اک شمع جلانی ہے! قسط-26

سمیہ تحریم بنت امتیاز احمد

میں نے کہیں پڑھا یا سنا ہے کہ شادی کوئی فیری ٹیل نہیں اور اگر ہے بھی تو یہ وہ فیری ٹیل ہے، جس میں ایک نا ایک جن ضرور ہوتا ہے۔ کوئی تو ہوتا ہے منفی خیالات کے ساتھ، منفی رویہ لیے اور ہمیں اس سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے حکمت سے، صبر سے، سمجھ داری سے اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب ہم اس جن کو فتح کرلیتے ہیں اور اگر نہ بھی کرسکے تو خود کو اتنا مضبوط بنا چکے ہوتے ہیں کہ منفی چیزیں ہم پر اثر انداز نہ ہوں۔‘‘ غافرہ اپنے مخصوص انداز میں پری میرج کونسلنگ کے پروگرام میں بیٹھی اُن لڑکیوں سے مخاطب تھی جن کے لیے شادی صرف اور صرف ایک فیری ٹیل ہی تھی جہاں شہزادہ کی شہزادی سے شادی کے بعد دونوںہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں اور کہانی کا اختتام ہو جاتا ہے۔ اب غافرہ انھیں اس Happily everafter کے بعد کی کہانی سنا رہی تھی۔ سبھی سامعین خاموشی اور دلچسپی سے سن رہی تھیں۔

’’شادی وہ ٹیل ہے، جس میں آپ سب فیری ہیں۔ آپ کو اس ٹیل کو خوب صورت بنانا ہے اور اس کا سب سے آسان طریقہ وہ ہے جو کہ اللہ رب العزت نے قرآن کے ذریعے ہمیں بتایا ہے کہ ’’اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے آگے کے لیے کیا کمایا ہے۔‘‘ ہم اپنے ہر عمل کے لیے خود جواب دہ ہیں تو پھر کیوں ہم اپنی مثبت سوچ اور اپنی محبت دوسروں کی منفی سوچ اور نفرت کے حوالے کریں۔ ہم تو دوسروں کے رویوں کو خود پر یوں سوار کرلیتے ہیں جیسے کوئی خون خوار بلا ہو۔ ڈریکو لا ہو جو ہمارے اندر کی ساری مٹھاس اور خوشبو ختم کر دیتا ہے… بالکل نہیں… ہم کیوں اپنی خوشی کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں دیں؟

ہم تو صبر و تحمل اور برداشت کا دامن تھامے رکھیں گے کہ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ میں آپ کو بار بار صبروتحمل اور برداشت کے متعلق اس لیے کہہ رہی ہوں کہ میںنے اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے یہی سیکھا ہے کہ آج کے زمانے میں تعلیم، قابلیت اور ڈگری یہ سب مل جاتے ہیں مگر جو ایک چیز ہماری زندگی سے جیسے ناپید ہوتی جا رہی ہے وہ ہے صبر اور برداشت کی خوبی۔ لفظ لفظ موتی بن کر بکھر رہا تھا۔ یہ تو نہیں سوچا تھا کہ لڑکیاں اس پیغام کو اس قدر سیرئیسلی لیں گی لیکن یہ تو ضرور ہونا تھا کہ اس سے ان کی تخیلاتی دنیا کی دیواروں میں ایک ہلکی سی دراڑ ضرور ڈال دے گا، نہیں تو انھیں کبھی نا کبھی یہ الفاظ ضرور یاد آئیں گے اور پھر زندگی کے کسی مرحلے میں ضرور کام بھی آئیں گے۔ نیک نیتی سے کہے گئے الفاظ اللہ ضائع نہیں ہونے دیتا۔

٭٭

پروگرام کے اختتام پر غافرہ کی ٹیم نے غافرہ کا کارڈ اور ایک Feed back فارم سبھی شرکا میں تقسیم کیا۔ اور تقریباً سبھی نے اس فارم کو فل بھی کر دیا تھا۔ یہ پروگرام ان کی توقعات سے زیادہ اچھا رہا تھا اور پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر ماہ، ہر پندرہ دن وہ کہیں نا کہیں مقامی سطح پر اس طرح کا پروگرام کرنے لگی۔

رحمیٰ کے کہے گئے الفاظ اس کے دل و دماغ میں ثبت ہوگئے تھے کہ تعداد سے زیادہ پیغام پر توجہ دی جائے اور دھیرے دھیرے اس نے جانا کہ جب پیغام پر توجہ دی جائے گی تو تعداد خود بہ خود بڑھتی جائے گی کیوں کہ لوگ آپ کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔

جہاں لڑکیوں میں شعور بڑھنے لگا تھا وہیں ماؤں کے ذہن بھی کھلنے لگے تھے۔ یہ کوئی ماہ دو ماہ میں نہیں ہو رہا تھا اور نہ ہی کسی ایک پروگرام کی وجہ سے بلکہ غافرہ نے چند ایک لڑکیوں اور باشعور خواتین کے ساتھ مل کر ایک ٹیم بنائی تھی۔ اپنی اس ٹیم کے ساتھ مسلسل اُن کے ساتھ رابطے میں رہتی۔ کبھی کہیں چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر گیٹ ٹو گیدر رکھا جاتا اور وہاں ڈسکشن ہوتا تو کبھی چھوٹے چھوٹے بامقصد، بامعنی ویڈیوز، میسیجز کی شکل میں کچھ سول کھڑے کیے جاتے۔ ایک مسلسل محنت تھی اور جب چیزیں محنت اور خلوص دل کے ساتھ مسلسل کی جائے تو پھر مثبت تبدیلی بھی آتی ہے او رساتھ میں بہت سارا خیر بھی لاتی ہے۔

٭٭

15؍ سال بعد

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

وقت تیزی سے پر لگا کر اڑتا چلا گیا… غافرہ اب ایک جانا پہچانا اور معتبر نام بن چکی تھی۔ اسے آج بھی وہ دن یاد تھا جب ابتسام کے کہنے پر اس نے شاہین نامی سینٹر کھولا تھا۔ جس کا محرک ایک واقعہ بنا تھا۔

ہوا یوں تھا کہ وہ ایک کیس کے سلسلے میں بہت کوشش کر رہی تھی لیکن دونوں طرف ہی سے معاملہ سلجھ نہیں رہا تھا۔ شوہر، بیوی کے باہمی تعلقات بھی کچھ سیٹ نہیں ہو رہے تھے اور غافرہ کی بہت کوششوں کے بعد بھی معاملہ طلاق کے قریب تک پہنچ ہی گیا تھا اور اس کے کچھ ہی دنوں بعد ایک اور معاملہ خلع پر ختم ہوا تھا پے درپے ان دونوں واقعات نے غافرہ کو عجیب طرح کی بے چینی میں مبتلا کر دیا تھا۔ ان دونوں واقعات میں شوہر اور بیوی کے درمیان کی جدائی اسے سخت ذہنی اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھی۔ وہ ہر لمحہ سوچتی کہ کاش ایسا نا ہوا ہوتا۔

’’میں نے بہت کوشش کی تھی ابتسام …اور ہر باریوں لگتا تھا کہ اب سب کچھ صحیح جا رہا ہے اور اب سب ٹھیک ہوجائے گا اور پھر مجھے پتا چلا کہ انھوں نے طلاق دے دی، انھوں نے خلع لے لیا…‘‘ غم اور اداسی تھی جو اس کے لہجے سے چھلک رہی تھی۔

’’وہ اس لیے کہ اسے ایسا ہی ہونا تھا…‘‘ ابتسام نے چائے کا مگ اٹھاتے ہوئے کہا۔ وہ پچھلے کئی دن سے غافرہ کو اپ سیٹ دیکھ رہا تھا… وہ اس کی بیوی تھی … وہ اس کی خاموشی اور اداسی کو پڑھ بھی سکتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اسے اس کیفیت سے کس طرح نکالا جائے۔

’’کیا مطلب ہے آپ کا…‘‘ وہ تو اس سے تسلی کے الفاظ کی توقع کر رہی تھی اس لیے ابتسام کی بات پر حیران رہ گئی۔

’’یہ سچ ہے کہ شوہر، بیوی کے رشتے کو قائم رکھنے کے لیے ہم جتنی کوشش کرسکتے ہیں کریں لیکن اس کے باوجود بھی بات نہ بنے تو مطلب یہ ہے کہ اب ان کے لیے اس میں خیر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رشتوں اور تعلقات کو بنانے اور انہیں مضبوط کرنے کا حکم دیتا ہے اور یہی دین کا مزاج بھی ہے۔ لیکن پھر بھی اللہ نے طلاق کو حلال رکھا ہے اور عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے اسی لیے تاکہ نبھاؤ نہ ہونے کی صورت میں اس کا استعمال کیا جائے۔

اللہ رب العزت نے انسان کو بنایا ہے تو وہ اس کی نفسیات اور اس کی باریکیوں کو بھی جانتا ہے۔ اسی نفسیات کے پیش نظر اسے اس نے جہاں حقوق و فرائض بتائے ہیں وہیں طلاق اور خلع کا راستہ بھی رکھا ہے۔ ممکن ہے کہ اب ان کے رشتے میں وہ محبت، وفاداری اور پاس داری ہی نہ رہی ہو اور شوہر اور بیوی یہ دونوں اب ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہی نہ چاہتے ہوں تو پھر کوئی غلط راستہ اختیار کرنے کے بجائے حلال طریقے سے علیحدگی ہی بہتر ہے نا…‘‘

غافرہ کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ ابتسام اسے اتنے بہتر انداز میں اس بات کو سمجھا سکتا تھا۔ اور یوں غافرہ اب اس ذہنی اذیت سے نکل آئی تھی جو ان دونوں واقعات سے اس نے محسوس کی تھی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرہ میں جہاں شادی کے مسائل ہیں، شادی کے بعد کے مسائل ہیں وہیں ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی خاتون کو طلاق ہوجائے یا وہ خلع لے لے تو اس کا بائیکاٹ جیسا حال ہو جاتا ہے، یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ وہ عورت ہے جو اپنا گھر ہی نہ بسا سکی اور دھیرے دھیرے اسے ڈپریشن کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔

تو تم اس کا غم لینے کے بجائے یہ سوچو کہ ان خواتین کو کس طرح تم زندگی کی طرف لے آؤگی…؟؟ انھیں بتاؤ کہ شادی ختم ہوئی ہے زندگی نہیں…؟ انہیں لوگوں کی باتوں کے منفی اثرات اور رویوں سے باہر نکالو۔‘‘

ابتسام کی باتوں نے ہر بار کی طرح اس بار بھی غافرہ کو ایک نیا راستہ دکھایا تھا۔ پھر اس نے شاہین نامی اپنا ایک سینٹر شروع کیا، جس کا سلوگن تھا:

مجھ کو جانا ہے اونچا حد پرواز سے…

جہاں وہ ایک مخصوص وقت میں بیٹھا کرتی تھی او راس کے علاوہ جب کبھی کوئی بھی اس سے ملنا چاہتا وہ مل لیتی۔ پرسنل کونسلنگ کرتی اور پھر اس کے بعد مسلسل ان کے ٹچ میں رہتی، اس وقت تک جب تک وہ ان کے اندر تبدیلی نہ دیکھ لیتی۔

یہ کوئی آسان کام نہ تھا، لیکن غافرہ بھی کب آسانیاں ہی تلاش کرتی تھی اس نے تو کاموں کو مشکل مرحلے سے آسانی میںڈھال کر Manage کرنا سیکھا تھا اور اب بھی وہ یہی کر رہی تھی۔

اِن ۱۵ سالوں میں اپنی ہر دن بڑھتی مصروفیت میں بھی اس نے گھر کو مقدم جانا تھا کیوں کہ یہی اس کا پلیٹ فارم تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اس راستے میں صرف پھول ہی پھول، عزت اور نیک نامی ہی تھی، کئی پہاڑ، کانٹے، اور لوگوں کا فتنہ تھا۔ کئی بار لوگوں نے انھیں پریشان بھی کیا تھا۔ لیکن اللہ کی پناہ میںآنے کے بعد جن و انسان کے شر سے انسان محفوظ ہوجاتا ہے۔ کئی بار غافرہ خود بھی حیران رہ جاتی تھی کہ کس طرح وہ کورٹ کچہری کے معاملات آسانی سے اس کے حق میں چلے آتے تھے شاید وہ بھول رہی تھی کہ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے اللہ اس کے لیے راستوں کو آسان کر دیتا ہے اور ان پیچیدہ راستوں نے اسے مزید نکھار پیدا ہونا لازمی تھا۔

ماویہ ۲۵ سال کی جب کہ یحییٰ ۲۰ سال کا ہوگیا تھا۔ پچھلے ہی سال انھوںنے ماویہ کی شادی کر دی تھی۔ اسے اطمینان تھا کہ اس نے ماویہ کو شعور دیا ہے اور اس کی تربیت خوب سے خوب تر کی ہے۔ لیکن آنے والے کچھ دنوں میں اس کا اطمینان نہ جانے کہاں غائب ہوگیا اور جو کچھ ہوا وہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں