ایک شمع جلانی ہے! (قسط ــ 13)

سمیہ تحریم امتیاز احمد

ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو

صاف گوئی میں ہے رسوائی بہت

’’ہمارا اللہ ہمیں ساری زندگی موقع دیتا رہتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی ساری کی ساری خود ہی ایک موقع ہے، ہر عطاء ہونے والا دن اور میسر ہونے والا لمحہ موقع ہے۔ جو غلطیاں تم نے کیں، انھیں کسی اور کو نہ کرنے دو، کوئی تو رُکے گا، کوئی تو سوچے گا، لمحہ بھر کے لیے تو سوچے گا اور وہی تمہارا Second chance ہوگا اور ہر گزرے وقت کا The best second chance آنے والا وقت ہوتا ہے اور عورت کے لیے تو اللہ نے اولاد کی شکل میں اسے ایک بہترین موقع دے رکھا ہے، قدرت نے تمہیں بیٹی کی صورت میں ایک بہترین دوسرا موقع دیا ہے۔‘‘

رحمیٰ باجی کی باتیں اس کے دل و دماغ میں کہیں ثبت سی ہوگئی تھیں۔ اُن کے الفاظ کی باز گشت غافرہ کو سنائی تو دیتی رہتی لیکن وہ سمجھ نہیں پار ہی تھی کہ اس ننھی سی چار سالہ بچی کو وہ کیا بتائے، کیا سکھائے اور کیا سمجھائے؟ اب وہ اُسے معاشرتی مسائل، شادی بیاہ، صبر، برداشت، لڑائی جھگڑا، آج کا ماحول یہ سب کچھ تو نہیں سمجھا سکتی تھی نا…!

’’بابا… ممّا مجھے بہت ’’ڈانٹی‘‘ دینے لگی ہیں جب آپ گھر پر نہیں ہوتے تب ۔۔۔ او رکچھ کھیلنے نہیں دیتیں۔‘‘ اِس پر غافرہ نے اسے گھو رکر دیکھا تھا لیکن بابا کے سامنے وہ اپنی مما کو خاطر میں ہی نہیں لاتی تھی۔ بیٹیوں والی عادت نہ ہی میاؤں میاؤں کے پاس بیٹھنے دیتی ہیں اور نہ ہی ہماری ’’دوشت‘‘ ایمی کے ساتھ کھیلنے دے رہی ہیں۔‘‘ اتوار کے دن ناشتہ کی ٹیبل پر اپنے بابا سے لاڈ اٹھاتے اٹھاتے اس نے شکایتوں کا پٹارا ابتسام کے سامنے کھول دیا۔

’’کیوں غافرہ… ہماری بیٹی یہ کیا کہہ رہی ہے تم اسے اس کی ’’دوشت‘‘ کے ساتھ کیوں نہیں کھیلنے دے رہی ہو؟‘‘ ابتسام نے مصنوعی خفگی سے غافرہ کو دیکھا تو غافرہ سے پہلے ہی ماویہ شروع ہوگئی۔

’’بابا، بابا… ہم بتاؤ کیا… وہ ایمی نا ایسے ایسے ڈانس کر رہی تھی اور ہمیں بھی کرنے کے لیے کہہ رہی تھی تو مما نے دیکھ لیا اور ڈانٹی بھی دی اور اسی وقت سے ایمی کے ساتھ کھیلنے بھی نہیں دے رہی ہیں۔‘‘ ماویہ نے جھٹ سے ابتسام کی گود سے اتر کر وہ ڈانس کر کے دیکھا بھی دیا جو پڑوس کی ہم عمر لڑکی ایمن نے اسے بتایا تھا… ابتسام کسی بھی طرح اپنی ہنسی روک نہ پایا…

’’بابا… اور بہت پڑھائی اور بہت اللہ اللہ پڑھو بھی کہتی ہے… مما بہت بورنگ ہیں۔‘‘ ماویہ قاعدہ اور نماز کو اللہ اللہ کہتی تھی۔

’’ہاں … وہ تو ہے مما بہت بورنگ ہیں۔‘‘ ابتسام نے غافرہ کو آتے دیکھ کر شرارتی انداز میں کہا تو وہ اسے بس گھور کر رہ گئی… اب ماویہ ابتسام کا موبائل اٹھائے مگن سی ایک کونے میں جا بیٹھی۔ آج کل کے بچے … ان کے لیے androideفون ماں کی گود جیسے بن گئے ہیں۔ جس کے بنا چین نہ ملے، جسے دیکھ کر وہ کھاتے ہیں، سوتے ہیں اور جاگتے ہیں۔

’’کیا بات ہے، بیٹی تو بڑی شکایتیں کر رہی ہے اپنی مما کی…‘‘ ابتسام نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے اسے چھیڑا۔

’’ابتسام۔۔۔ آپ زیادہ لاڈ پیار میں اُسے بگاڑیے مت، آج کل کے اس ماحول میں بچوں کی تربیت، انھیں صحیح غلط بتانا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔‘‘ غافرہ نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔ وہ ان دنوں کافی الجھی الجھی رہنے لگی تھی، پہلے کبھی اس نے اتنی گہرائی میں، سنجیدگی سے کچھ سوچا نہ تھا اور اب جب سوچنے لگی تھی تو اس کا دل ہول رہا تھا۔

’’تو تم کیا سمجھتی ہو کہ تم سختی کر کے، زبردستی کر کے، اس کی اچھی تربیت کر لوگی…؟ وہ ضدی ہوجائے گی، ہر بات میں تمہارے against جانا شروع کر دے گی۔ ابھی تو وہ چھوٹی ہے، چند ماہ بعد اسکول جانے لگے گی، وہاں زمانے بھر کے ماں باپ کے لاڈلے Pampered children آتے ہیں، ان کے مقابلے میں اگر وہ تمہیں ظالم سمجھنے لگی تو …؟ تمہاری کوئی صحیح بات بھی وہ نہ سمجھ پائے گی اور ہ ہی ماننا چاہیے گی…‘‘ ابتسام نے حقیقت بیان کی تھی جسے وہ سمجھ بھی رہی تھی لیکن…

’’تم صحیح کہتی ہو کہ آج کے دور میں تربیت کرنا ایک چیلنج ہے لیکن تم خود بھی ایجوکیٹیڈ ہو اور وہ بچی ہے، ذرا پیار سے، محبت سے اسے سمجھایا کرو۔‘‘ ابتسام کی بات پر وہ پھیکا سا مسکرا دی۔

’’اوکے باس… اچھا بتائیے دوپہر میں کیا کھائیں گے آپ۔۔۔‘‘ غافرہ نے چائے کے کپ اٹھاتے ہوئے بشاشت سے پوچھا تو ابتسام بھی مسکرا دیا۔

’’کچھ نہیں… تم بس اپنے کام ختم کر کے تیار ہوجاؤ… پہلے ہم باہر جاتے ہیں وہاں ماوی کافی انجوائے کرتی ہے، کھیلنے کے لیے بھی بہت کچھ ہوتا ہے وہاں… تمہیں بھی کچھ خریدنا ہوتو لے لینا… دوپہر میں مجھے ایک کلائنٹ سے ملنے جانا ہے ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کا کام ہے میں تمہیں تمہاری امی کی طرف ڈراپ کردوں گا۔ واپسی میں Zoo چلے جائیں گے اور کہیں کھانا بھی کھالیں گے… کیوں ٹھیک ہے نا…؟‘‘ ابتسام نے سب کچھ پلان کر رکھا تھا اور غافرہ کو کیا اعتراض تھا… ایک ہی دن تو ملتا تھا مشکلوں سے جس میں آج کیا پکاؤں، والی مشکل سے چھٹکارہ ملتا۔

’’بابا… بابا ہم مول (مال) جا رہے ہیں، اور گوڈن (گارڈن) بھی…‘‘ چھوٹی کے کان جھٹ کھڑے ہوگئے تھے، موبائل بھول بھال کر بھاگتی ہوئی آگئی…

’’بالکل … وہاں خوب کھیلیں گے اور گوڈن میں بہت سارے جانور animals اور برڈس ہوتے ہیں وہ بھی دیکھیں گے اور …‘‘ اب دونوں کی باتیں شروع ہوگئی تھیں۔ non specific باتیں … جب کہ غافرہ دونوں کو دیکھ کر مسکرا دی اور کچھ سوچتے ہوئے تیار ہونے چلی گئی۔

٭٭

ادا تری کمال تھی، ورق ورق بکھر گیا

کہانی کی سطور میں ترا ہی ذکر چھا گیا

مال سے نکلتے نکلتے انھیں چار بج گئے تھے۔

’’بس ایک ڈیڑھ گھنٹے کا ہی کام ہے، میں آنٹی کی طرف چھوڑ دیتا ہوںتمہیں، واپسی میں لے لوں گا۔‘‘ گاڑی پارکنگ سے نکالتے ہوئے ابتسام نے کہا۔

’’مجھے نا آپ رحمیٰ باجی کے ہوسٹل میں چھوڑ دیں، یہیں قریب میں ہی ہے وہ النساء ہوسٹل… ان سے ملاقات ہوجائے گی، واپسی میں وہیں سے لے لیجئے گا۔

’’النساء ہوسٹل… واہ یہ تو اور بھی اچھا ہے، راستہ میں ہی پڑتا ہے، مجھے آسانی ہوجائے گی۔‘‘ ابتسام نے ماویہ کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا جو مگن سے انداز میں آدھی آئس کریم کھا رہی تھی اور آدھی گرا رہی تھی جب کہ غافرہ مسلسل اُسے سلیقہ سے کھانے اور نہ گرانے کی تاکید کر رہی تھی جسے ماویہ مسلسل نظر انداز کر رہی تھی۔

’’آنے سے پہلے میں کال کر دوں گا، تم گیٹ پر آجانا…‘‘ ہوسٹل کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے ابتسام نے کہا تو وہ بھی اثبات میں سر ہلاتی ہوئی ماویہ کو لے کر گاڑی سے اتر گئی۔

ہوسٹل کے گیٹ سے مین بلڈنگ تک کا فاصلہ قریباً سومیٹر تھا جہاں مختلف پھول، پودے لگے تھے۔ دو گھنے سے گل مہر اور ایک بڑا سا برگد کا بوڑھا درخت تھا، جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہو جاتا تھا کہ تعمیر کے دوران اسے کاٹنے کے بجائے احاطہ میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ کچھ لڑکیاں کرسی ڈالے گروپس میں بیٹھی تھیں اور کچھ موبائل پر مصروف تھیں۔ ایک گہما گہمی سی لگ رہی تھی… رحمی باجی ہوسٹل کی عمارت کے دروازہ پر ہی کھڑی صاف صفائی کر وا رہی تھیں، اچانک غافرہ کو دیکھ کر اُنہیں خوش گوار سی حیرانی ہوئی۔

’’السلام علیکم… کیا زبردست سر پرائز ہے غافرہ‘‘ آگے بڑھ کر رحمیٰ نے بڑی گرم جوشی سے اسے گلے لگایا۔

’’کیسے آنا ہوا؟‘‘ ماویہ کو لاڈ کرتے ہوئے رحمیٰ نے پوچھا:

’’بس سوچا آپ سے ملاقات کرلوں…‘‘ غافرہ نے بھی خوش گوار انداز میں جواب دیا۔

’’چلو بہت اچھا کیا… یوں کرو یہ سامنے والا روم میرا ہے، زینب آپا ہیں وہیں تم بیٹھو میں تھوڑا کام ختم کراکے آتی ہوں۔‘‘ رحمیٰ نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو ہ گردن ہلاتی ہوئی مسکرا دی…

’’جی … ٹھیک ہے…‘‘

’’اور سنو… تم آرام سے جاؤ، اطمینان سے بیٹھو اور زینب آپا سے بات کرو… مجھے پتہ تھا تم آؤگی، میں نے ان سے تمہارا ذکر کر رکھا ہے۔‘‘ رحمیٰ نے اس کے کان میں سرگوشی کی تو وہ ساکت سی رہ گئی۔

’’آپ کیا جانیں کہ میں کیوں آئی ہوں؟‘‘ اس نے مدھم لہجے میں کہا۔

’’میں جانتی ہوں کہ تم اپنے Second chance کو بڑی شدت سے اچھے طرح سے استعمال کرنا چاہتی ہو اور یہ ایک سفر ہوتا ہے، جس میں بندہ کو ایک راہ نما کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ انھوں نے مسکراتے ہوئے نرمی سے کہا… او رکیا کہا تھا وہ کچھ سمجھی اور کچھ نہیں سمجھی… رحمیٰ کی ہر بات کے پیچھے گہرائی ہوتی تھی اور وہ فی الحال ذہنی طور پر اتنی الجھن کا شکار تھی کہ زیادہ سوچ نہیں پائی۔ اس ایک ماہ میں بچوں کی تربیت پر مشتمل اُس نے اسلامک اسکالرس کی کئی کتابیں پڑھ ڈالی تھیں، اسلامک لائبریری سے ایشو کروا کر، انٹرنیٹ پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر… لیکن عملی طور پر ان چیزوں کو کس طرح استعمال کیا جائے کس طرح عمل کیا جائے وہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی۔ آج کل کے بچے سو پر فاسٹ اور آج کل کا ماحول سوپر خطرناک ہوگیا ہے نا!

زینت آپا سے اس کی پہلی ملاقات بس ایک ملاقات ہی رہی… وہ چاہ کر بھی بے تکلفی کی دیوار نہ گرا پائی اور نہ ہی اپنی الجھن بیان کر پائی… بس عام سی روٹین کی باتیں ہوتی رہیں کچھ حالات حاضرہ پر تبصرہ… تو کچھ بدلتے رجحانات اور نظریات کی باتیں، کچھ پرانے وقتوں کے قصے تو کچھ عورتوں کے مسائل … نمبروں کا تبادلہ … بس یونہی عام سی ملاقات، لیکن اس بہت ہی عام سی ملاقات میں بہت ہی خلوص تھا ان کا خلوص… وہ محبت بھرا انداز جس نے غافرہ کو حیران کر دیا تھا۔ کچھ لوگ محبتوں سے کس قدر پر ہوتے ہیں، اس نے سوچا۔ اس ایک عام سی ملاقات کے بعد غافرہ نے پایا کہ وہ ایک ذہین اور معاملہ فہم لیڈی ہے۔ لوگوں کے اور ہوسٹل کی لڑکیوں کے مختلف مسائل وہ ڈسکس کرتی رہتی۔ غافرہ کو ان کا مسائل کو حل کرنے کا نرم سا سلجھا سلجھا سا انداز اور نہایت خوب صورت اپروچ بڑا پسند آتا۔ وہ ہر بار حیران سی رہ جاتی کہ اس حدیث کو اِس آیت کو اس نے اس انداز میں کبھی کیوں نہیں سمجھا جیسا زینب آپا نے بتایا ہے۔

دھیرے دھیرے تکلف کی دیوار جو غافرہ محسوس کرتی تھی وہ دھوئیں کی طرح اڑ گئی اور ایک روز چھٹی کے دن وہ پھر ہوسٹل پہنچ گئی اُن سے ملاقات کرنے، اپنی الجھن کو سلجھانے۔ ماویہ کو وہ ابتسام کے پاس چھوڑ آئی تھی۔ وہ اب اور وقت نہیں گنوانا چاہتی تھی کہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ یہ قدرت کا عطا کردہ موقع اس کی غفلت کی بنا پر اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں