اچھے والد کے لیے قرآنی اسوہ

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

گزشتہ مضمون میں تربیت اولاد میں والد کے کردار پر بحث کی گئی تھی۔ اس مضمون میں اچھے والد کے قرآنی نمونے پیش کرنا مقصود ہے تاکہ ہر والد کے سامنے قرآن کے پیش کردہ نمونے بھی رہیں اور وہ یہ بات بھی سمجھ سکیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ نمونے پیش کیے ہیں، ان کی خوبیاں اور خصوصیات کیا ہیں۔ اس طرح اپنی اولاد کی تربیت و کردار سازی کا خواہش مند ہر باپ وہ خوبیاں اور خصوصیات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے گا جن کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی زندگی کو قرآن نے بڑی اہمیت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ ان کی زندگی کا ایک پہلو تو ابتلاء اور آزمائش کے ذکر سے بھرا ہے دوسرا حصہ اپنی بیوی کو ہم خیال بنانے اور بیٹے کو فرماں بردار اور رب کے آگے راضی رہنے والا بنانے سے متعلق ہے۔ رسول کریمﷺ کی زندگی کو اسوہ بتانے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید حضرت ابراہیم کی زندگی کو بھی اسوہ بتاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو زندگی بہ حیثیت باپ بھی اسوہ ہے۔ اس اسوہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ہمارے لئے بہترین اسوہ ہے۔ بحیثیت والد بھی وہ بہترین نمونہ ہیں۔ آپ اللہ سے نیک و صالح اولاد کی دعا کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے انہیں بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی۔ پھر اولاد کی دینی مصلحت کو دنیاوی مصلحت پر ترجیح دیتے ہوئے اللہ کے حکم سے انہیں بیابان میں چھوڑ دیا۔ اپنی اولاد کے لئے صالح ماحول کا انتخاب کیا۔ ان کے برابر فکر مند رہے اور بتوں سے محفوظ رہنے کے لئے دعا کرتے رہے ساتھ ہی رزق کی فراوانی کی بھی دعا مانگتے رہے۔ بیٹے کو حکم دینے کے بجائے اس سے مشورہ کیا جیسا کہ اسماعیل علیہ السلام سے قربانی والے واقعے میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فلما بلغ معہ السعی قال یا بنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تری
یہاں نہایت ہی محبت بھرے لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے اپنے بیٹے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مشورہ کیا ناکہ ان پر اپنی مرضی تھوپی۔
یہ بات کتنی معنی خیز ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے فرزند جب دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچے تو کس طرح وہ اللہ کے گھر کی تعمیر میں والد کے ساتھ لگے رہے۔ اس میں جہاں ان کا والد کے ساتھ لگے رہنا اہم ہے وہیں یہ بات بھی اہم ہے کہ باپ نے بیٹے کی تربیت اور ذہن سازی ہی اس طرح کی کہ اس کی نظر میں رب کی رضا ہی سب کچھ بن گئی۔ قرآن مجید اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ:
’’اور اسماعیل کو یاد کرو، وہ وعدے کے پکے تھے اور اللہ کے رسول اور نبی تھے۔ اور وہ اپنے اہلِ خانہ کو نماز کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے پسندیدہ تھے۔‘‘
حضرت یعقوب علیہ السلام:
یوسف علیہ السلام نے جب خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند انہیں سجدہ کررہے ہیں تو انہوں نے یہ خواب کسی بھائی کو نہ بتا کر اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو بتایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان سے بہت فری تھے ورنہ بچے عموما خواب وغیرہ ماںکو تو بتا دیتے ہیں لیکن والد کو بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ والد نے صحیح مشورہ دیا کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا۔ پھر قرآن اس بے تحاشا محبت کا بھی ذکر کرتا ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام سے تھی کہ ان کے لئے روتے روتے بینائی کھو بیٹھے۔ ہمیں اپنی اولاد سے بے پناہ اور بے لوث محبت کرنی چاہیے اور اس محبت کا اظہار بھی ضروری ہے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کرتے تھے۔
موجودہ دور کے ماہرین نفسیات اور تعلیم وتربیت کے ماہرین یہی کہتے ہیں کہ والد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ٹین ایج کے بچے کا اچھا دوست ہو۔ اس عمر میں والد کو بچے کا دوست بننے کی جو مثال یہاں پیش کی گئی ہے وہ ہر والد کے لیے قابلِ غور ہے۔
حضرت لقمان کی نصیحتـ:
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی ہے اس کا قرآن میں ذکر ہے اور اس سے اولاد کے تئیں باپ کی توجہ اور اس کا شوق پوری طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ وہ وصیت کیا تھی ؟ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر سورہ لقمان میں کررہا ہے: ’’ اس وقت کا ذکر کیجئے جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے بیٹے !اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرانا، بلاشبہ شرک بڑا ہی بھاری ظلم ہے۔ اے میرے بیٹے اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو تو بھی اسے معمولی نہ سمجھنا چاہے وہ عمل کسی پتھر میں ہو، یا آسمانوں میں ہو یا زمین کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ اسے ظاہر کر دے گا بے شک اللہ بڑا ہی باریک بیں اور باخبر ہے۔ اے میرے بیٹے نماز قائم کرو، اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو اور برے کاموں سے منع کرو اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کرو بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے اور لوگوں سے بے رخی نہ اپناؤ اور زمین پر تکبر سے نہ چلو بے شک اللہ کسی متکبر کو پسند نہیں فرماتے اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو بے شک سب سے بری آواز گدھے کی ہے‘‘۔ ( سورہ لقمان : ۱۶ تا ۱۹)۔اس میں حضرت لقمان نے جس دانائی اور حکمت والی بات اپنے بیٹے کو سمجھائی ہیں اس سے اولاد کی تربیت کے سلسلے میں کئی رہنما اصول سامنے آتے ہیں:
1- تربیت اولاد صرف ماں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ باپ کو بھی اپنے اقوال و افعال سے مسلسل بچوں کی تربیت کرتے رہنا چاہیے اور اس کے لیے فکر مند ہونا چاہیے۔
2- اولاد کو نصیحت نہایت ہی محبت بھرے پر خلوص لہجے میں درد مندی کے ساتھ کرنا چاہیے ۔ جیسا کہ حضرت لقمان بار بار ’’اے میرے بیٹے‘‘ کہہ رہے ہیں۔ سختی اور سخت لہجے سے تربیت کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ ہم والدین خاص طور پر والد حضرات کا یہ رویہ ہوتا ہے کہ ایک دن دو دن تو لہجے میں تھوڑی نرمی ہوتی ہے، اس کے بعد اس قدر سختی ہوتی ہے کہ بچہ جب تک چھوٹا ہوتا ہے ڈر کر رہتا ہے جیسے ہی بڑا ہوتا ہے بھول جاتا ہے یا والدین کے سامنے نہیں ہوتا تو اس کام کو نہیں کرناچاہتا۔ مثال کے طور پر نماز کولے لیجئے جب بچے زبر دستی ابا اماں کے ڈر سے نماز پڑھتے ہیں تو ڈر ختم ہوتے ہی اسے بھول جاتے ہیں۔ لہٰذا اولاد کو نماز کی طرف رغبت دلانا ہے اللہ سے محبت پیدا کرکے نہ کہ اپنے ڈر سے نماز پڑھائی جائے۔
3- تیسری چیز جو سامنے آئی ہے وہ یہ کہ تربیت میں عقائد و ایمان پر سب سے پہلی نظر ہونی چاہئے۔ بچے کی عمر کے مطابق ان کے اندر اسلامی عقائد کو پروان چڑھایا جائے کیونکہ جب عقائد میں درستگی ہو گی تبھی اعمال بھی درست ہوں گے۔ ہم بچوں کو کلمہ ، اس کا ترجمہ، کن چیزوں پر ایمان لانا ہے وغیرہ رٹوا تو دیتے ہیں لیکن ان سب کا مطلب کیا ہے ، ان ہر ایمان لانا کیوں ضروری ہے، یہ ساری باتیں واضح نہیں کر پاتے ۔ نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ عملی زندگی میں ایمان میں پختگی آ ہی نہیں پاتی۔ عقائد کے بعد اعمال کی درستگی اور فرائض کی ادائیگی کی فکر ہے، اس کے بعد مزاج کی تربیت کی گئی ہے اور حضرت لقمان کی نصیحت دراصل مزاج کی اصلاح وتعمیر پر ہی مبنی ہیں اور زندگی کو نیکی کا ایسا رخ دیتی ہیں، جو تمام زندگی اس پر قائم رہنے کے قابل بناتی ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر ہم بہترین اولاد کا خواب سجائے ہوئے ہیں تو ماں باپ دونوں کو مل کر ان کی تعلیم و تربیت پر دھیان دینا ہوگا۔ یہ کوئی دن دو دن کا کام نہیں ہے بلکہ ایک لمبی مدت کا صبر آزما کام اور مشقت بھری ڈیوٹی ہے ۔ لیکن اس کا پھل اس قدر میٹھا ہے کہ نیک و صالح اولاد سے بڑھ کر دنیا کی کوئی دوسری نعمت نہیں۔ جسے نیک اولاد مل گئی اسے سب کچھ مل گیا۔ چونکہ والد میں رعب و دبدبہ ہوتا ہے اس لئے بچے ان کی بات زیادہ سنتے اور سمجھتے ہیں اس لئے والد صاحبان اس کام کو بھی اپنے کاموں کی لسٹ میں شامل کر لیں کہ انہیں روزانہ بچوں کے لئے وقت نکالنا ہی ہے ۔ اگر تربیت کے کام کو سنجیدگی سے لیا جائے تو ایسا کرنا بالکل مشکل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمہ داری کو بحسن خوبی نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمارے لئے صدقہء جاریہ بنا۔ آمین!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں