ایک شمع جلانی ہے! (قسط-25)

ڈاکٹر سمیہ تحریم امتیاز احمد

شعلوں میں جو کھلتا ہے کانٹوں میں جو پلتا ہے

اک پھول وہی گلشن کی تاریخ بدلتا ہے

غافرہ پر یہ نئی مصروفیت ایک عجیب انداز میں اثر انداز ہوئی تھی۔ وہ پوسٹ میرج کونسلنگ کرنے لگی تو اسے اندازہ ہوا کہ لوگ کس طرح اپنی زندگیوں میں پریشان ہیں، اداس اور دکھی ہیں، ڈپریشن کا شکار ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ مسئلے بہت بڑے بڑے ہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی معمولی باتوں نے دلوں سے محبت دور کردی تھی اور وہ زندگی سے اکتائے بیٹھے تھے۔

کہیں ساس کی بے جا مداخلت سے ماحول خراب تھا تو کہیں بہو کی ہٹ دھرمی کا رونا تھا، کہیں نندیں بھائی بھابی کے بیچ دیوار تھیں تو کہیں جیٹھ جیٹھائی، دیور دیورانی نامی رشتوں کا مسئلہ تھا۔ ایک عجیب سی دنیا تھی گھروں کے اندر جیسے کسی جادوگر نے کالا جادو کر رکھا ہو یا کسی کی بد دعا کا سایہ ہو۔ معمولی معمولی باتوں نے زندگی کو زہر بنا رکھا تھا اور غافرہ کبھی کبھی حیران ہو جاتی تھی کہ کیسی کیسی معمولی باتیں تعلقات کو ختم کرنے کی ڈگر پر لے آتی ہیں۔

’’کیا یہ وہی امت ہے جو امتِ وسط ہے؟ جسے دنیا میں بڑے برے کام کرنے ہیں جنہیں دنیا میں امن و امان پھیلانا ہے اور راہ راست سے بھٹکوں کو روشنی فراہم کر کے درست راستہ دکھانا ہے۔ لیکن یہ امت تو خود اپنے اندر سکون اور اپنے گھروں میں امن رکھنے میں ناکام ہے۔ کیسی کیسی خرافات اور کیسی کیسی معمولی اور جہالت پر مبنی چیزوں اور باتوں نے ہمارے گھروں کا سکون لوٹ لیا ہے۔ اور تب غافرہ نے جانا کہ لوگ کس طرح اپنی عائلی زندگی میں صم بکم کی مثال بن جاتے ہیں، کس طرح ان کے دلوں پر مہر اور آنکھوں پرپردہ پڑ جاتا ہے۔ وہ کچھ سوچنے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے کیسے انا کا اندھا رشتوں کو نگل جاتا ہے اور کیسے وہ محبت جو اللہ کی رحمت ہے گھروں سے اٹھالی جاتی ہے۔

وہ یحییٰ اور ماویہ کے لیے پہلے سے زیادہ حساس اور پہلے سے زیادہ خیال رکھنے والی ہوگئی تھی۔ بچوں کے سلسلے میں نئی فکروں، نئے وسوسوں اور نئے واہموں نے دل میں جبہ بنالی تھی۔ وہ یہی سوچتی رہی کہ بچوں کو کیسے دین پر قائم رکھتے ہوئے زندگی کی دوڑ میں شامل کیا جائے۔ اچھے سے سمجھ لی تھی کہ نیکی کی توفیق اور حق پر ثابت قدمی اور اچھے نصیب کی دعا صرف بیٹیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بیٹوں کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔

وہ اب کئی محاذوں پر ایک ساتھ کام کر رہی تھی… بچوں کی تربیت میں جہاں وہ پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہوگئی تھی وہیں اس نے قرآن و حدیث کا مطالعہ بھی مزید گہرائی سے کرنا شروع کر دیا تھا تاکہ اپنی دلیلوں میں قرآن و حدیث کی فکر اور طاقت کو سمو سکے۔ میری میرج کونسلنگ پروگرام کے لیے رحمیٰ کی مدد سے اس نے لڑکیوں کی ایک ٹیم بنائی تھی جو اس کی مدد کر رہی تھی۔

اور ان تمام کاموں کے درمیان غافرہ کو احساس ہوا کہ ایک عورت کیا کچھ کرسکتی ہے۔ وہ اتنی کمزور تو ہوتی ہی نہیں ہے جتنی اس نے خود کو بنا لیا ہے۔ اگ روہ اتنی کمزور ہوتی تو کبھی Labour (حمل) جیسے بے انتہا درد دینے والے عمل سے نبرد آزما نہیں ہوپاتی مگر وہ یہ کام کرتی ہے۔ وہ اس درد سے گزرتی ہے اور ایک نئی زندگی کو جنم دیتی ہے، اور اس عمل سے وہ کچھ سیکھتی نہیں! اس نے یہ بات کیوں نہیں سمجھ کر ایک نئی زندگی کی شروعات کے لیے درد تو اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ تکلیف تو جھیلنی ہی ہوتی ہے۔ اور تبھی کامیابی ملتی ہے اور نعمتیں بھی عطا ہوتی ہیں۔ اور اگر کسی نے کہا ہے کہ انقلاب عورتیں ہی لاسکتی ہیں تو سچ ہی کہا ہے کہ یہ نسلوں کی بنیاد رکھتی ہے، اور جو اتنا بلند کام کرتی ہے اس عورت کو نہ تو کمزور ہونا چاہیے اور نہ ہی جاہل اور ناسمجھ اور نہ ہی اتنی احمق کہ اپنی تمام تر طاقت، توانائی اور صلاحیت کو گھریلو سیاستوں میں لگا دے، خاندان کے افراد کے درمیان جوڑ توڑ اور رشتوں ناطوں کو اٹھانے اور پٹخنے میں اپنا وقت اور صلاحیت برباد کرے۔ بلکہ انہیں تو اپنی تمام تر توانائی کو اپنی پوری طاقت اور ساری صلاحیتیں نئی نسل کی بہترین تعمیر اور تعلیم و تربیت کے لیے کام م یں لانا چاہیے اور انہیں ایسا ہی کرنا ہوگا۔ اور نہ پھر ہمارا حال ا سے بھی بدتر ہوجائے گا جتنا ابھی ہے اور غافرہ نے اپنی انھیں سوچوں اور اس احساس کو لفظوں میں ڈھال کر، لوگوں کو ان کے لیول پر جاکر سمجھانا شروع کردیا تھا۔

٭٭

تو بچا بچا کے نہ رکھ اِسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ

جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

بالآخر وہ دن آگیا تھا جس کی تیاری پچھلے ایک عرصہ سے غافرہ کر رہی تھی۔ انھوں نے ایک ہال بک کیا تھا جو کافی کشادہ اور کھلا کھلا تھا۔ ہال کی دیواروں پر کچھ بولتی تصاویر لگی تھیں، کہیں احادیث تو کہیں Qaates۔ اسٹیج نہایت سادگی سے سجا تھا اور اس پر صرف ڈائس رکھا تھا اور پیچھے ایک اسکرین تھی جس پر دعبارتیں لکھی تھیں ’’میرے خواب میرے جگنو‘‘ … اور ’’میرے خواب ریزہ ریزہ‘‘۔

یہ دونوں عنوان غافرہ نے کچھ سوچ کر رکھے تھے دونوں ہی نام کسی ناول کے تھے اور غافرہ کو بڑے پرکشش لگے تھے۔ رحمیٰ نے اپنا وعدہ نبھایا تھا۔ ایک بڑی تعداد رحمیٰ کے توسط سے آئی تھی اور باقی کچھ بڑی پھوپھی کی کوششوں اور سوشل میڈیا پر تشہیر سے آئی تھی۔ دھیرے دھیرے ہال بھرنے لگا تھا۔

قرآن کی تلاوت کے بعد رحمیٰ کی تعارفی تقریر تھی، جس میں انھوں نے میرج کونسلنگ کی اہمیت بتائی گئی تھی اور ایسا نہ ہونے کے چند معاشی و سماجی منفی اثرات کا ذکر کیا تھا۔ اپنی ابتدائی گفتگو میں انھوںنے سماج میں بڑھتی طلاق کی شرح کے اعداو و شمار بھی پیش کیے تھے اور ساتھ ہی بتایا تھا کہ اگر سماج میں شادی شدہ جوڑوں کی کونسلنگ کا انتظام ہو تو نوے فیصد طلاقوں کو روکا جاسکتا ہے اور اب غافرہ کی باری تھی۔ اور غافرہ تھی کہ ماضی میںکہیں کھوئی ہوئی تھی، اسے اپنی نادانیاں یاد آرہی تھیں، وہ دور یاد آرہا تھا جب اس کا اور ابتسام کا رشتہ ٹوٹنے کے قریب آگیا تھا۔ پھر وہ عزم کہ وہ اپنی بیٹی کی صورت میں ایک ملنے والے Second Chance کا فائدہ اٹھائے گی اور پھر یہ اللہ کا انعام یا آزمائش، نعمت یا وسیلہ کہ وہ اسے اتنی زندگیوں میں ایک شمع جلانے کا موقع مل رہا تھا۔

اپنا نام پکارے جانے پر وہ قدرے وقار کے ساتھ اسٹیج پر آئی۔ سورہ العصر کے ساتھ اپنی بات شروع کی۔ اس نے اس تقریر کے لیے بہت سارے نکات تیار کر رکھے تھے لیکن جب بولنا شروع کیا تو ہر لفظ دل سے نکلنے لگا اور الفاظ موتی بن کر بکھرنے لگے۔

’’میں نے اپنی اس پری میرج کونسلنگ کے لیے یہ دو عنوان رکھے تھے کہ ’’میرے خواب میرے جگنو‘‘ ہر لڑکی جب شعور کی منزلیں پار کرنے لگتی ہے تو خواب دیکھنے لگ جاتی ہے۔ ناولوں میں بیان کی جانے والی محبت اور فلموں میں دکھائی جانے والی محبت کے قصے ان کے خوابوں کا حاصل ہونے لگتے ہیں۔ وہ غیر مشروط محبت جو ہیرو ہیروئن سے کرتا ہے، وہ کہانیاں جن کا اختتام Happily everafter پر ہوتا ہے۔ اِن خوابوں کے جگنوؤں کو وہ ہتھیلیوں پر لگائے سسرال کی دہلیز پار کر جاتی ہے اور پھر یہاں سے ’’میرے خواب ریزہ ریزہ‘‘ والا فیز شروع ہوتا ہے۔ کیوں کہ انھیں لگتا ہے کہ ’محبت‘ نامی وہ چیز جو انھوں نے کبھی ناولوں میں پڑھی اور فلموں میں دیکھی تھی اور جو خوبیاں ان کے ہیرو میں پائی جاتی تھیں وہ تو ان کے ہم سفر، ان کے شوہر میں ہیں ہی نہیں۔ موجودہ دور کے میڈیا نے جہاں معیارِ زندگی کی حسرتوں کو بہت بڑھا دیا ہے وہیں محبت کے عجیب و غریب اور غیر حقیقی پیمانے سیٹ کر کے محبت کو لاحاصل بنا کر چھوڑ دیا ہے۔

جہاں تک میں نے جانا اور سمجھا ہے کہ جتنی بھی غلط فہمیاں، جھگڑے اور ناراضگی ہوتی ہے کہیں نہ کہیں اس کی وجہ اسی خیالی آئیڈیلز اور رشتوں سے ہونے والی غیر عملی اور غیر حقیقی اونچی اونچی ناقابل تکمیل توقعات میں ڈھونڈ لیا کریں۔ میں نے کہیں پڑھا یا سنا ہے کہ شادی کوئی فری ٹیبل نہیں اور اگر ہے بھی تو یہ وہ فری ٹیبل ہے جہاں ایک نہ ایک جن ضرور ہوتا ہے، کوئی تو ہوتا ہے منفی خیالات کے ساتھ، منفی رویہ لیے، ہمیں اس سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے حکمت سے، صبر سے سمجھ داری سے، اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب ہم اس جن کو فتح کرلیتے ہیں اور اگر نہ بھی کرسکے تو خودکو اتنا مضبوط بنا چکے ہوتے ہیں کہ اس قسم کی منفی چیزیں ہم پر اثر انداز نہیں ہوپاتیں اور زندگی کوئی پارٹنر سسٹم بھی نہیں کہ آپ نے ایک چیزدی اور اس کے بدلے اپنی ضرورت کی دوسری چیز وصول کرلی۔ جو لوگ پیار کے بدلے پیار بلکہ اور زیادہ پیار کی امیدیں سجاتے ہیں انہیں اکثر مایوسی ملتی ہے۔ زندگی کا عملی اور حقیقی نظام تو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم محبتیں بانٹتے رہیں چاہے بدلے میں کچھ ملے یا نہ ملے اور ضروری نہیں کہ محبت ہی ملے۔ یہاں تو نفرت بھی مل سکتی ہے۔ مگر ہمیں مھبت بانٹنا بند نہیں کرنا ہے بکہ ایسی صورت میں اور بڑھا دینا چاہیے۔ ‘‘ غافرہ اپنے مخصوص انداز میں کہہ رہی تھی اور سبھی خاموشی اور دلچسپی سے سن رہے تھے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں