ایک شمع جلانی ہے (نویں قسط)

سمیہ تحریم امتیاز احمد

اس کائناتِ ربط میں ہم مثلِ شمس و قمر ہیں

ایک رابطہ مسلسل ہے، ایک فاصلہ مسلسل ہے

خالہ امی مجھے اکثر تمہارے بارے میں بتاتی رہتی ہیں۔ بہت پریشان رہتی ہیں وہ تمہارے لیے… یہ اس کے لیے انکشاف تھا ’’پھر تم نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ شاید خالہ دادی اسے یہ بھی بتا چکی تھی کہ معاملہ سنگین ہوچکا ہے اور ان کا رشتہ آخری سانس لے رہا ہے، جب کہ مفاہمت کی کوششیں عروج پر ہیں!‘‘ ہلکی پھلکی باتیں کرتے کرتے رحمیٰ نے اتنے اچانک یہ ذکر چھیڑ دیا تھا کہ وہ چند لمحے کے لیے خاموش ہوگئی… اس کے زخموں کو چھیڑا گیا تھا لیکن وہ بے خبر تھی کہ رحمیٰ نے خود اپنے زخموں کو چھیڑا ہے… وہ علیم سب باتوں کا علم رکھنے والا جب کسی کا دکھ اس پر کھولنے جا رہا تھا تو یہ وہ روشنی تھی جو اسے ملنی تھی۔ یہ مدد تھی جو وہ کر رہا تھا اور اب وقت کو یہ بھی دیکھنا تھا کہ اس روشنی سے وہ اپنے اندھیرے دور کرتی بھی ہے یا نہیں اور وہ اس غیبی مدد کو سمجھ بھی پاتی ہے یا نہیں!!

’’بس دیکھیں کیا ہوتا ہے، البتہ خیر کرنے والا ہے…‘‘ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ مصیبت کا کسی سے بیان، مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ہے بالکل ایسے ہی غافرہ کا دل ہی نہ چاہا کہ وہ اس ذکر کو چھیڑے سو اس نے رحمیٰ کی بات ٹالنے کی خاطر کہا…

’’ہاں… اللہ خیر کرنے ہی والا ہے… مگر جب بندہ خود ہی اپنے لیے خیر نہ چاہے تو …! اللہ کسی کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود ہی اس کے لیے کوشش نہ کرے۔ غافرہ! تمہیں خود کوشش کرنی ہوگی، آس پاس کے لوگوں کو نہیں … اپنی روشنی خود تلاش کرو… دوسروں کی روشنی کے سہارے زندگی نہیں گزرتی اور اگر تم انھیں یہ ذمہ داری دوگی کہ وہ تمہارے لیے روشنی ڈھونڈیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا گھر جل جائے، رشتہ دھواں دھواں ہو جائے اور یہ روشنی تمہیں ملے بھی نا۔‘‘ رحمیٰ کی باتوں اور اس کے انداز میں ایک عجیب دکھ تھا۔ غافرہ بس اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔

’’غافرہ… میری ایک بات مانوگی؟‘‘ رحمی نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا تھا اور غافرہ اسے حیران سی ہوکر دیکھنے لگی تھی۔

’’اپنے گھر واپس چلی جاؤ! بھلے ہی اس کے لیے تمہیں کوئی بھی شرط ماننی پڑے، اپنی عزت نفس کو بھول جانا پڑے، چاہے کچھ ہو مگر لوٹ جاؤ، ابھی بھی وقت تمہارے ہاتھ میں…‘‘ رحمی کی باتیں اس کے لیے غیر متوقع تھیں اور شاید کہیں اندر اُسے رحمیٰ کی یہ مداخلت اچھی نہیں لگ رہی تھی۔

’’رحمیٰ باجی… کچھ باتیں، کچھ چیزیں اور کچھ کام بہت مشکل ہوتے ہیں، بہت ہی مشکل۔ محض کہہ دینا اور کسی کو کسی بات پر کنوینس کرلینا آسان ہوتا ہے لیکن وہی کام خود کرنا اتنا ہی مشکل بھی… کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں کہ اس میں انسان ان دیکھی بے شمار زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے۔ ایک بہت پرانی، شاید بڑی گھسی پٹی سی بات ہے، کڑوی سی ہے لیکن اتنی ہی سچ بھی ہے کہ جب خود پر بیتتی ہے تبھی سمجھ میں آتی ہے… ‘‘ غافرہ نے آہستگی سے اپنے ہاتھ ان کی گرفت سے نکالے اور قدرے تلخی سے جواب دیا۔ لیکن اپنے جواب کے اختتام پر رحمی کی پھیکی سی، نم نم ہنسی نے اسے حیران کر دیا۔

’’ہم انسان بھی کیا عجیب مخلوق ہیں غافرہ! کسی کا مشورہ یا کسی کی کوئی بات ہماری سوچ سے الگ ہو تو ہم نخوت سے کہہ دیتے ہیں کہ تم نہیں جانتے، تم نہیں سمجھ سکتے، جس پر بیتے وہی جانتا ہے۔ ہاں یہ سچ ہے لیکن یہ بھی تو سچ ہے نا کہ اچھی بات اگر کوئی آپ کو بتائے تو پھر اس بتانے والے کو جانچنے مت بیٹھ جائیے، بس مان لیجئے… پھر لیکن نہیں…!! پھر ہم اللہ سے مدد کی دعائیں کرتے ہیں، تو کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ زمین پر خود آکر ہمارے مسائل حل کرے گا…؟؟نہیں … اللہ وسیلہ بناتا ہے… یہ ایک حق بات ہے کہ وہ سیدھا راستہ ہمارے سامنے لے کر آتا ہے۔ وہ حالات کو اور لوگوں کو وسیلہ بناتا ہے مگر بجائے اس کے کہ ہم اس حق بات کو سمجھ کر اس راستہ پر قدم بڑھائیں ہم وسیلوں کی جانچ کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور خود اپنے ہاتھوں امکانات کو کھو کر آخر میں روتے اور شکوہ کرتے ہیں…‘‘ رحمیٰ نے بڑی تلخ باتیں بڑے دھیمے لہجے میں کہی تھیں۔ غافرہ تو ایک لفظ بھی نہ بول پائی… وہ بھی تو اللہ سے نہ جانے کب سے دعائیں مانگ رہی تھی تو کیا اب وہ ان کے جواب میں کسی معجزہ کی منتظر تھی؟ کسی Fairy mother کا انتظار کر رہی تھی جو جادوئی چھڑی گھما کر سب کچھ ٹھیک کردے؟؟ رحمی کی باتوں نے دھندلے آئینوں پر جمی گرد کو ہٹایا تو وہ باتوں کو سمجھنے اور صحیح و غلط کو پرکھنے کی اپنی سی کوشش کرنے لگی… لیکن وہ رحمیٰ باجی! اس معاملہ میں اتنی حساسیت کیوں دکھا رہی ہیں؟ ایک سوال اچانک ذہن میں ابھرا… ایک دم توڑتی مزاحمت نے ترکش سے آخری تیر نکالا تھا، رحمیٰ نے شاید اس کے ذہن میں اُبھرنے والے اس سوال کو کسی ماہر نفسیات کی طرح پڑھ لیا تھا۔

’’غافرہ اپنا ماضی کسی کے سامنے کھولنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اپنے زخم کسی کو دکھانا یوں ہوتا ہے جیسے اُن پر نمک چھڑکاجا رہا ہے اور درد بڑھ جاتا ہے۔ لیکن آج تمہیں بتا رہی ہوں تاکہ تم وہ غلطی نہ دہراؤ۔ میں نے اپنے حصے کے سبھی دیے بجھا دیے ہیں مگر سوچتی ہوں تمہاری ایک شمع روشن کردوں۔ شاید تمہارے حصے کے جلتے دیے دیکھ کر مجھے ٹھنڈک ملے، میرے دل کا اندھیرا کچھ دور ہوجائے…‘‘ رحمیٰ نے ہلکی سی اداسی سے کہا تو غافرہ چونک سی گئی۔ رحمیٰ خلاء میں نظریں جمائے دھیمے لہجے میں کہنا شروع کیا…

’’یہ خالہ امی، میری امی کی سگی بہن ہیں… میری امی چھوٹی تھیں اور ان کی میں سب سے چھوٹی بیٹی… مجھ سے بڑا ایک بھائی اور ایک بہن تھی۔ گھر میں سبھی کے لاڈ و پیار نے مجھے بڑا ہونے ہی نہیں دیا۔ میں خودسر یا ضدی نہ تھی اور سچ کہوں تو کبھی ضد کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ الحمد للہ سب کچھ نعمتیں عطا کر رکھی تھیں اللہ نے۔ شادی سے پہلے کے دن ہی بے فکری اور موج و مستی سے بھرپور ہوتے ہیں اور بس۔

اِن سب کی محبتوں میں، میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی رہی لیکن کبھی کبھی بے جا محبتیں زہر بن جاتی ہیں۔ میں تم سے وہ سب کچھ نہیں کہوں گی کہ کس طرح میرا گھر ٹوٹا… شادی کے بعد کی زندگی اچھے سے گزر ہی جاتی اگر یہ سب ظالم حد سے بڑھی محبتیں زندگی میں دخل اندازی نہ کرتیں۔ کچھ تمہاری طرح ہی میری کہانی ہے۔ فرق اب صرف اتنا ہوگا کہ تم اللہ کے دیے گئے موقع سے فائدہ اٹھالو جب کہ میں نے ہر موقع گنوا کر اپنا گھر پوری طرح سے توڑ دیا ہے۔

میرے گھر والے بھی اس فریب میں تھے کہ ان کی بیٹی کو رشتوں کی کمی نہ ہوگی۔ ان کی بیٹی ان پر بھاری نہیں ہے … مگر اکثر والدین بھول جاتے ہیں کہ ان کی شادی شدہ بیٹی، جس کا گھر ایک بار ٹوٹ چکا اس کے لیے رشتوں کا معیار کیا ہوگا؟ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ بیٹیاں ماں باپ پر بھاری نہیں ہوتیں مگر بھائی، بہنوں پر بھاری ہو جاتی ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ہمیشہ کے لیے گھر آ بیٹھے…‘‘ رحمیٰ کی آواز کا درد اور آنکھوں میں آنسوؤں کی لکیر غافرہ کے دل کو عجیب انداز سے دکھا گئی۔ کیا وہ خود کو اس اسٹیج تک لے جانا چاہتی تھی؟

’’طلاق کے بعد بھی جو رشتہ آئے ان میں خوب سے خوب تر کی تلاش رہی، اور یہاں میں ڈپریشن، مایوسی اور خود ترسی کا شکار ہوتی رہی۔ دھیرے دھیرے وقت گزرتا گیا… پہلے امی میرا ساتھ چھوڑ کر چلی گئیں اور اس کے تقریباً ایک سال بعد ابا بھی چل بسے… والدین کے بعد جو رشتہ کسی لڑکی کو محبت، تحفظ، عزت اور توجہ دیتا ہے وہ اس کا شوہر ہی ہوتا ہے اور میرے پاس یہ رشتہ نہ تھا اور نہ اب ہے…

میں خاصی پڑھی لکھی ہوں۔ ایم اے کیا ہے، لیکن کچھ اس طرح ناکارہ سی ہوکر رہ گئی کہ اپنی تعلیم کا بھی استعمال نہ کرسکی۔ بھائی اچھا ہے، محبت کرتا ہے، میری حالت کا اندازہ ہے اسے، مگر بھابھی کا مزاج گرم ہو جاتا ہے۔ سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ وہ بھی اپنی جگہ درست ہے، اتنی مہنگائی کے دور میں میرے جیسے ناکارہ وجود کو آخری دم تک کون سنبھالے گا۔ خالہ امی کو سب پتہ تھا، بھیا کے حالات، بھابھی کا مزاج، سو وہ مجھے اپنے یہاں لے آئیں اور تب سے آج تک میں انہی کے پاس ہوں۔۔۔‘‘ رحمی کے دل کی دھڑکن جیسے کچھ لمحوں کے لیے رک سی گئی۔ اس کے اگلے جملوں نے غافرہ کو تڑپا دیا تھا۔ ایک درد تھا اس کے لفظوں میں۔۔۔ ایک ہولا دینے والی کیفیت بھی۔

’’غافرہ… میں رات میں اٹھ کر خالہ دادی کو دیکھتی رہتی ہوں۔ وہ تھوڑا سا سر درد کا بھی کہہ دیںمجھے، تو میرا دل ہول اٹھتا ہے، گھبرا جاتی ہوں میں… عجیب دھڑکا لگا رہتا ہے کہ خدا نخواستہ اگر انہیں کچھ ہوگیا تو پھر… میں کیا کروں گی…؟ یہ سوال مجھے پریشان کیے رکھتا ہے دن رات۔

سوچتی ہوں اگر آج سے کئی سال پہلے ایک بار، صرف ایک بار اپنے گھر کے لیے اپنی انا، اپنی عزت نفس اور ہٹ دھرمی کو بھول گئی ہوتی، ذرا سی جھک گئی ہوتی اور اپنی زندگی کا خود فیصلہ کیا ہوتا تو آج یوں خون کے آنسوؤں کے ساتھ ، بلا سائبان زندگی کی دھوپ میں جھلستے زندگی نہ گزارنی پڑتی۔ دوسروں کے رحم و کرم پر رہتے رہتے مجھ جیسی لڑکیاں عزت نفس کیا چیز ہے یہ بھول جاتی ہیں… اسے قربان کرنا ہی پڑتا ہے اور یہی حال عزت نفس کا ہے، ایسے موڑ پر بس ایک بار قربانی دے دی جائے تو پھر زندگی بھر یہ آپ کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘

رحمیٰ کے لفظ لفظ میں درد بول رہا تھا، اور غافرہ… غافرہ تو پتھر کا بت بن گئی تھی۔ وہ رحمیٰ کی شکل میں اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔ ایک جنگ تھی جو اس کے اندر چھڑ گئی تھی…‘‘

’’غافرہ… میں ایک بار پھر تم سے کہہ رہی ہوں اور اپنی بات دہرا رہی ہوں کہ ہر بات بھلا دو… پیچھے چھوڑ دو ماضی کو، مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے حال کا فائدہ اٹھاؤ، اللہ اپنے بندہ کو مواقع دیتا ہے غلطی کو درست کرنے کے لیے مگر اکثر بندہ انہیں گنوا بیٹھتا ہے اور جب غلطی کا خمیازہ بھگتتا ہے تو پھر شکوہ شکایت اسے گھیر لیتے ہیں۔‘‘ رحمیٰ نے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا تھا… دونوں ہی کی ہتھیلیاں بھیگی ہوتی تھیں۔

’’رحمیٰ باجی…‘‘ کچھ دیر خاموشی کے بعد غافرہ نے مدھم آواز میں پکارا!

’’میں چلی بھی جاؤں گی تو کیا اب ابتسام مجھے قبول کریں گے؟ مجھ سے پہلی سی محبت کریں گے؟ اور ان کے گھر والے…؟؟‘‘

اس نے اس خدشہ کو ظاہر کیا جو بڑی مضبوطی سے اس کے اندر قدم جمائے ہوئے بیٹھا تھا۔

’’غافرہ، اس درمیان کے عرصے نے جذبات پر برف جمادی ہوگی۔ دل بہت بدل گیا ہوگا، اور دل بدل ہی جاتے ہیں، بدلتے رہتے ہیں اس کی اسی خصوصیت کی وجہ سے اسے قلب کہتے ہیں۔ محبت فاتح عالم ہے۔ تم ایک قدم بڑھاؤ ، تم کوشش کرو، تم محبت کرو، عزت کرو، اور سب سے اہم صبر اور دعا کرو اللہ مدد کرے گا۔ تمہیں ایک مشکل مرحلے سے گزرنا ہوگا مگر یہ تمہاری بقیہ زندگی کو آسان بنا دے گا۔‘‘ رحمیٰ نے اسے سمجھایا۔

اور غافرہ کے سمجھ میں تو آہی رہا تھا لیکن کچھ الجھنیں تھیں جو اب بھی باقی تھیں، اور الجھن کیا تھیں بس وہی دکھ تھا جو ہر شادی شدہ لڑکی کو شادی کے بعد ایک عرصہ تک رہتا ہی ہے وہ جو خود ساختہ سا دکھ اور الجھن ہوتی ہے… اس کے اگلے سوال نے رحمیٰ کو چونکا دیا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں