پہلی جنگ عظیم میں الجھے ہوئے برطانیہ کو انہی دنوں ایک اور محاذ پر لڑنا پڑا۔ یہ جنگ تھی عوامی عہدوں پر چناؤ میں حصہ، یعنی ووٹ کاسٹ کرنے کا بنیادی اور قانونی حق حاصل کرنے کی۔ دراصل یہ وہ زمانہ تھا جب برطانوی خواتین ووٹ دینے کے حق سے محروم تھیں۔ برطانوی معاشرے میں یہ تصور کیا جاتاتھا کہ عورتیں جذباتی اور غیر ذمہ دار ہوتی ہیں اور عوامی عہدوں پر انتخاب میں انتخاب میں ان کی رائے نہیں لینا چاہیے۔اس کے خلاف ایک تحریک کا آغاز ہوا جو پرتشدد ثابت ہوئی، مگر اسی تحریک کی بدولت ۱۹۱۸ میں ایک قانون تشکیل دیا گیا اور تیس برس سے زائد عمر کی خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے کا مشروط حق ملا۔ اس کے دس برس بعد ۱۹۲۸ میں برطانوی خواتین کو مردوں کی طرح ووٹ کاسٹ کرنے کا حق بھی حاصل ہوگیا۔ اسی تحریک کا ایک روشن نام ایمیلائن پنکھرسٹ ہے جو اس جدوجہد میں آگے رہیں اور طرح طرح کے مصائب اور سختیوں کا سامنا کیا۔
۱۵؍ جولائی ۱۸۵۸ کو برطانیہ میں جنم لینے والی ایمیلائن پنکھرسٹ کے والد ایک کام یاب بزنس مین تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں کبھی مالی مسائل اور مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایمیلائن پنکھرسٹ کی فکری اور نظریاتی تربیت یوں ہوئی کہ ان کے والدین باشعور اور روشن خیال تھے۔ والد عورتوں کے حقوق کے حامی اور ان کی والدہ حقوق نسواں کی جدوجہد میں پیش پیش رہتی تھیں۔ ایمیلائن کی عمر چودہ سال تھی جب وہ ووٹ کے ھق سے متعلق خواتین کے ایک تنظیمی اجلاس میں اپنی والدہ کے ساتھ موجود تھیں۔ اس مجلس نے ان میں شعور و آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ایک ایسا جوش اور ولولہ پیدا کردیا جس نے انھیں اس حوالے سے عملی طور پر متحرک ہونے پر آمادہ کیا۔ پنکھرسٹ ایک ذہین بچی تھی۔ وہ کم عمری میں مطالعے کی عادی ہوگئیں، لیکن اس زمانے میں بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ لڑکیوں کو ایسے اداروں میں بھیجا جاتا تھا جہاں انھیں صرف امورِ خانہ داری اور ایسے ہنر سکھائے جاتے تھے جن کے بعد وہ صرف اچھی بیوی اور ماں کہلا سکتی تھیں۔ تاہم پنکھرسٹ نے اپنے والدین کو قائل کیا کہ وہ انھیں وومن اسکول پیرس میں پڑھائیں۔ ان کی یہ خواہش پوری ہوئی اور وہ پانچ برس بعد وہاں سے تعلیم مکمل کر کے برطانیہ لوٹ آئیں۔
۱۸۷۹ میں ان کی شادی رچرڈ پنکھرسٹ سے ہوگئی جو پیشے کے لھاظ سے وکیل ت ھے۔ وہ خ واتین کے حقوق کے علم بردار کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے اور انہی کی ایک قانونی تخلیقی کے تحت ۱۸۷۰ اور ۱۸۸۲ میں عورتوں کو اپنی کمائی اور اپنی جائیداد شادی سے قبل اور شادی کے بعد بھی اپنے پاس رکھنے کا اختیار ملا تھا۔ ۱۸۸۹ میں رچرڈ زندگی کی بازی ہار گئے۔ ان کے بعد ایمیلائن نے اپنی تمام توانائیاں عورتوں کے ھوالے سے فکری اور عملی جدوجہد پر مرکوز کردیں۔
۱۸۸۹ میں انھوں نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کے پلیٹ فارم سے شادی شدہ کواتین کے علاقائی الیکشن میں حق رائے دہی کے حصول کی جدوجہد شروع کی۔ ۱۹۰۳ میں ایک اور تنظیم وجود میں آئی جسے خاصی شہرت اور توجہ ملی۔ اس تنظیم کے کارکن عملی سرگرمیوں پر یقین رکھتے تھے اور اپنے حقوق کے لیے ہر قسم کی جنگ کے لیے تیار رہتے تھے۔ یہ ووٹ کاسٹ کرنے کے حق کے لیے میدان میں اترے اور اس کے کارکنان کو سب سے پہلے سفراگیٹ کا نام دیا گیا۔ ایمیلائن کی دونوں بیٹیاں بھی اپنی والدہ کے ساتھ اس کے لیے سرگرم رہیں۔ برطانوی سیاست داں، عوام اور پریس خواتین کے احتجاجی مظاہروں، بھوک ہڑتال اور حق کے لیے ان کے جنون کو دیکھ کر حیران تھے۔ ۱۹۱۳ میں ڈربی میں اس تنظیم کی ایک کارکن احتجاج کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ حکومت خواتین کے ان احتجاجی اور پرتشدد مظاہروں کو روکنے میں مسلسل ناکام ہو رہی تھی۔ گرفتاریاں اور سزائیں بھی ان عورتوں کو گھروں میں جانے پر مجبور نہ کرسکیں۔
پنکھرسٹ کو متعدد بار گرفتار کیا گیا۔ ایک موقع پر جب وہ جیل میں بھوک ہڑتال پر تھیں تو حکومت کی جانب سے انہیں جبراً اس سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن جب کارکنوں کو اس کی خبر ہوئی تو سبھی بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے اور یوں حکومت پر دباؤ بڑھ گیا۔ ابھی عورتوں کے حق کی یہ لڑائی جاری تھی کہ دنیا دوسری جنگ عظیم میں الجھ گئی۔ اس موقع پر ایک راہ نما کی حیثیت سے ایمیلائن نے اپنی قوم کی خاطر حکومت سے تعاون کا راستہ اپنایا۔ بالآخر ایمیلائن اور دیگر خواتین کی جدوجہد رنگ لائی اور ۱۹۱۸ میں حکومت نے تین سال سے بڑی عمر کی عورتوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دے دیا۔ انسانی حقوق اور عورتوں کے بنیادی حق کے لیے لڑنے والی یہ عظیم خاتون ۱۴ جون ۱۹۲۸ کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئی، لیکن اس کا نام برطانوی سماج اور دنیا کی تاریخ میں اب بھی زندہ ہے۔ ایمیلائن کے دنیا سے جانے کے کچھ عرصے بعد ہی عمر کی قید بھی ختم کردی گئی اور عورتوں کو بھی مردوں کی طرح غیر مشروط حق رائے دہی حاصل ہوگیا۔