بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے مگر ہم انسان ہیں فرشتہ نہیں اس لیے ہم میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی تو ضرور ہے، لہٰذا ’’پرفیکٹ میچ‘‘ ملنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ آج کل جسے دیکھئے موزوں اور مناسب رشتوں کے لیے پریشان ہے۔ مگر اس پریشانی کی اصل وجہ ہماری وہ خواہشات ہیں جو ہم اپنے شریک حیات یا بہو اور داماد میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ لڑکیوں کی تو خیر عمریں بڑھ ہی رہی ہیں مگر لڑکے والے بھی پریشان ہیں کہ ان کے بیٹے یا بھائی کے لیے عرصے سے لڑکیاں دیکھ رہے ہیں مگر ابھی تک بات نہیں بنی۔ کیوں کہ انہیں تو لڑکی گوری، لمبی، دبلی پتلی، گھنیری زلفیں، بڑی بڑی آنکھیں، خاندانی، تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم عمر چاہیے۔ ایک ساتھ اتنی خوبیاں کسی میں تلاش کریں گے تو اپنی جوتیاں ہی تڑوائیں گے۔ ادھر جس بیٹے یا بھائی کے لیے ان سب خوبیوں کی حامل لڑکی چاہیے اس کی تو اس تلاش میں عمر گزر جائے گی۔ جب کہ لڑکی والے پریشان کہ کب ہمیں مناسب رشتہ ملے گا۔ آئے دن لڑکے والوں کے سامنے لڑکی کا بن سنور کر آنا پھر گھر والوں کا ان کی ضیافت کرنا اور پھر لڑکے والوں کا انکار انہیں دینی اذیت میں دال دیتا ہے۔ بالفرض اگر کہیں بات بن بھی جائے تو انہیں لڑکی کے ساتھ لمبا چوڑا جہیز بھی چاہیے۔
کسی کو اپنے بیٹے کے مالی سپورٹ کے لیے لڑکی برسر روزگار چاہیے، یعنی جس سپورٹ کی ضرورت ہمیشہ لڑکی کو رہی ہے وہ اب لڑکے مانگ رہے ہیں۔ الٹا زمانہ آگیا ہے جی ہاں… حق مہر کم سے کم اور جہیز زیادہ سے زیادہ ہو! بہت سے لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ہم ذات پات، رنگ و نسل پر تو کمپرومائز کرسکتے ہیں مگر ان مادی چیزوں پر ہر گز نہیں۔ اور بہت سی جگہوں پر یہ ہی حال لڑکی والوں کا بھی ہے۔ اگر ان کی لڑکی خوب صورت اور تعلیم یافتہ ہے تو پھر انہیں داماد بھی خوب صورت اور اونچے منصب والا چاہیے۔ رہی شرافت تو وہ بعد میں دیکھ لیں گے۔ چاہے بعد میں اس کا خمیازہ ہی بھگتنا پڑے۔ جو مائیں اپنے بیٹوں کے لیے چاند سی بہو کی تلاش میں سرگرداں ہیں وہ کب یہ سوچیں گی کہ پھر ہماری بیٹیوں کو کون بیاہے گا؟ کیا ہماری بیٹیوں میں وہ خوبیاں موجود ہیں، جو ہم بہو میں تلاش کر رہے ہیں۔
رسولِ اکرمؐ نے رشتوں کے سلسلے میں بھی ہماری رہ نمائی فرمائی ہے اور واضح ہدایات مسلم سماج کے لیے چھوڑی ہیں۔ یہ ہدایات لڑکی والوں کے لیے بھی ہیں کہ وہ لڑکے کا انتخاب کیسے کریں اور لڑکے والوں کے لیے بھی ہیں کہ وہ بہو کا انتخاب کس معیار پر کریں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے: اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی وجہ سے، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ تو تم دین دار لڑکی کو حاصل کرو۔‘‘ (بخاری)
ایک دوسری حدیث میں حضور پاکؐ نے اوپر ذکر کی گئی خوبیوں یعنی حسن و جمال اور مال کے سلسلے میں آگاہ فرمایا اور تنبیہ کی کہ ’’عورتوں سے ان کے ظاہری حسن و جمال کے سبب شادی نہ کرو، ہوسکتا ہے ان کا حسن و جمال ان کو تباہ کردے۔ اسی طرح ان کے مال کے سبب بھی ان سے شادی نہ کرو ہوسکتا ہے کہ ان کا مال انہیں خود سری اور سرکشی میں مبتلا کر دے۔ تم دین کی بنیاد پر شادی کرو۔ سیاہ رنگت والی دین دار باندی (اس طرح کی خاتون سے) افضل ہے۔
اللہ کے رسولؐ کی لڑکی کے انتخاب میں دی گئی ان ہدایات کو ہم الٹ بھی سکتے ہیں اور لڑکے کے انتخاب میں انہی خوبیوں کو معیار بنا سکتے ہیں۔ لیکن اللہ کے رسولؐ نے لڑکے کے انتخاب کے لیے بھی الگ سے واضح ہدایات فرمائی۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تمہارے پاس شادی کا پیغام کوئی ایسا شخص لے کر آئے جو تمہاری نظر میں دین دار اور اچھے اخلاق کا حامل ہو تو اس سے شادی کردو۔ اگر تم ایسا نہ کروگے تو مسلم معاشرہ فتنہ و فساد میں مبتلا ہوجائے گا۔‘‘
اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پورے مسلم سماج میں ایک بحران کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جن کے گھروں میں لڑکیاں ہیں وہ ان کے لیے مناسب رشتوں کی تلاش میں پریشان ہیں اور جو لوگ لڑکے والے ہیں وہ خود ساختہ معیارات کے سبب لڑکیوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں جب کہ دوسری طرف اچھے اچھے لڑکے اور اچھی اچھی لڑکیاں ہمارے قرب وجوار میں محوِ انتظار ہیں۔ فتنہ یہ ہے کہ لڑکے والے دین کے علاوہ ہر چیز، حسن و جمال، مال و دولت اور خاندان کو خورد بین سے دیکھتے ہیں جب کہ لڑکی والے لڑکے کی اسمارٹنس، اعلیٰ تعلیم اور اونچی تنخواہ کے ساتھ اپنا گھر اور گاڑی گھوڑا جیسی آسائش بھی تلاش کرتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ موجودہ دور میں شادی کی عمر یعنی ۲۵ سال کے قریب کون ہے جو خود کماکر وہ مطلوبہ چیزیں اس مرحلے میں جمع کرسکتا ہے۔ یہ ہماری فکر کا فساد ہے جس نے معاشرے کو بحران میں ڈال دیا ہے۔
اس سوچ کے برخلاف اگر شادی جیسا فریضہ نیکی سمجھ کر کیا جائے تو یقینا یہ آپ ہی کے کام آئے گی۔ کل کو آپ کی بیٹیوں، بہنوں کی بھی شادیاں ہونی ہیں کہیں آپ کمپرومائز کریں گی تو کوئی اور بھی اس سمجھوتے کے لیے راضی ہوگا، ورنہ جو حال ان ٹھکرائی ہوئی لڑکیوں کا ہے جنہیں آپ ایک معمولی سے نقص یا کمی کی وجہ سے ذلیل کرچکے ہیں وہی حرکت آپ کی بیٹی یا بہن کے ساتھ بھی دہرائی جاسکتی ہے۔ خوب صورتی ہی سب کچھ نہیں ہوتی، خوب سیرتی کی بھی بہت اہمیت ہے۔ زندگی پیار محبت، خلوص اور وفا شعاری سے گزاری جاتی ہے۔ اگر آپ کی بیٹیاں نہیں یا شادی شدہ ہیں تب بھی ان کی اچھی زندگی کے لیے دعا کریں۔ اگر بیٹی نہیں تو کسی کی بیٹی کو اس کی شرافت، اچھے خاندان اور اخلاق کی وجہ سے اپنا کر اسے اپنی بیٹی بنائیں نہ یہ کہ ایک معمولی سی کمی کے باعث اسے ٹھکرا دیا جائے۔
شادی ایک مقدس فریضہ ہے۔ سمجھ دار والدین ظاہری حسن اور دولت کے رعب میں نہیں آتے بلکہ بہت سوچ بچار کر اور عقل مندی سے اپنی بیٹی یا بیٹے کے لیے شریک حیات کا انتخاب کرتے ہیں کہ آیا یہ ہماری اولاد کو ساری زندگی کا سکھ یا اطمینان دے سکتے ہیں؟ ایک قبول صورت لڑکی میں اگر حیا، شرافت اور حسن ظن موجود ہے تو یہ ہی اس کی سب سے بڑی خوبیاں ہیں جسے لوگ پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
گھر اتنی آسانی سے نہیں بستے نہ ہی یہ چاند جیسے چہرے سدا جگمگا سکتے ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے کسی میں خوب صورتی اور خوب سیرتی دونوں موجود ہیں تو یہ الگ بات ہے۔ مگر صرف یہ ہی سوچ لینا کہ اگر لڑکی چاند کا ٹکڑا ہے تبھی ہماری بہو بنے گی تو یہ فقط لڑکی کے ساتھ ہی نہیں آپ کے بیٹے کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔ رشتوں کے سلسلے میں لڑکے اور لڑکی کے والدین کو بہت سمجھ داری اور ہوشیاری سے کام لینا چاہیے کیوں کہ یہ ساری زندگی کا معاملہ ہے۔ آپ کی ذرا سی مادہ پرستی یا خاندان میں ناک اونچی رکھنے کا شوق کسی کے گھر بسانے میں رکاوٹ کا سبب بن رہا ہے تو کچھ سوچئے، ہوسکتا ہے کہ آپ کے سوچنے سے آپ کی پریشانیاں ختم ہوجائیں اور یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں میں سے اللہ کی رضا کی خاطر نیکی سمجھ کر نکاح کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں خوب نوازتا ہے اور انہیں بے نیاز کر دیتا ہے۔
اس کے برخلاف ایک دوسرے کے مال پر نظر رکھ کر رشتے کرنے والوں کو اسی معاشرے نے دیکھا ہے کہ جہیز میں ملا ہوا سامان بک گیا۔ گاڑیاں جو جہیز میں ملیں وہ کوڑیوں کے دام فروخت کردی گئیں اور وہ لالچ کی بھینٹ چڑھ کر رشتے گنواں بیٹھے۔lll