہیں رکھتی، چناں چہ برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن نے گنٹھیا کے اسباب کی چار سالہ تحقیقات کی جو رپورٹ شائع کی ہے، یہاں اس کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے اور دیکھئے کہ اس میں بیماری کے نفسیاتی پس منظر کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے:

’’مریض کے جوڑوں میں درد اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کا ذہن و دماغ کوفت اور تکلیف مین مبتلا ہے۔‘‘

اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو گنٹھیا کی شکایت زیادہ ہوتی ہے۔ اس رپورٹ کے اختتام پر جو سفارشات کی گئی تھیں، ان کا خلاصہ یہ ہے:

’’گنٹھیا کی روک تھام اور علاج کے لیے جو اسکیم قومی پیمانے پر تجویز کی جا رہی ہے، اس میں نفسیاتی پس منظر کی تحقیق و تشخیص کے لیے کافی سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں اور معالجین کو چاہیے کہ وہ گنٹھیا کے علاج و تدارک کے لیے عضلات و رباط سے ماوراء مریضوں کی خانگی اور عائلی زندگی، ان کی اقتصادی حالت اور کام کرنے کی جگہوں کا جائزہ ضرور لیں۔‘‘

حکیم اجمل خاں مرحوم اور لکھنوی مکتب فکر کے بعض اطبا تک تو یہ طریقہ رائج تھا کہ مریض کے معائنے کے ساتھ جہاں وہ اس کے نظام جسمانی کا جائزہ لیتے تھے، وہاں وہ اس کے ماحول، خانگی معاملات اور اس کی انفرادی مزاجی کیفیت کو بھی پیش نظر رکھتے تھے اور اپنی ہدایات اور تجویز میں اس نفسیاتی عنصر کو اچھی خاصی اہمیت دیتے تھے، لیکن اب تو طب مشرق کے حاملین بھی بس رواروی میں علاج کرتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال کا تدارک کس طرح کیا جائے؟ مجرد دواؤں سے تو اس قسم کے عوارض پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے نفسیاتی پس منظر کی موجودگی میں کوئی تجربہ کار معالج محض دواؤں سے کبھی علاج نہیں کرے گا بلکہ وہ مریض کی مکمل ہسٹری ریکارڈ کرے گا اور نفسیاتی علاج میں وہ سب سے پہلے اس امر کا مشورہ دے گا کہ ماضی کی تلخیوں کو کرید کرید کر سامنے لانا اور خوب کڑھتے رہنا، نہایت تکلیف دہ اور ضرر رساں ثابت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جسمانی اعتبار سے کبھی صحت مند نہیں دیکھے گئے، چناں چہ انھیں چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے سے زیادہ تکلیف اور مصیبت میں مبتلا لوگوں کو دیکھیں اور اپنے برے اور خراب دنوں کو یاد کرنے کی بجائے ایسے ہزاروں لوگوں پر نگاہ رکھیں جو اپاہج، مفلوج، نابینا اور پاگل ہوگئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے انھیں بہت سی تکالیف و شکایات سے بالکل محفوظ رکھا ہے۔ ایسے ذہن کے پیدا کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ بڑی حد تک بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں