اہلِ ایمان کی زندگی کا ایک پہلو

سلطان احمد اصلاحی

ہمدردی، تعاون، دوسرے کا دکھ سکھ بانٹنے اور اس سے آگے اس کے لیے سینہ سپر ہوجانے اور جان دے دینے کے لیے انسانی لغت میں اگر کسی رشتے کا حوالہ دیا جاسکتا ہے تو وہ بھائی کا رشتہ ہے۔ اللہ کے آخری دین اسلام کی نجات دہندہ تحریک نے بھی اس رشتے کو اہمیت و عظمت کے اسی مقام پر رکھا ہے اور تاریخ میں اس کے فدا کاروں نے اس کی یہ عظمت اور حیثیت تسلیم کی ہے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ جنگ ِیمامہ میں مارے گئے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کے قاتل ابومریم حنفی سلولی سے کہا کرتے تھے کہ ’’میرے دل کے لیے تم کبھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتے جس طرح کہ زمین کے لیے بہایا ہوا خون قابل قبول نہیں ہوتا۔‘‘

قرآن و حدیث میں جو مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی کہاگیا ہے، اس کی روشنی میں ان کے باہمی رشتے کی گہرائی اور قربت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ سورہ? حجرات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مسلمان جو ہیں وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘ (الحجرات: 10)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متعدد احادیث میں اس رشتے کے تقاضوں کی تفصیل بتائی ہے جسے بجاطور پر آیت ِکریمہ کی تفسیر قرار دیا جاسکتا ہے:

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو اکیلا چھوڑتا ہے، اور جو اپنے بھائی کے کام آئے گا اللہ اس کے کام آئے گا، اور جو کوئی کسی مسلمان کی تکلیف کو رفع کرے گا اللہ قیامت کے دن کی تکلیفوں میں سے اس کی تکلیف کو رفع کرے گا، اور جو کوئی کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا۔‘‘نیز یہ کہ:

’’آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے پر بولی نہ بڑھائو، ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھو، ایک دوسرے سے بے رخی نہ برتو اور ایک دوسرے کے بیچ میں چڑھ کر خریدوفروخت نہ کرو۔ اس کے بجائے آپس میں اللہ کے بندے، بھائی بھائی بن کر رہو۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو گری نگاہ سے دیکھتا ہے، نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ اللہ کا ڈر یہاں ہوتا ہے۔ ایسا کہتے ہوئے آپؐ نے تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ آدمی کے برے ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو گری نگاہ سے دیکھے۔ ہر مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان، مال اور اس کی عزت آبرو حرام ہے۔‘‘

جامع ترمذی کی روایت میں اس پر اضافہ ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ نہ اس سے خیانت کرتا ہے نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے، نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ ہر مسلمان کے اوپر دوسرے مسلمان کی عزت و آبرو، اس کا مال اور اس کی جان حرام ہے۔ اللہ کا ڈر یہاں (سینے میں) ہوتا ہے۔ آدمی کے برا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو گری نگاہ سے دیکھے۔‘‘

دوسری حدیث میں آپؐ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان سے مطلوبہ رشتے اور تعلق کو اس تعبیر سے واضح فرمایا:

’’مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے عمارت کی مانند ہوتا ہے جس کی ہر اینٹ دوسرے کو باندھے ہوتی ہے۔ پھر (اس کو سمجھانے کے لیے) آپ? نے اپنی انگلیوں کو بھینچ کر دکھایا۔‘‘

’’مسلمان مسلمان کے لیے آئینہ ہوتا ہے اور مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، وہ اس کو اس کے نقصان سے بچاتا ہے اور اس کا پشت پناہ ہوتا ہے۔‘‘

آخر میں یہاں تک فرمایا کہ:

’’تم میں کا کوئی شخص ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو کہ وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘

بھائی چارے کے اس رشتے سے مسلمان کے اوپر دوسرے مسلمان کا جو حق قائم ہوتا ہے، اس کی تفصیل میں اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازے کے پیچھے چلنا، دعوت کا قبول کرنا اور چھینک آنے پر اس کو ’’یرحمک اللہ‘‘ کہنا (جب کہ وہ خود اس پر الحمدللہ کہے)۔‘‘دوسری حدیث میں اس پر اضافہ ہے:

’’مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں: جب تم اس سے ملو تو اسے سلام کرو، جب وہ تم کو دعوت دے تو اس کو قبول کرو، اور جب وہ تم سے نصیحت کا طلب گار ہو تو اس کو نصیحت کرو، اور جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمدللہ کہے تو تم (اس کے جواب میں) یرحمک اللہ کہو، جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے پیچھے پیچھے چلو۔‘‘

اس سلسلے میں آپؐ کے یہ ارشادات بھی قابل توجہ ہیں: ’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کو تین دن سے اوپر چھوڑے رکھے۔ تو جو کوئی اس کو تین دن سے اوپر چھوڑے رکھے اور اس دوران اس کو موت آجائے تو وہ دوزخ میں جائے گا۔‘‘

نیز یہ کہ: ’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو تین دن سے اوپر چھوڑے رکھے۔ تو اگر تین دن گزر جائیں تو چاہیے کہ وہ اس سے ملاقات کے لیے جائے اور اسے سلام کرے۔ اگر وہ اس کو جواب دے تو ثواب میں یہ دونوں شریک ہوں گے، لیکن وہ اس کو جواب نہ دے تو تنہا گناہ گار ہوگا اور سلام کرنے والا ترک ِتعلق کے گناہ سے باہر نکل آئے گا۔‘‘

قرآن شریف میں ’’بھائی‘‘ کے علاوہ مسلمانوں کے آپس کے رشتے کے بیان میں دو تعبیرات اور آئی ہیں: ’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحمت و محبت کے پتلے ہیں۔‘‘

نیز یہ کہ ’’مسلمان مسلمانوں کے لیے نرم ہوتے ہیں۔‘‘ (المائدہ: 54)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روشنی میں ان آیات کی تفسیر کہی جاسکتی ہیں: ’’مسلمان ایک آدمی کی طرح ہوتے ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کا سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کا سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘ نیز یہ کہ ’’تم مسلمانوں کو دیکھو گے کہ وہ آپس میں رحمت و محبت اور دوستی اور لگائو میں ایک جسم کی مانند ہوتے ہیںکہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘

یقینا جو معاشرہ اخوت اور محبت کے اس رشتے میں بندھا ہوا ہو اْس کے افراد کبھی اجنبیت اور غیریت کے عذاب میں مبتلا نہیں ہوسکتے اور اس کے یہاں سے بے رحمی اور بے مروتی کے شکوے کی آواز نہیں آسکتی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں