اگر آپ اللہ سے ڈرتے ہیں تو کسی سے نہیں ڈریں گے!

شمشاد حسین فلاحی ، آصف نواز

[ہمارا مزاج ہے کہ ہم صرف وہی باتیں سننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں جو ہمیں پسند ہوں اور یہی بات ہم شخصیتوں کے سلسلے میں بھی روا رکھتے ہیں۔ اس سے اوپر اٹھ کر ہم نے معروف قانون داں اور سابق وزیر جناب عارف محمد خان صاحب سے پرسنل لا اور یونیفارم سول کوڈ کے موضوع پر گفتگو کی۔ اگر کوئی بات گراں گزرے تو ہمیں معاف فرمائیں کہ ہم مختلف رائیوں کو بھی سننے اور ان پر غور کرنے کے قائل ہیں۔ ایڈیٹر]

سوال: مسلم پرسنل لا بورڈ اس پورے قضیہ میں ایک پارٹی تھا اور سپریم کورٹ کو اس نے ایک حلف نامہ بھی دیا تھا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس حلف نامے میں کیا خاص چیزیں تھیں؟

جواب: سب سے پہلے تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ بورڈ نے ایک نہیں بلکہ دو حلف نامے دیے تھے۔ ایک مقدمہ شروع ہونے سے پہلے اور دوسرا مقدمہ میں بحث ختم ہوجانے کے بعد اور اس بعد والے کو داخل کرنے کے لیے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے خاص اجازت لی تھی۔ اس بعد والے حلف نامے میں خاص چیز یہ تھی کہ انہوں نے سپریم کورٹ کو تقریباً ہر اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی جو ان کی مخالف پارٹی کہہ رہی تھی جیسے کہ انہوں نے اس میں یہ بھی کہا کہ تین طلاق ہم پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ ٹھیک نہیں ہے لیکن اس کے لیے عدالت مداخلت نہ کرے۔ ہم نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم اس کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ جو لوگ تین طلاق دیں گے ان کے سماجی بائیکاٹ کی مہم چلائیں گے۔ ہم اس کے بارے میں مزید ہدایتیں جاری کریں گے۔ لیکن کب، کیسے اور کسے جاری کریں گے مجھے نہیں پتہ۔ اور نکاح کے وقت جو نکاح پڑھانے والے ہیں ان کو یہ کہیں گے کہ وہ اس پوری چیز کو نکاح کے وقت وضاحت سے بیان کریں اور لڑکی کو یہ بتائیں کہ وہ شرائط رکھ سکتی ہے اور اگر لڑکے کو وہ شرائط قبول ہوں تو وہ نکاح کرے… وہ ساری باتیں کہیں جو ان کا مخالف کہہ رہا تھا۔ بس ایک ہی اس میں فرق تھا۔ مخالف فریق کو عدالت جانا پڑا تھا اور یہ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ عدالت اس میں فیصلہ نہ دے بلکہ یہ کام ہمارے اوپر چھوڑ دیے۔

سوال: تو گویا انہوں نے خود ہی تین طلاق پر اپنے پچھلے موقف سے رجوع کرلیا تھا۔

جواب: اس چیز کو زیادہ گہرائی کے ساتھ مائناریٹی ججمنٹ نے بتایا ہے، یہ ججمنٹ لوگوں نے ابھی پڑھا نہیں ہے۔ بس ان کو صرف یہ پتہ ہے کہ تین طلاق غیر قانونی ہوگئی ہے۔ جو ججمنٹ مائناریٹی ججمنٹ ہے وہ مسلم پرسنل لاء کے نقطہ نظر سے میجوریٹی ججمنٹ سے زیادہ قابل اعتراض ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ مائناریٹی جج منٹ نے تین طلاق تک محدود نہیں رکھا اپنے آپ کو۔ انہوں نے کہا کہ یہ فریق چاہتا ہے کہ جنڈر جسٹس ہونا چاہیے، یہ یہ چیزیں ختم ہونی چاہیئے، گورمنٹ ان کو سپورٹ کر رہی ہے اور پرسنل لاء بورڈ بھی اپنے حلف نامہ میں یہی کہہ رہا ہے۔ ہم اکیلے تین طلاق کو کیوں ختم کریں، یہ کام ہمارا نہیں ہے۔ یہ کام حکومت کا ہے۔ لیکن حکومت کا کام آسان کرنے کے لیے ہم اس تین طلاق کے حق کو چھ مہینے کے لیے معطل کرتے ہیں۔ چونکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی یہی کہہ رہا ہے اور جو پارٹی ہے وہ بھی یہی کہہ رہی ہیں تو جب تینوں یہی بات کر رہے ہیں اور حکومت بھی پھر ہم اپوزیشن پارٹیز سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی اس کے سپورٹ میں آئیں اور چھ مہینے کے اندر حکومت اس قان کو مکمل طور پر ریفارم کرے۔ اس کو کسی نے نوٹس ہی نہیں کیا ہے۔ انہوں نے یہ کہا کہ اس میں صرف ایک فریق شامل نہیں ہے بلکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی یہی کہہ رہا ہے اور حکومت بھی اسے سپورٹ کر رہی تو پھر حکومت ہم (عدالت)سے وہ کام کیوں کرانا چاہتی ہے جو حکومت کے اپنے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ پرسنل لاء بورڈ نے یہ بات مان لی ہے کہ یہ کام عدالت کو نہیں کرنا چاہیے اگر کرنا ہے تو حکومت کرے پارلیمنٹ کے ذریعہ۔

سوال: لیکن حکومت نے اس کے فوراً بعد یہ بات واضح کی کہ اس پر پہلے سے قانون موجود ہے، مزید کسی قانون کی ضرورت نہیں ہے۔

جواب: اس کا جواب وہ لوگ دیں جو یہ کہتے تھے کہ حکومت کی دلچسپی طلاق میں نہیں ہے بلکہ ان کی دلچسپی تو یکساں سول کوڈ میں ہے۔ اس کا جواب ان سے پوچھنا چاہیے آپ کو۔ حکومت تو اس پر بھی قانون بنانے کے لیے تیار نہیں ہے اور یہ لوگ کہتے تھے کہ ان کا مقصد تو یکساں سول کوڈ لانے کا ہے۔

سوال: تو گویا حکومت نے جب اپنا یہ موقف ظاہر کر دیا تو اس نے یہ بتا دیا کہ وہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ نہیں بلکہ تین طلاق کے نام پر ہو رہی انسانی حقوق کی پامالی کو روکنا تھا۔

جواب:میں نہیں جانتا، اس کا جواب تو وہ لوگ دیں جن کا بزنس یہ بن گیا ہے کہ مسلمانوں کو خوف زدہ رکھیں۔ انہیں خود یہ نہیں معلوم کہ یکساں سول کوڈ کیا ہے اسی طرح سے جس طرح انہیں ایک سال پہلے یہ نہیں معلوم تھا کہ تین طلاق بدعت ہے۔

سوال: مسلمانوں کے اندر یہ خیال جڑ پکڑ گیا ہے کہ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو وہ تین طلاق پر سیاست کرتی رہی ہے پہلے بھی اور اب بھی۔

جواب: حکومت کی طرف سے تو کوئی initiative لیا نہیں گیا تھا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ اس سوال کا جواب میرے خیال سے مولانا ابو الکلام آزاد کا وہ جملہ ہے جہاں انہوں نے کہا کہ( یہ) تمہارے توہمات ہیں، تمہارے مفروضے ہیں جن کو تم نے عقیدے کا نام دیدیا ہے۔ تم خود اپنے سائے سے ڈرتے ہو، اس کا کوئی علاج نہیں ہے، حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں ہوگا۔ یہ لوگ conspiracy theories کے شکار ہیں۔ سازش اور تشدد۔ آپ غور کیجئے مسلم مین اسٹریم سوسائٹیز میں اقتدار کی منتقلی کے لئے کوئی قانونی پروویزن نہیں ہے۔ تو کیا ان ملکوں میں اقتدار کی منتقلی نہیں ہوئی؟ بالکل ہوئی اور لگاتار ہوئی ہیں۔ تو جس کام کی قانونی طور پر اجازت نہ ہو اگر وہ ہو تا ہے تو اس کو کیا کہتے ہیں؟ اسے ہی conspiracy کہتے ہیں۔ اور conspiracy کو لاگو کرنے کے لیے تشدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سوسائٹیز میں سازش اور تشدد کو قبولیت ملی ہوئی ہے، سماجی قبولیت بھی ملی ہوئی ہے اور سیاسی قبولیت بھی ملی ہوئی ہے اور یہ قبولیت اس خطرناک حد تک ہے کہ ہماری فقہ کی کتابوں میں( جسے یہ لوگ شریعت کہتے ہیں جبکہ شریعت تو قرآن و حدیث ہے) جبریہ طلاق بھی جائز ہے، جبریہ بیعت بھی جائز ہے۔ جب جبریہ طلاق جائز ہوگی، جب جبریہ بیعت جائز ہوگی اور جب جبریہ شادی جائز ہوگی تو کیا بچا۔ جبر کی ضرورت ہوتی ہے سازش کو لاگو کرنے کے لیے۔ اور ہمارے ذہن اس قدر متاثر (receptive) ہیں کہ کوئی کہیں دور سے بھی چلا کر کہہ دے کہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے تو ہم فوراً اسے قبول کرنے کو تیار رہتے ہیں کیوںکہ ہم اسی پر عمل کرتے ہیں۔ لانتم اشد رہبۃُ فی صدور ہم من اللہ۔ یہاں تو کہا گیا کہ تمہارے ہیبت ان کے دلوں میں اللہ سے زیادہ ہے اس لیے کہ وہ قوم لا یفقہون کیوںکہ یہ وہ لوگ جو چیزوں کو سمجھتے ہی نہیں ہیں اور ہمیں تو تقلید نے اس لائق ہی نہیں چھوڑا ہے۔ اب تو بارہ سو سال ہو گئی ہے تقلید کی۔ تقلید نے تو ہمیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا ہے کہ ہم کسی چیز کو سمجھ سکیں، کوئی نیا آئیڈیا دے سکیں۔ تو یہ آیت تو کہی تو گئی تھی دوسروں کے لیے لیکن اب یہ نافذ ہم پر ہو رہی ہے۔ یحسبون کل صیحۃ علیہم۔ ہر اٹھنے والی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ ہر چیز ہمارے خلاف کی جا رہی ہے۔ یہودی ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں، عیسائی ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں ہندو ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ ارے آپ بھی تو دنیا میں سپر پاور تھے چھ سو، سات سو سال تک آپ نے بھی کسی کے خلاف سازش کی یا نہیں؟

سوال: لیکن اب ہم یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ یہ ساری چیزیں اگر بطور fact ہم تسلیم کرلیں مسلم سماج کی خاص طور سے ہندوستان کے فریم میں، تو مسلمانوں کو اس خوف کی نفسیات سے نکالنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟

جواب: مسلمانوں کو جس نے خوف کی نفسیات میں مبتلا کیا ہے کارروائی ان کے خلاف کی جانے کی ضرورت ہے۔ ان کو ہٹا دیجیے مسلمانوں کی قیادت سے۔ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ دیکھیے میں ایک بات آپ سے کہتا ہوں سپریم کورٹ میں حلف نامہ کون داخل کر رہے ہیں کہ آپ تین طلاق کو ممنوع مت کیجئے ہم ان لوگوں کا سوشل بائیکاٹ کریں گے جو ایسا کریں گے۔ میں نے ان کی اس بات پر سر پکڑ لیا اور یہ کہا کہ پہلے تو یہ بتائیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی بیویوں کو تین طلاق دی ہے؟ جو تین طلاق دینے والے لوگ ہیں وہ سوشل بائیکاٹ کریں گے؟

سوال: یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بائیکاٹ نافذ العمل کیسے ہوگا؟

جواب: چھوڑ دیجئے نافذالعمل ہونے کی بات ابھی۔ ایسے کام کو کرنے کے لیے اخلاقی قوت چاہیے۔ جنہوں نے خود تین طلاق دیکر اپنی بیویوں کو گھر سے نکالا ہو ان کے پاس ایسے کام کو کرنے کے لیے اخلاقی قوت کہاں سے آئے گی؟ چلے جائیے پٹنہ ریلوے اسٹیشن پر اور پبلک اناؤنس کرنے والی محترمہ سے جاکر پوچھئے کہ انہیں کس نے تین طلاق دیکر گھر سے نکالا؟ اس کو ختم کرنے کے لیے آپ کو پہلے ان کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی جنہوں نے اس خوف کی نفسیات میں پوری کمیونٹی کو مبتلا کیا ہے۔

سوال: ۱۹۷۲ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم ہوا، مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جو کوششیں ہیں پچھلے ۴۲سالوں کی اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب: ان کی کوششیں کے بارے میں میرا بہت تلخ جواب ہے۔ میرا مقصد کسی کے خلاف بولنا نہیں ہے۔ آپ اس کی جانکاری کرا لیجیے۔ اہل اقتدار ان کو پہچانیں یہ ان کہ پہلی کوشش ہے۔ دوسری کوشش ہے کہ اس تعارف کے نتیجے میں کچھ اثر پیدا ہو جائے جس سے کہ وہ اپنے نامزد کیے ہوئے لوگوں کو کہیں مائیناریٹی بورڈ کا چیئرمین، کہیں کچھ اور چھوٹی موٹی سرکاری جو تقرریاں ہیں وہ حاصل کر سکیں۔ اور تیسری کوشش ان کی ہے کہ وہ اسی طرح کی دوسری سرکاری سرپرستیاں حاصل کر سکیں۔ ان سب چیزوں کی میں تفصیلات جانتا ہوں لیکن میں اس لیے منہ سے نہیں بول رہا ہوں کہ وہ بہت چھوٹی سطح کی بات ہوگی۔ اس وقت جب کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ، پرسنل لاء کے تحفظ میں لگا ہوا ہے، ایک آدمی بھی ان کے پاس ایسا نہیں ہے جو سپریم کورٹ میں ان کے موقف کی وکالت کر سکے۔ اس سے بڑی کوئی درماندگی ہوگی؟ ایک آدمی بھی ان کے پاس ایسا نہیں تھا جو ان کے موقف کی وکالت کر سکے۔ کپل سبل صاحب کو ہر بار پیچھے پلٹنا پڑتا تھا اور سوال کرتے تھے کہ اب میں کیا کہوں۔ اور اس میں وہ کچھ ایسی باتیں کہہ گئے جیسے کہ مثال کے طور پر انہوں نے کہہ دیا کہ ان لوگوں کے لیے تین طلاق ایسے ہی معاملہ ہے جیسے کہ میرے لیے میرا یہ عقیدہ ہے کہ بھگوان رام ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے۔ اب میں اس پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک میری سمجھ ہے قرآن اور اسلام عقل کا دین ہے۔ سورہ یوسف میں ارشاد ہے: ’’تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ (۱۰۸) یہاں تو نبی کہہ رہے ہیں کہ میں تو کھلی آنکھوں کے ساتھ بلاتا ہوں۔ اور ان کی وکالت کرتے ہوئے کپل سبل نے کیا کہا؟ کپل سبل نے کہا کہ ان لوگوں کے لیے، یہ بھی نہیں کہا کہ میرے لیے جب کہ وہ وکیل تھے وہاں پر ان کی طرف سے۔ اور پھر انہوں یہ بات کہہ دی۔ ان کو تو ڈوب کے مرجانا چاہیے اور اگر ڈوب کے بھی نہیں مرتے تو کم سے کم کچھ اخلاقی جرأت دکھائیں اور کہیں کہ یہ ہمارے بس کا کام نہیں ہے۔ جن کے پاس علم نہیں وہ تحفظ کریں گے؟ آپ جملے پر غور کیجئے کپل سبل کے۔ ان کے لیے تین طلاق اسی طرح ان کے عقیدے کا حصہ ہے جیسے کہ میرے عقیدے کا حصہ ہے کہ بھگوان رام ایودھیا میں پیدا ہوئے۔ میرے پیچھے بیٹھے ہوئے ایک آر ایس ایس کے وکیل نے یہ سنتے ہی کہا ’واہ واہ کیا شاندار بات کہی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ اب جو چاہیے اس مقدمے میں کر دیجئے اگر معاملہ یہ ہے تو۔ یہ معاملہ پرسنل لاء کا نہیں ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی وہ پکچر دنیا میں بنا دی ہے کہ یہ جاہل ہیں، یہ تشدد پسند ہیں، یہ اڑیل ہیں، یہ عقل کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں، صاحب انہوں نے جو نقصان کیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جس کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے۔

سوال: مسلمانوں میں طلاق کا تناسب ہے ہی کیا؟ جب کہ اس ملک میں پر ۵ منٹ میں ایک عورت جہیز کے لیے جلائی جا رہی ہے اور ہر ایک گھنٹے میں ایک ریپ ہورہا ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی کیا صورت حال ہے حکومت کو چاہیے کہ اس کی فکر کرے نہ کہ 2۔5 فیصد مسلمانوں میں جو طلاق اور تین طلاق کے کیسز ہیں اس کی۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کسی تعصب کا شکار ہے۔

جواب: میں کہتا ہوں کہ یہ 2۔5 فیصد بھی نہیں ہے۔ میں تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتا ہوں کہ یہ صرف .01 ہے۔ لیکن کیا ہم اس سے انکار کریں گے کہ 100 فیصد مسلمان بچیاں جب احساس و شعور کی عمر کو پہنچنے لگتی ہیں تو ان کے دماغ میں یہ بات بٹھائی جانے لگتی ہے کہ شادی کے بعد جس دن چاہے اس کا شوہر سے طلاق دیکر گھر سے باہر نکال دے گا۔ اس سے ان کے اندر کسی عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ اس سے اس کی انسانیت کی قدر و قیمت گھٹتی ہے یا نہیں گھٹتی؟ اور اس کو شروع سے ہی بتایا جاتا ہے۔ اس کی ماں، اس کی بہن اس کی پھوپھیاں، اس کی خالائیں اسے بتاتی ہیں اور شروع سے اسے ڈراتی ہیں۔ اس ماحول میں مسلم لڑکی عقلی طور پر کبھی در حقیقت بلوغت کو پہنچ سکتی ہے؟ اور آپ اس چیز کا دفاع کر رہے ہیں جس پر حضور اکرم نے لعنت فرمائی ہے۔

آپ نے فرمایا: حلال اور جائز چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز اللہ کی نظر میں طلاق ہے۔ اور جہاں قرآن کو یکسر نظر انداز کر کے اس پر عمل کیا جا رہا ہو اس کی شناعت کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ قرآن کا طریقہ وہ ہے جس میں تین مہینے تک طلاق کا ارادہ کرنے سے پہلے سمجھانا ہے، بستر پر علیحدگی اختیار کرنی ہے، مثالیں دیکر سمجھانا ہے اور اس کے بعد دو حکم بنانا ہے اور جب وہ بھی ہاتھ گھڑا کر دیں اور یہ کہیں کہ ان کے بیچ میں حالات اب ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ اب انکا ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے اب انکا علیحدہ ہوجانا ہی بہتر ہے۔ اس کے بعد بالکل نکاح کی طرح قاضی اور گواہوں کی موجودگی میں قرآن کے مطابق طلاق دی جا سکتی ہے۔ پہلے پروسیجر میں کم سے کم دو مہینے لگ جائیں گے۔ اور قرآن نے تین مہینے کا پروویزن کر دیا۔ طلاق کی تکمیل ہوگی عدت کی تکمیل کے ساتھ۔ دوران عدت رجوع کا حق حاصل ہوگا۔ تکمیل ہوجانے کے بعد بھی نکاح کا حق رہے گا۔ ان سب کو نظرانداز کردیا ان لوگوں نے۔ شاہ بانو کیس کے زمانے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جو صدر تھے انہوں نے کہا تھا کہ اگر پرسنل لاء متاثر ہوتا ہے تو مسلمان قرآن کی 37 آیتوں پر عمل کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔ اب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر طلاق بدعت ہوتی ہے تو قرآن کی کتنی آیتوں پر عمل کرنے سے محروم ہوگئے؟ اور ان آیتوں میں عمل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہیں ہے بلکہ یہ حکم ہے۔ تو کتنی آیتوں کی حکم عدولی کی اس شخص نے جس نے تین طلاق دی؟ اور آپ نے اسے جائز قرار دے دیا۔ آپ آیتوں کا استعمال اس کے لیے کریں گے سراسر آیتوں کی خلاف ورزی کرتا ہے؟ انگریزی میں اسے کہیں گے کہYou have upended Islams and Quran یعنی یہ کہ انہوں نے قرآن اور اسلام کو سر کے بل کھڑا کردیا۔تو جب آپ سر کے بل کھڑے ہوں گے تو دنیا آپ کو سیدھی نظر نہیں آئے گی۔

سوال: مسلمانوں کے ذہن میں ایک بات یہ کھٹکتی ہے کہ درستور ہند کی بنیادی حقوق والی آرٹیکل 25 میں مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اس آرٹیکل کی موجودگی کے باوجود ڈائریکٹیو پرنسپلس کے تحت آرٹیکل 44 ہے جس میں یکساں سول کوڈ کی بات کہی گئی اور ایسا لگتا ہے کہ یکساں سول کوڈ والا آرٹیکل دستور ہند کے ذریعے مذہبی بنیادی حقوق کی یقین دہانی سے ٹکراتا ہے۔ آپ اس کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: آرٹیکل 25 مذہب کی آزادی کے ساتھ ساتھ مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی کی بات کرتا ہے۔ اور اس کے علاوہ دیگر ہر طرح کی مذہبی آزادی کی بات کرتا ہے۔ لیکن کیسے دیتا ہے آزادی؟ بشرطیکہ اس آزادی سے دیگر جو بنیادی حقوق اس باب میں دیے گئے ہیں، ان کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو، بشرطیکہ اخلاقیات کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو، امن عامہ کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ سب سے پہلے تو تین طلاق جو نہ صرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی غلط ہے اس لیے کہ اس کے ذریعے سے انسانی قدر و قیمت کی پامالی ہوتی ہے۔ تین طلاق تو اس قدر شنیع ہے کہ آپ صلعم کسی تین طلاق والے واقعہ کو سن کر غصے سے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ تم قرآن کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہو اس وقت جب کی میں تمہارے درمیان زندہ ہوں۔ آپ بتائیے کیا یہ طلاق کسی بھی طور پر اخلاقیات کے معیار پر پوری اترے گی؟ یہ سراسر غیر اخلاقی، غیر اسلامی، غیر قانونی اور غیر قرآنی ہے۔ اب آپ آئیے یکساں سول کوڈ کی طرف۔ دنیا کے بیشتر ممالک وہ ہیں جن میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں جہا یکساں سول کوڈ ہے۔ لیکن آپ مسلم ممالک کو ابھی تھوڑا الگ رکھیے۔ آپ خالص غیر مسلم ممالک کی مثال لے لیجیے۔ وہاں پرسنل لا نہیں ہے۔ وہاں پر مذہبی قوانین نہیں تو جو مسلمان ان ممالک میں رہ رہے ہیں کیا وہ اب مسلمان نہیں رہے؟ وہ دین پر قائم ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے قائم ہیں۔

سوال: لیکن ہمیں ایسے دوسرے کئی غیر مسلم ممالک ملتے ہیں جہاں پرسنل لا ہے مثال کے طور پر پڑوسی ملک سری لنکا کو ہم دیکھ سکتے ہیں جہاں مسلم پرسنل لا ہے۔

جواب: لیکن سری لنکا نے بھی تین طلاق کو ختم کر دیا ہے اور مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت ہو یا آنے والی کوئی حکومت، کوئی بھی یکساں سول کوڈ لانے والی ہے۔ کسی کو دلچسپی نہیں ہے یکساں سول کوڈ میں۔ میں آپ کو ایک جملہ سناتا ہوں جو مجھ سے نرسمہا راؤ جی نے کہا تھا۔ جب میں نے استعفے دیا تو نرسمہا راؤ صاحب کی بھی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ مجھے سمجھائیں تاکہ میں استعفیٰ واپس لے سکوں۔ وہ بھی میرے ساتھ تقریباً آدھا گھنٹہ بیٹھے اس پر گفتگو کرنے کے لیے اور بھی لوگ اس سلسلے میں میرے پاس آئے لیکن میں ان کا خاص طور سے اس لیے ذکر کر رہا ہوں کیونکہ ان کا آرگومنٹ اس لائق ہے کہ اس پر سب سے زیادہ غور کیا جائے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ دیکھو سمجھنے کی کوشش کرو کہ ہم مسلمانوں کی سماجی اصلاح کرنے والے نہیں ہیں۔ مذہب کے نام پر وہ جو چاہتے ہیں وہ ہونے دو۔ تمہیں کیا اعتراض ہے۔ اگر وہ گڈھے میں پڑے رہنا چاہتے ہیں تو انہیں پڑے رہنے دو۔ بالکل یہی جملہ انہوں نے مجھ سے بولا تھا۔ کون حکومت آج یکساں سول کوڈ بنا کر اس ملک کی اکثریت کو جو آج (Hindu Undevided family) میں زبردست فائدے ملے ہوئے ہیں، انکم ٹیکس سے لیکر ہر چیز میں، انہیں ان سب چیزوں سے محروم کرے یا پھر یکساں سول کوڈ بنا کر وہ سارے فائدے آپ کو بھی ملیں۔ آپ کو تو یہ پتہ بھی نہیں ہے کہ وہ ہندو قانون نہیں ہے۔ ہندو قانون میں طلاق کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہندو قانون میں لڑکی کے حق کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے ہندو کوڈ میں طلاق اسلام سے لی ہے۔ لڑکی کا حق یا میراث سیدھے سیدھے اسلام سے لیا گیا ہے۔ انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے اسے لینے میں۔ لیکن اگر آپ کہتے اپنی طرف سے کہ صاحب یہ تو پرسنل لاء کے نام پر معاشی فائدے ملے ہوئے ہیں یہ تو ہمیں بھی ملنے چاہیے تو وہ تو ضرور مجبور ہوتے سوچنے کے لیے۔ وہ تو بہت خوش ہیں کہ آپ تو اسکی مخالفت کرتے ہیں۔ اور میری بات آپ نوٹ کر لیجیے کہ اس بار تو 30 سال لگے انہیں تین طلاق سمجھنے اور اس کو غلط کہنے میں لیکن اب جب کہ مسلم سماج میں بھی تعلیم کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، اب تو صرف 15 سال اور گزر جانے دیجئے یہی مسلم نوجوان لڑکے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قائدین جیسے لوگوں سے سوال کریں گے کہ تم نے ہندو کوڈ بل کو کبھی پڑھا نہیں تھا؟ چونکہ باقی چیزوں میں تو وہ بل خاموش ہے۔ اس لیے کہ قانون کا کام یہ تھوڑی ہے کہ وہ یہ طے کرے گا کہ آپ نکاح کریں گے یا آگ کے گرد پھیرے لیں گے۔ اس سلسلے میں تو آپ آزاد ہیں چاہے جیسے کیجئے۔

کرسچن لاء میں طلاق کا تصور نہیں تھا پہلے۔ تو اس لیے آپ اسے ماڈرن لا کا بھی کہہ سکتے ہیں اور اسلامک لا کا بھی کہہ سکتے ہیں، چوںکہ ہندوؤں میں ایک طبقہ اس قانون کی مخالفت کر رہا تھا تو قانون بنانے والوں یعنی پنڈت جواہر لال نہرو جی اور امبیڈکر جی کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اس ہندو کوڈ بل کی مخالفت کرنے والے ہندوؤں سے جو کہ حکومت میں بھی تھے کہیں مسلم قدامت پسند قیادت ہاتھ نہ ملالے۔ اور یہ دونوں مل کر کہیں مخالفت نہ کرنے لگیں تو پھر حکومت نے مسلمانوں کو اطمینان دلایا کہ یہ تمہارے اوپر لاگو نہیں ہوگا بلکہ صرف ہندوؤں کے اوپر لاگو ہوگا۔ ویسے اس میں کچھ ہندو ہے ہی نہیں۔

سوال: مسلمانوں کا کہنا یہ ہے کہ وہ ججز حضرات جو اسلام کو پڑھتے ہی نہیں اور جن کے پاس اسلام کا علم ہی نہیں ہے وہ مسلم احکام کی تفہیم اور تشریح کیسے کر سکتے ہیں؟

جواب: یہ بنیادی سوال ہے اور میں اس سے 100 فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ اس لیے دین کے معاملے کو ضمیر کا معاملہ رکھنا چاہیے، قانون کا معاملہ نہیں بنانا چاہیے۔ میں سو فیصد اتفاق کرتا ہوں اس سے چوںکہ اس میں پرابلم کیا ہے؟ آپ مسلم ممالک کو دیکھئے! کسی مسلم ملک میں اسلامی قانون لاگو ہے؟ کسی ایک کا نام بتا دیجیے؟

سوال: ایک بھی ہم نہیں پیش کر سکتے ہم:

جواب:نہیں نہیں ، شاید آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں آئیڈیل اسلام کی بات بات کر رہا ہوں۔ میں آئیڈیل اسلامی ریاست کی بات نہیں کر رہا۔

سوال: تب تو بہت سارے مسلم ممالک ہیں جہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں۔

بڑی مثال سعودی عرب کی دی جا سکتی ہے۔

جواب: چلئے اب سعودی عرب کو دیکھتے ہیں۔ سعودی عرب میں حنفی قوانین لاگو ہیں؟

سوال: نہیں۔

جواب: سعودی عرب میں مالکی قوانین لاگو ہیں؟

سوال: نہیں۔

جواب:سعودی عرب میں شافعی قوانین لاگو ہیں؟

سوال: نہیں۔ حنبلی فقہ ہے۔

جواب: ہاں حنبلی قوانین ہیں جسے وہ سلفی یا اہل حدیث فقہ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ ایران میں کیا لاگو ہے؟ وہ تو اپنے آپ کو اسلامی جمہویہ ایران کہتے ہیں۔

ہاں ایران میں فقہ جعفریہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی فقہ کہیں نافذ نہیں ہے۔ تایخ میں کہیں نہیں لاگو ہوئی ہے۔ اور لاگو ہوگا بھی کیسے؟ چلئے مثال کے طور پرآپ طے کر لیجیے ہندوستان میں مسلمانوں کا اقتدار ہے اور ہم مالکی قوانین لاگو کردیتے ہیں۔ کیا حنفی مان جائیں گے؟ نہیں مانیں گے نا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام اور اسلامی قوانین میں دلچسپی کسی کو نہیں ہے۔ اور مسلم ممالک میں اسے اسلامی قوانین کہہ کر لاگو کیا جاتا ہے۔ اسے لاگو اس لیے کر پاتے ہیں کیونکہ وہاں جابرانہ وآمرانہ نظام ہے۔ ورنہ وہاں جب آپ اہل حدیث کو لاگو کرتے ہیں تو حنفی اور مالکی کو بغاوت کرنا چاہیے تھا۔ تو آپ ہندوستان میں کتنے ججوں کو چھووں فقہ پڑھائیں گے یہ بتا دیجیے مجھے آپ؟ ہے ممکن یہ ؟ کتنی تقرریاں کرنی ہونگی اندازہ ہے آپ کو؟ اور اس کے باوجود بھی مطلوبہ ہدف حاصل ہونا ناممکن ہے۔ قانون کی اساس اور اس کو لاگو کیا جانا طاقت کی زور پر ہوتا ہے۔ اور دین میں طاقت کا کوئی رول نہیں ہے۔ لا اکراہ فی الدین

سوال: نرسمہا راو صاحب کی گفتگو کو اگر ہم ذہن میں رکھیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم جہاں ہیں حکومت ہمیں نہ چھیڑے۔ تو پھر ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ حکومت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سطح پر مسلمانوں کے لیے مسلم علماء ججوں کا ایک پینل بنادے؟

جواب: اس پر میرا سوال یہ ہے کہ وہ کس کے ذریعے لاگو کرائیں گے؟ حکومت کے apparatus کے ذریعے؟

حکومت کے apparatus کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سارا جھگڑا ہی مسلم پرسنل لا کا نہیں ہے۔ جھگڑا اس بات کا بھی ہے کہ ہمیں اختیارات دے دو۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے لوگ ایک وکیل تو پیدا کر نہیں سکتے جو ان کے پرسنل لا کے تحفظ کی وکالت کرسکے۔ تو وہ جج کہا سے بن سکتے ہیں؟ مسلم پرسنل لا بورڈ کے پاس یہ اخلاقی قوت کیوں نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کریں اور مسلمان اسے مان لیں۔ وہ عدالت میں جاتا یا جاتی کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہ دیکھتا ہے کہ یہ تو صرف ہم پے لاگو کر رہے ہیں ان کی زندگی میں تو کہیں یہ ہے ہی نہیں۔ میں آپ کو بتا دوں کہ ہندوستان میں صدیوں سے شہروں کے علاوہ کہیں بھی حکومت اکزسٹ نہیں کرتی۔ سب سے بڑا دینا کا جو اعلی ترین نظام جو مانا جاتا ہے وہ کیا ہے؟ unforceable to obedience ۔ آپ کو میں ایک اور مثال دیتا ہوں۔ جو ایک بار سعودی عرب سے ایک صاحب میرے پاس آئے ہوئے تھے اور ان ہی موضوعات بحث کر رہے تھے تو میں نے ان سے یہ بات کہی تھی۔ میں نے کہا کہ آپ کے ملک میں آفیشلی شراب نہیں ملتی۔ لیکن کتنی ملتی ہے اور وہاں کے لوگوں کا شراب سے کس قدر شغف ہے یہ میں اچھے سے جانتا ہوں۔ شراب سے ان کے شغف کا عالم یہ ہے کہ حکومت کو ہومیوپیتھک کی دوائیاں بند کرنی پڑیں اس لیے کہ وہ لوگ tincture پی جایا کرتے تھے۔ لیکن میں اس بحث میں نہیں جاووں گا۔ میں یہ مان کر چلتا ہوں کہ آپ شراب نہیں پیتے اس لیے کہ آپ کے یہاں شراب ممنوع ہے۔ آپ اس وقت میرے گھر میں بیٹھے ہیں اس جگہ سے دو سو میٹر کی دوری پر چار بہترین شراب کی دکانیں ہیں، لیکن پھر بھی میں نہیں پیتا اور آپ بھی نہیں پیتے۔ کیوں نہیں پیتے؟ اس لیے کہ ہمارے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اللہ نے اس سے منع کیا ہے۔ قانون کا احترام یہ ہے یا یہ کہ پولس والا ڈنڈا لے کر آئے اور آپ کے گھر کی تلاشی لے کہ آپ شراب پیتے ہیں یا نہیں۔ کون سا ہے قانون کا احترام۔ دین نے تو صاف کر دیا کہ لا اکراہ فی الدین۔ اور عدالتیں فورس اور اکراہ کے بغیر نہیں چلتیں۔ تو دراصل ان کو چاہیے پاور، اسلامی قوانین میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انکی قیادت ایسی کیوں نہیں ہوسکتی جو inspire کرے لوگوں کو۔ عورت کیا مسلمان مرد سے کم مذہبی ہوتی ہے؟ عورت کسی بھی مذہب میں ہو مرد سے زیادہ دیندار اور مذہبی ہوتی ہے۔ لیکن پھربھی مسلم عورتیں جاتی کیوں ہیں عدالت میں؟ اس لیے کہ ان کے ساتھ جو طریقہ اپنایا جا رہا ہے وہ خود مذہب کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر آپ ظلم کیجیے مذہب کے اصولوں اور تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہوئے اور اس سے امید کیجیے کہ آپ اسے اسلام کی دہائی دیکر اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے عدالت جانے سے روک لیں گے۔ناممکن ہے۔ جو لوگ ایک وکیل نہیں پیدا کر سکتے جو ان کی وکالت کر سکے وہ جج بنائے جائیں؟ یہ کچھ اور ہے ہی نہیں۔ یہ ساری بات یہی ہے کہ ہندوستان میں تیرہویں صدی سے لیکر 1860 تک ہندوستان کی عدلیہ انہیں لوگوں کے قبضے میں تھی جن لوگوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ بنایا ہوا ہے۔ جو چیز انہیں بے چین کرتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان کے ہاتھ سے عدالت نکل گئی۔ انہیں چاہیے اقتدار میں حصہ داری۔ جمہوریت میں، اقتدار میں حصہ داری کے لیے آپ کو لوگوں کا دل جیتنا پڑتاہے صرف اہل اقتدار کی خوش آمد کر کے حصہ داری نہیں ملتی ہے۔ جمہوریت سے پہلے کے ادوار میں جو بھی بادشاہ کی خوش آمد کرلے عدلیہ پروہ قابض ہوجاتا تھا۔اور اسے قاضی بنا دیا جاتا تھا۔

آج عام مسلمان جج بننے لگا ہے۔ لیکن یہ نہیں بن سکتے جو ندوہ، دیوبند یا اس جیسے دوسرے مدارس سے فارغ ہیں جب تک کہ یہ دوسری تعلیم حاصل نہ کرلیں۔ اصل چیز جو انہیں پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں عالم مان لیا جائے۔ بیٹھو امتحان میں اگر کوالیفائی کرتے ہوتو بنو۔ ہمارے ملک میں تو مسلم چیف جسٹس آف انڈیا بھی بن چکا ہے۔ یہ مدارس میں 14 سال تک تعلیم دیتے ہیں اور وہاں سے فارغ ہوکر وہ چند دینی علوم کے علاوہ کچھ لیکر نہیں نکلتا۔ میں بالکل شرح صدر کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ مدرسوں کی موجودہ شکل ایک بدعت ہے۔ اس لیے کہ مسلم دور میں مسلمانوں کے جو تعلیمی ادارے ہوتے تھے ان ہی سے نکلتے تھے وہ لوگ جو انجینئر ہوتے تھے، ڈاکٹر اور ایڈمنسٹریٹر ہوتے تھے۔ اب جو مسلمانوں کے تعلیمی ادارے ہیں اس میں سے نہ انجینئر نکلتا ہے یہ ڈاکٹر نکلتا ہے اور نہ ایڈ منسٹریٹر نکلتا ہے۔ اس آدمی میں جوآج مدرسے فارغ ہوکر نکلتا ہے اگر اس کے اندر خود کچھ چاہ ہو کہ مجھے دنیا مین کچھ کرنا ہے، وہ خود کچھ اقدام کرے تو وہ کچھ کر لیتا ہے۔ ورنہ آج مدارس سے جو نکلتا ہیں وہ یا تو امام بن سکتا ہے، یا مووذن بن سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک اور مدرسہ قائم کر سکتا ہے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا ہوں کہ مدارس سے نکلے ہوئے اچھے لوگ نہیں ہیں۔ میں مدارس سے نکلے ہوئے بہت سے ایسو کو بھی جانتا ہوں جو بہت اچھا کر رہے ہیں اور جن کی صلاحیتوں سے میں بہت متاثر اور خوش ہوں۔ لیکن ان میں سے بیشتر نے مدارس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیز اور کالجزسے بھی تعلیم حاصل کی تب جاکر انہوں نے اپنی پہچان بنائی۔

سوال: آپ کی گفتگو سے یہ اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کے لیے یکساں سول کوڈ کوئی ڈرنے کی چیز نہیں ہے؟

جواب: دنیا میں کوئی بھی چیز ڈرنے کی نہیں ہے۔ اگر آپ اللہ سے ڈرتے ہیں تو آپ کسی چیز سے نہیں ڈریں گے۔ دین پر چلنے سے دنیا کی کون سی طاقت آپ کو روک سکتی ہے اسکا نام مجھے بتائیے؟ میں مسلمانوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ ہر طرح کے خوف کو اپنے دل سے نکال دیں۔ اور اس کی جگہ تقوی اور خدا شناسی اختیار کریں۔ اگر خدا شناس ہو جائیں تو دنیا میں کسی کا خوف نہیں رہے گا۔ آپ کوئی بھی قانون بنا لیجیے، دین تو میرے personal conduct کا معاملہ ہے۔ مجھے میرے دینی معاملات میں کون روک لے گا؟ مجھے charity کرنے سے کون روک لے گا؟ مجھے 6 لوگوں کو کھانا کھلانے سے کون روک لیگا؟ صحیح بات تو یہ ہے کہ اگر آپ اپنے اخلاق و کردار درست کرلیں تو آپ اپنا وہ اثر چھوڑیں گے جس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا۔

میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ آپ نے یہ جو پینٹ اور شرٹ پہنی ہوئی ہے تو اس کے لیے کیا انگریز تبلیغ کرنے آئے تھے؟ نہیں۔ لیکن پھر بھی سب نے اسے اختیار کیا اور پسند کیا۔ اللہ نے ایک اصول بنا دیا ہے۔ واما ما ینفع الناس فیمکث جو چیز انسانوں کو فائدہ پہنچائے گی باقی رہے گی۔ اسے دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی۔ آپ اسلام پر عمل پیرا ہو جائیے لوگوں کو اس کی افادیت خود ہی سمجھ میں آجائے گی۔ لیکن میں اوروں کو اسلام بتاؤں اور خود ہماری زندگی میں وہ چیز ہو نہیں۔ ایسا نہیں چلے گا۔ آج دنیا مسلمانوں سے کیوں ڈر رہی ہے؟ اس لیے کہ کیا کوئی مسلم ملک ایسا بتا سکتے ہیں جس میں انسانی حقوق کا احترام ہوتا ہو؟ صرف ایک بتا دیجیے؟ آپ سے ڈریں گے نہیں تو کیا کریں گے۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ ولقد کرمنا بنی آدم۔ اورہمارے یہاں یہ ہے کہ معمولی معمولی فقہی اختلافات جیسے رفع یدین اور آمین بالجہر میں بھی گردنیں کٹتی رہی ہیں۔

میں آج آپ کو ایک اور چیز بتاتا ہوں۔ جسے بولنے میں مجھے ذرا بھی جھجک نہیں لہٰذا آپ اسے شائع کیجیے۔ وہ یہ کہ آج کی تاریخ میں پاکستان میں جو بہت سی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اس کے لیے بیشتر پاکستانی بشمول نام نہاد مسلم جماعتوں کے اگر ان کو بھی اس وقت سنیں تو وہ بھی ضیاء الحق کو ان سب چیزوں کا ذمہ دار مانتے ہیں۔ اب ہندوستان کے مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی اپنی سوانح عمری لکھتے ہیں کہ۱۷؍ اگست کوضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کی شہادت کی خبر آئی اور میرے رفقاء اور عزیزوں نے میری صحت اور اس خبرسے میرے ذہن و اعصاب پر جو اثر پڑ سکتا تھا اس کی رعایت کرکے رات بھر اس پریشان کن اور تکلیف دہ خبر کومجھ سے چھپائے رکھا’’یعنی یہ عین ممکن تھا کہ وہ کسی حادثے کا شکار ہوجاتے اگر ان کو ضیاء الحق کے شہادت کی خبر رات میں ہی مل جاتی۔ آگے وہ لکھتے ہیں کہ یہ جانتے ہوئے کہ صدر شہید کی میرے دل مین کتنی قدر ومنزلت ہے اور اسلامی نظام حکومت کے اجراء اور اس کو پائے تکمیل تک پہونجانے اور اسلامی قوانین کونافذ کرنے اور ملک کے امن و امان اور عزت و وقار کی پاسداری کے لیے‘‘ کوئی چیز بچی ہے اب تعریفی کلمات میں جنرل ضیاء الحق کے لیے؟ بس نبوت ہی بچی ہے اکیلی اور تو کچھ بچا نہیں؟ مولانا کو پاکستان میں ضیاء الحق چاہیئے تھا، سعودی عرب میں بادشاہت چاہیے تھی اور ہندوستان میں سیکوریزم چاہیے تھا۔ یہی اسلام ہے؟ اسلام تو پوری دنیا کے لیے ہے تو اس میں کچھ تو uniformity ہوگی۔ پاکستان والوں نے بھی شروع شروع میں ضیاء الحق کا ساتھ دیا لیکن آدھی مدت کے بعد وہ بھی اس کے مخالف ہوگیے۔ منافقت کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ اسی کتاب میں مولانا علی میاں اس پر گفتگو فرما رہے ہیں کہ ہندوستان میں سیکولرزم کتنا ضروری ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں