ایک شمع جلانی ہے (چوتھی قسط)

سمیہ تحریم امتیاز احمد

عورت اپنی اولاد کو اپنا ایک طاقت ور ہتھیار سمجھتی ہے۔ نہایت مضبوط اور موثر ہتھیار۔ اکثر خواتین انہیں خود کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے لیے استعمال کر کے انہیں اپنا عکس بنانا چاہتی ہیں… جیسے اگر کسی عورت نے سسرال میں Suffer کیا ہے تو وہ اپنی بیٹی کو سسرال بنا کر اسے یہ سکھاتی ہے کہ شوہر کی غلام بن کر نہ رہا جائے، شوہر سے کس طرح برتاؤ کرے، شوہر کے گھر والوں کی خدمت اس کا شعبہ نہیں،کسی طرح دبنے کی نہیں بلکہ ڈٹنے کی ضرورت ہے اور کہیں وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور آزمائشوں کو اپنے بیٹے کی بیوی یعنی بہو پر Apply کرتی ہے یہ سوچ کر کہ ہم نے تو اِس سے زیادہ برداشت کیا ہے۔

یہ ایک نفسیاتی گرہ ہے آپ مانیں یا نہ مانیں۔ اس طرح کر کے وہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو کامیاب بنا رہی ہے اور کامیاب زندگی کے گر سکھا رہی ہے، جب کہ یہ ایک سنگین ترین غلطی ہوتی ہے جس کا اسے احساس تک نہیں ہو پاتا۔ اور فائقہ بیگم کو بھی کوئی انوکھی خاتون تھوڑے تھیں کہ اس بات کا احساس کرتیں۔

٭٭

تونے جس زہر سے بچنے کی ہدایت کی تھی

اپنے ہاتھوں سے وہی زہر پیا ہے میں نے

اور پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ غافرہ کی غفلت بڑھتی گئی۔ وہ چاہتی تھی کہ ابتسام صرف اور صرف اس کا ہوکر رہے، اسی کی مانے اور صرف اسی کی سنے۔ اس چاہت کو فائقہ بیگم نے نہ صرف ہوا دی بلکہ چاہت کو بغاوت بنا دیا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ابتسام سے بحث اور منہ پھلا لینا اس کی عادت بنتی جا رہی تھی۔ دراصل وہ خوابوں سے حقیقت میں نہیں آپا رہی تھی اور فائقہ بیگم کی باتیں اور نصیحتیں اسے مزید حقیقت سے دور کر رہی تھیں۔ غافرہ الجھن، مایوسی اور ڈپریشن میں مبتلا ہوہو جاتی…

دراصل فلموں اور ڈراموں نے محبت کرنے والے انسان کو ایک مافوق الفطرت ہستی بنا کر پیش کر رکھا ہے۔ وہ جو صرف ایک رشتہ نبھاتا ہے بس۔ اور اب غافرہ اِسے حقیقت میں دیکھنا چاہ رہی تھی اور وہ اسی کے لیے اپنے تئیں یا فائقہ بیگم کی نصیحتوں کی روشنی میں کوشش کرتی رہی تھی لیکن وہ یہ بھول رہی تھی کہ یہ کوششیں اس کے گھر کو کمزور کر رہی ہیں۔

مسئلہ اگر غافرہ کا ہی ہوتا تو بات کچھ سنبھل ہی جاتی کیوں کہ شادی سے پہلے لڑکیاں کتنی ہی آسمانوں کی سیر کرتی رہیں، خوابوں اور تخیلات کی دنیا میں اٹھلاتی رہیں شادی کے بعد ذمہ داریوں کا احساس انہیں بہت جلد حقیقت میں لے آتا ہے۔ خوابوں سے حقیقت کا ایک سفر کرنا پڑتا ہے، ہر لڑکی مشکل دور سے گزرتی ہے مگر پھر ہر مشکل تنگی کے ساتھ آسانی ہو جاتی ہے (بعد نہیں… ساتھ!) تو اِسی دوران جب وہ صبر و برداشت، حکمت و تحمل سے اس دور سے گزر جاتی ہے تو وہ اپنے شوہر اور اس کے گھر والوں کے دل میں اپنی قدر، اہمیت اور محبت پیدا کرتی چلی جاتی ہے اور پھر وہ نہ صرف اپنی زندگی میں سیٹل ہو جاتی ہے بلکہ شوہر اور اس کے گھر والوں کے دلوں میں ایک مضبوط اور پائیدار مقام بھی پالیتی ہے۔

لڑکی چاہے کیسے ہی گھرانے کی ہو، کتنی ہی ماڈرن اور براڈ مائینڈیڈ ہو، شوہر کو، اس کی محبت کو اور اپنے گھر کو بنائے رکھنے اور جوڑے رکھنے کا خواب تقریباً ہر لڑکی کا ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ اس خواب کی تعبیر کی خاطر وہ قربانیاں دیتی اور ایثار بھی کرتی ہے۔ اپنی ہستی کو صفر کرنا بھی جانتی ہے اور ویسے بھی اللہ نے انسان کو ماحول کے ساتھ موافقت پیدا کرنے کی بے مثال فطرت دے رکھی ہے اور عورت تو ویسے بھی اپنی فطرت میں بڑی لچک رکھتی ہے… لیکن بدلتے دور نے محبت کے رنگ بدل دیے، انداز بدل دیے اور اطوار بدل دیے۔

غافرہ بھی انہیں لڑکیوں میں سے تھی جس نے شادی سے پہلے ایک آئیڈیل زندگی کے خواب دیکھے تھے، وہی زندگی جس کی عکاسی فلموں، ناولوں اور ڈراموں میں ہوتی ہے، جہاں فینٹیسی ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت خوابوں سے الگ ہوتی ہے۔ یہ نہیں تھا کہ ابتسام یا اس کے گھر والے غافرہ سے برا سلوک کرتے تھے یا ابتسام اس سے محبت نہیں کرتا تھا بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ غافرہ کی توقعات افسانوی تھیں۔ ممکن تھا کہ وہ ان کے پورا نہ ہونے پر صبر کر رہی لیتی اور پھر دھیرے دھیرے زندگی معمول پر آہی جاتی، لیکن وہ جو کبھی کبھی مائیں محبت میں بیٹیوں کو مجدھار میں ڈال دیتی ہیں نا ماحول سے بغاوت کا عنصر دل میں بو کر اور وہ بھول جاتی ہیں کہ یہ بغاوت ماحول سے نہیں، فطرت سے ہے، محبت سے ہے، سکون سے ہے جسے اللہ نے گھر میں رکھا ہے اور یہ بغاوت اس کی بیٹی کو خالی دامن کردے گی، محبت روٹھ جائے گی، اس کا سکون چھوٹ جائے گا، مگر افسوس انسان بڑا ہی جلد باز اور سخت جھگڑالو واقع ہوا ہے۔

٭٭

مثل شیشہ ہیں ہمیں تھام کے رکھنا اے دوست

ہم تیرے ہاتھ سے چھوٹے تو بکھر جائیں گے

’’ابتسام دیکھیں یہ گولڈ کی چین کتنی خوب صورت لگ رہی ہے۔‘‘ غافرہ کی کھنکتی آواز پر ابتسام پلٹا، وہ دونوں کافی عرصہ بعد باہر آؤٹنگ کے لیے آئے تھے۔ گھر میں بحث چلتی رہتی اور وہ ماں، بہنوں اور بیوی کے درمیان سینڈوچ ہو کر رہ جاتا لیکن پھر بھی وہ کوشش کرتا رہتا کہ چیزیں سیٹل ہوجائیں۔ معاملات پھر بھی نارمل کی حدود میں ہی چل رہے تھے۔

’’ہاں بہت ہی خوب صورت ہے؟ اگلے ماہ شادی کی پہلی سال گرہ ہے تب یہ تحفہ پکا رہا۔‘‘ ابتسام نے اس کی چمکتی آنکھوں کو مسکرا کر دیکھا۔

’’اگلے ماہ کیوں؟ مجھے ابھی چاہیے… پتہ نہیں جب تک یہ ڈیزائن ملے یا نہ ملے؟‘‘ غافرہ نے ضد کی تو ابتسام ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا۔

’’مل جائے گا یہ ڈیزائن… اور اگر تب یہ ڈیزائن نہ ملا تو آرڈر دے کر بالکل ایسا ہی بنوا لیں گے انشاء اللہ… ‘‘ ابتسام نے بھی اپنی ہی بات کے لیے اسرار کیا تو غافرہ کے چہرے سے ناراضگی جھلکنے لگی۔ کچھ دیر پہلے ہی نہایت خوش گوار اور اچھے ماحول میں کھائے گئے ڈنر اور لطیف احساسات کا اثر ہلکا پڑنے لگا! ’’آپ دلانا نہیں چاہتے کیا؟‘‘ اب کے تیکھے لہجے میں سوال کیا گیا تو ابتسام سر پیٹ کر رہ گیا۔

’’ارے نہیں… درا صل…‘‘ ابتسام کہتے کہتے کچھ پل کے لیے رک گیا۔ ایک لمحے کے لیے غافرہ کے چہرے پر نظر ڈالی اور پھر اپنی بات دوبارہ شروع کی۔ ’’دراصل تمہیںپتہ ہے نا اس مرتبہ امی کا موتیا بند کا آپریشن ہوا ہے، اور کچھ روپیفضا آپی کو دیا ہے جو آپی اگلے ماہ واپس کردیں گی سو میری بچت اتنی خاص نہیں… اگلے ماہ کے ساتھ کچھ اضافی رقم بھی ملے گی میں نے اپنے باس کے ایک ذاتی پروجیکٹ پر کام کیا تھا… سو انشاء اللہ اگلے ماہ یہ تحفے تو پکا رہے گا۔‘‘ بات کے شروع میں جو فکر کی ایک لکیر ابتسام کی پیشانی پر ابھری تھی وہ آخری جملے پر پہنچنے تک تبسم کی لکیر بن کر لبوں پر ڈھل گئی تھی۔ غافرہ کا موڈ آف تو ہوگیا تھا لیکن وہ کچھ کہہ بھی نہ سکی اس لیے خاموش ہوگئی جسے ابتسام نے محسوس کرلیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ کیا چیز غافرہ کے موڈ کو دوبارہ ٹھیک کرسکتی ہے۔ تقریباً ہر مرد کی طرح ابتسام کی بھی یہی خواہش تھی کہ اس کا گھر ہمیشہ پرسکون بنا رہے۔

آج کے دور کے خاندانی نظامِ زندگی میں اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو مرد زیادہ مظلوم ہوگیا ہے۔ عورتوں کی اور خصوصاً نئی نسل میں لڑکیوں کی قوتِ برداشت کم ہوگئی ہے۔ توقعات آسمانوں کو چھوگئی ہیں اور ان سب کے بعد بھی وہ خود کو مظلوم بنائے رکھتی ہیں اور مرد ساری عمر بیوی، بچوں کے لیے، ان کے آرام اور خوشی کے لیے جٹا رہتا ہے، در بدر رہتا اور آخر میں یہی جملہ سنتا ہے کہ آپ نے میرے لیے کبھی کچھ نہ کیا۔ یہ عورتیں اور یہ ناشکری کا مزاج! ابتسام بھی اسی تگ و دو میں تھا کہ اس کے گھر کا سکون برقرار رہے۔ ماں، بیوی، بہنیں سبھی سکون سے رہیں۔ اب بھی وہ غافرہ کی فکر میں ہی تھا۔

٭٭

کچھ ہار گئی تقدیر، کچھ ٹوٹ گئے سپنے

کچھ غیروں نے کیا برباد، کچھ چھوڑ گئے اپنے

’’ہم امی کے گھر جا رہے ہیں؟‘‘ حسب توقع غافرہ کے موڈ نے پلٹی کھائی اور اس کی کھنکھناتی آواز پر ابتسام نے اپنی بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو ہونٹوں تلے دبا دیا۔ یہ بیوی بھی نا کیسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جانے والی مخلوق ہے۔

’’کل جب ہماری میڈم کا موڈ ٹھیک نہیں تھا تو ہم نے سوچا شاید یہ تدبیر کام آجائے۔‘‘ ابتسام نے شوخی بھرے لہجے میں کہا تو غافرہ ہنس پڑی۔

’’ہاں… تھوڑا موڈ آف ہوگیا تھا۔ بہت دل چاہ رہا تھا وہ چین لینے کو، لیکن آپ کی بات بھی صحیح ہے۔ مجھے خود احساس کرنا چاہیے تھا۔ خیر آپ کے وعدہ پر ہم دل سے خوش ہیں۔‘‘ غافرہ نے خوش گوار لہجے میں کہا تو ابتسام اندر تک پرسکون ہوگیا۔ مرد کی اپنی بیوی سے کی جانے والی توقعات میں ایک فطری توقع یہ ہے کہ اس کی بیوی اس کو سمجھ سکے۔ اس کے حالات اور اس کی مشکلات کو سمجھ سکے اور ہر طرح کے حالات میں اس کے ساتھ کھڑی رہے۔ یہی توقع ابتسام کی بھی تھی اور جب جب غافرہ اس طرح کی کوئی بات کہہ دیتی تو وہ دل سے خوش ہو جاتا۔

’’چلئے میڈم… آگیا آپ کا گھر۔‘‘

’’جی نہیں یہ میری امی کا گھر ہے، ہمارا گھر تو ہم پیچھے چھوڑ آئے جہاں واپس جانا ہے۔‘‘ غافرہ نے فخر بھرے لہجے میں کہا۔

’’آہ کیا ڈائیلاگ تھا، بندہ آج مکمل شہدہوگیا۔‘‘ ابتسام نے دل پر ہاتھ رکھ کر کراہنے کی ادا کاری کی تو غافرہ کھلکھلا اٹھی۔

’’بس کیجیے… پہلے آئیے اندر‘‘ دونوں ہنستے مسکراتے مطمئن انداز میں گھر کی جانب بڑھ گئے۔ اور اسے جو کہ انسان کا کھلا دشمن ہے، آدم و حوا کی یہ محبت و اطمینان کبھی نہیں بھایا۔ شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال کر تاج حاصل کرنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔ اور اب اس نے ایک جال بچھایا تھا ایک مایا جال…‘‘ اور اب تماشا دیکھنا چاہتا تھا!!

یوں غافرہ کے اچانک چلے آنے سے سب خوش ہوگئے تھے… سویرا کالج کے قصے سنانے لگی اور امی چائے بنانے چلی گئیں۔ ابتسام ابا اور بھائی کے ساتھ بیٹھ گئے۔

’’یوں اچانک کیسے آگئی ہماری بیٹی؟‘‘ فائقہ بیگم نے چائے، کباب کی پلیٹ اس کے سامنے رکھتے ہوئے محبت سے پوچھا۔

’’کچھ نہیں امی بس یونہی آج ابتسام آفس سے جلدی آگئے تھے تو ہم آؤٹنگ پر نکل گئے۔ باہر ہی کھانا کھالیا، آئس کریم کھلائی اور پھر واپسی پر ابتسام یہاں لے آئے۔‘‘ غافرہ کے لہجے میں خوشی تھی۔

’’ماشاء اللہ… اللہ تمہیں یونہی خوش و خرم، شاد و آباد رکھے۔‘‘ بیٹی کے چہرے پر خوشی دیکھ کر فائقہ بیگم نے دل سے دعا دی۔

’’اور آپی کوئی شاپنگ نہیں کرائی ابتسام بھائی نے آپ کو۔‘‘ سویرا نے ایک کباب پلیٹ سے اٹھاتے ہوئے غافرہ کو چھیڑا۔

’’نہیں شاپنگ کرنے کا کوئی ارادہ تو نہیں تھا میرا… لیکن امی وہ رانا جیولرس پتا ہے نہ آپ کو وہاں گولڈ کے بہت ہی خوب صورت اور یونک ڈیزائن آئے ہیں۔ مجھے ایک بہت ہی پسند آیا تھا، ابتسام نے کہا کہ وہ اگلے ماہ شادی کی سال گرہ پر تحفہ میں دیںگے۔‘‘ غافرہ نے خوشی سے تفصیلاً بتایا۔

’’واہ… مزیدار ہے بھائی، آپی کے تو مزے ہیں۔‘‘ سویرا نے پرجوش انداز میں کہا۔ لیکن فائقہ بیگم کو کچھ ٹھیک نہ لگا۔

’’اگلے ماہ کیوں… ابھی لے لیتے، جب دیا یا اب دیا ایک سی بات ہے، اب ایسے اچھے ڈیزائن روز روز تھوڑی ملتے ہیں۔‘‘ انھوں نے شوشہ چھوڑ دیا۔

’’ہاں امی! میں نے بھی یہی کہا تھا، مگر ابھی بجٹ نہیں تھا ان کا، امی کے موتیا بند کا آپریشن اور اس کے علاوہ بھی دیگر خرچے تھے۔ فائقہ بیگم کے تیور دیکھتے ہوئے اس نے ایک عقل مندی ضرور کی کہ فضاء آپی کو پیسے دینے والی بات گول کردی۔ ’’مگر اگلے ماہ کا وعدہ کیا ہے ابتسام نے۔‘‘ غافرہ نے چائے، کباب کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے مصروف انداز میں کہا…

’’ہیں… یہ کیا؟ شادی کے بعد سے آج پہلی بار تم نے خود سے کچھ لینے کی فرمائش کی اور اس نے تمہیں وہ بھی نہ دلایا۔‘‘ عدو مبین نے فائقہ بیگم کی محبت کو اپنا ہتھیار بنا لیا، اور محبت کی دھارا کو موڑ کر مخالف سمت کر دیا۔

’’امی، وہ دلاتو رہے ہیں آج نا سہی کل، اور ان کی بات بھی درست ہے۔‘‘ غافرہ نے ابتسام کی حمایت کیٔ لیکن وہ عدو مبین بھی کچا کھلاڑی نہ تھا اس نے پھر ایک تیر اٹھا کر فائقہ بیگم کو پکڑا دیا۔ وہ ماں تھی، محبت اور مامتا کی پٹی آنکھوں پر باندھے کھڑی تھی۔

’’کچھ نہیں… یہ سب مرد ایک سے ہوتے ہیں۔ وعدوں پر ٹالنے والے۔ کہ خوشی سے مر نہ جائے اگر اعتبار ہوتا!‘‘ اب تم اس کی ذمہ داری ہو، کیا تمہاری ایک فرمائش بھی پوری نہیں کر سکتا وہ… اور یہ ماں کی خدمت کیا تمہارے شوہر ہی کا ذمہ ہے، بڑے بھائی کچھ نہیں کرتے…؟

’’ایسا تو نہیں ہے امی…‘‘ غافرہ منمنائی۔

’’پھر کیسا ہے؟ ماں باپ کی خدمت کیا ابتسام پر ہی فرض ہے۔ اور کچھ بھی ہو اسے تمہارے لیے کچھ تو بجٹ رکھنا ہی چاہیے۔ وقت کا کیا بھروسہ؟ کل کو تمہارے اپنے بچے ہوں گے ان کا بھی تو سوچنا ہوگا تمہیں۔ اب یوں ہاتھ کھلا رکھ کر ماں بہنوں پر خرچ کرے گا تو کیسے چلے گا؟‘‘ میری بچی کیا اب اپنا دل مار کر رہا کرے گی۔ ہم نے اب تک اس کی ہر خواہش پوری کی اور اب وہاں یہ حال۔‘‘ فائقہ بیگم بات ختم ہونے ہونے تک دو پٹے کا پلو آنکھوں سے ملنے لگی تو غافرہ کے ساتھ سویرا بھی بوکھلا گئی۔

’’امی بس کریں آپ زیادہ ہی نہیں کہہ رہی ہیں۔‘‘ سویرا نے ماں کو سنبھالنا چاہا تو فائقہ بیگم مزید بھڑک گئیں۔

’’بی بی ہم کو مت سکھاؤ۔ یہ تین تین اولادیں پالی ہیںہم نے اور تمہاری دادی اور ان کے لاڈلے تمہارے باوا کے ساتھ نبھاہ کیا ہے۔ سب پتہ ہے مجھے۔ میری بچی تو ہے ہی بھولی بھالی۔ ابتسام نے دو میٹھی باتیں کرلی ہوں گی اور یہ جھٹ پٹ اس میٹھی دلدل میں اتر گئی ہوگی۔ اپنی اہمیت اور حیثیت جتایا کرو اس پر، ایسی ہی سیدھی سادھی رہوگی نا تو دنیا سالم نگل جاتی ہے۔ دنیا داری سیکھ ذرا…‘‘ فائقہ بیگم نے اپنی تئیں بڑے کام کے گر غافرہ کو بتائے، تو دھیرے دھیرے ابتسام کی باتوں اور محبت کا سحر ٹوٹنے لگا۔ عدومبین مسکرانے لگا۔ جال میں پھنسی حوا کی بیٹی پر اب وہ شکنجہ کسنے لگا تھا۔

’’ہاں امی! اب اگلی بار سے دیکھتی ہوں۔‘‘ غافرہ تذبذب کا شکار تھی۔

’’کوئی اگلی بار نہیں ہوتا، آج اور ابھی ہوتا ہے [آہ! اتنی اچھی نصیحت بھی ایک غلط بات کے لیے] اور جو میں اتنے دنوں سے تمہیں کہہ رہی ہوں کہ الگ گھر لینے کی بات کرو تو تم نے کی ابتسام سے؟‘‘ فائقہ بیگم نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو غافرہ نظریں چرا گئی۔

’’امی… مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ اس نے ماں کو حقیقت بتائی تو فائقہ بیگم سر پیٹ کر رہ گئیں۔ ’’لو…! آج کل کی لڑکیاں ماہ دو ماہ میں ہی الگ گھر لے کر رہنے لگتی ہیں اور یہ ہماری گائے سی بچی، شادی کا ایک سال ہونے کو آیا اور کہہ رہی ہے کہ ڈر لگ رہا ہے۔ میری بات سن غافرہ!

ماں ہوں تیری کوئی دشمن نہیں، کچھ سوچ کر ہی تیرے بھلے کے لیے کہہ رہی ہوں۔ یہ مرد جب تک ماں، بہنوں میں گھسا رہتا ہے تب تک اسے نہ بیوی کی سمجھ آتی ہے اور نہ بیوی کی قدر ہوتی ہے، اور تم جو یوں ہر بار اس کی باتوں میں آکر سرینڈر ہو جایا کروگی، اس کی ہر بات بلا چوں و چرا مان لیا کروگی نا تو پھر وہ ہمیشہ تمہیں محکوم بنا کر رکھے گا۔ اس کی ترجیحات میں بیوی پیچھے چلی جائے گی، ابھی ماں باپ، بھائی بہن نظر آتے ہیں اور بعد میں ساری توجہ، ساری ترجیحات بچوں پر چلی جاتی ہیں اور بیوی ہمیشہ دوسرے درجہ کی مخلوق اور ایک جزوی چیز بنی رہتی ہے۔ تو تم ایسی غلطی مت کرو۔ شروع سے ہی اسے اپنی اہمیت بتاتی رہو، حیثیت جتاتی رہو اور خود کو اس کی ترجیحات میں پہلی پوزیشن پر رکھو۔ مرد کو اپنا گھر عزیز ہوتا ہے اور وہ اسے بچانے کی ہر کوشش کرتا ہے اور تمہارے یہ مطالبات تو بہت چھوٹے سے ہیں اتنا تو وہ تمہارے لیے کر ہی سکتا ہے۔‘‘ فائقہ بیگم کی باتیں غافرہ پر نئے در وا کر رہی تھیں، اسے خوابوں کی سیر کرا رہی تھی اور وہ فائقہ بیگم کی باتیں یوں سن رہی تھی جیسے عالم دین کا کوئی بیان جو زندگی سنوار دے گا۔

’’اب تم میری بات غور سے سنو…‘‘ اور دھیرے دھیرے پہلی درس گاہ اولاد کو کچھ سبق پڑھانے لگی۔ کچھ امرت دھار اسی لگ رہی تھی وہ، لیکن دونوں ہی اس سے انجان کہ یہ زہر قاتل ہے جو زندگیاں برباد کر دیتا ہے۔ شیطان کے واروں میں سب سے خطرناک وار اب ایک اور بنت حوا جنت چھوڑنے کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے راہ بنا رہی تھی اور ایک عورت اپنے تلخ تجربوں کی بھٹی سے اپنی بیٹی کی قسمت کو سیاہ کر رہی تھی۔ زندگی کے تجربے انسان کو مثبت اور منفی دونوں سبق دے جاتے ہیں اور بالخصوص عورت کو تو یہ ضرور ہی چاہیے کہ وہ اپنی نسلوں میں ان تجربوں سے حاصل کی گئی مثبت چیزیں ہی منتقل کرے اور تلخیوں کو خود جذب کرے ورنہ یہ منفی رویے برباد کردیتے ہیں گھروں کو، رشتوں کو، زندگیوں کو ابن آدم کو اور بنت حوا کو… یہ بھولنا نہیں چاہیے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں