میری شادی کو سات سال گزر چکے تھے— اللہ کا شکر ہے مجھے اپنے حساب سے جو چیز مطلوب تھی وہ مجھے مل گئی تھی— اپنے کاروبار اور اپنی ازدواجی زندگی سے میں مطمئن تھا — بس ایک ملال تھا — ہمیں ابھی تک کوئی اولاد نصیب نہیں ہو سکی تھی۔ زندگی میں اس ملال کے آتے ہی ہم نے ڈاکٹروں کے چکر کاٹنے شروع کر دیے—میرے اپنے یقین کی حد تک میں نے ساری کوششیں کر ڈالیں، ملک اور بیرون ملک کے چکر بھی کاٹے— مجھے جیسے ہی کسی ایسی ڈاکٹر کے آنے کا علم ہوتا، جو بانجھ پن کا اسپیشلسٹ ہو، فوراً اس سے اپائنٹ منٹ لے لیتا۔طرح طرح کے ٹیسٹ ہوتے، اور ان ٹیسٹوں سے زیادہ دوائیاں شروع ہو جاتیں — لیکن — سب بے فائدہ۔
میرا اور بیوی کی گفتگو کا رات دن کا موضوع کسی نہ کسی ڈاکٹر سے ہی متعلق ہوتا کہ اس نے کیا کہا ہے، اس کے علاج سے کیا امید کی جاسکتی ہے ، وغیرہ۔ امیدوں اور توقعات کا یہ سلسلہ ایک یا دو سال تک چلتا تھا، کیوں کہ ہر ڈاکٹر کا علاج طویل ہوتا تھا۔
کوئی ڈاکٹر بتاتا کہ بانجھ پن مجھ میں ہے، اور کوئی یہ کہتا کہ میں نہیں میری بیوی بانجھ ہے۔بہر حال—ہمارے دن اسی طرح ڈاکٹروں سے ملنے اور کوئی حل تلاش کرنے میں گزرتے رہے۔
بچے کا خیال ہمارے جذبات و احساسات پر غالب تھا اور باوجود اس کوشش کے کہ میری بیوی میرے اس احساس کو نہ جان پائے، وہ یہ جان ہی لیتی تھی کہ میرے اندر کیا چل رہا ہے۔ لوگوں کی طرف سے بھی سوالات کی بھر مار تھی۔کوئی میری بیوی سے پوچھتا: ’’ارے کس بات کا انتظار ہے؟ ‘‘ گویا کہ سب کچھ بیوی کے ہی اختیار میں ہے۔کوئی اس سے کہتا کہ فلاں جگہ ایک ڈاکٹر ہے ، اس سے ملو۔ فلاں عورت اس کے پاس علاج کی غرض سے گئی تھی اور اس کے یہاں اولاد ہو بھی گئی۔سماج کے پاس میری بیوی کے لیے سوالات اور مشوروں کی بھر مار تھی۔
لیکن کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ تم اللہ کی بارگاہ میں کیوں حاضر نہیں ہوتے، اور سچے دل کے ساتھ اس سے دعا کیوں نہیں کرتے؟
سات سال ہمیں ڈاکٹروں کے پیچھے ہانپتے کانپتے ہو گئے، اور ہم نے دعا کا سہارا نہیں لیا، اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔
ایک دن شام کے وقت —میں روڈ پار کر رہا تھا۔ میری نظر ایک نابینا شخص پر پڑی جو روڈ پار کرنے کی کوشش کر رہاتھا۔میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ایک طرف کا روڈ پار کرنے کے بعد دوسری جانب کا روڈ پار کرنے کے لیے ہم فٹ پاتھ پر رک کر گاڑیوں کے گزرنے کا انتظار کرنے لگے۔اس دوران — اس شخص کو مجھ سے کچھ پوچھنے کا موقع مل گیا۔مجھے بھلائی اور صحت کی دعا دینے کے بعد اس نے پوچھا: ’’شادی ہو گئی ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘
اس نے دوسرا سوال کیا: ’’بچے ہیں؟‘‘
میں نے جواب دیا: ’’اللہ نے نصیب میں بچے نہیں لکھے۔سات سال ہوچکے ہیں شادی کو، بس انتظار کررہے ہیں، کب اولاد نصیب ہوتی ہے۔‘‘
ہم روڈ پار کر چکے تھے— میں نے اس شخص سے رخصت لینی چاہی تو، اس نے کہا: ’’بیٹے! میرا حال بھی تمھارے ہی جیسا تھا۔ میں نے ہر نماز میںیہ دعا کرنی شروع کر دی کہ:رَبِّ لاَ تَذَرْنیِ فَرْداً وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ ( اے میرے رب! تو مجھے تنہا نہ چھوڑ ، تو تو وارث عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔) اللہ کا شکر ہے کہ اب میرے سات بیٹے ہیں۔‘‘ اس کے بعد اس نے میرا ہاتھ دبا کر کہا :’’دعا مانگنا مت بھولنا۔‘‘
اب مجھے کسی نصیحت اور مشورے کی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ مجھے تو اپنی منزل مراد مل چکی تھی۔
یہ واقعہ میں نے اپنی بیوی کو بتایا تو ہم دیر تک یہی بات کرتے رہے کہ ہمیں اب تک اللہ سے دعا کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا، حالانکہ ہم نے ہر کام اور ہر تجربہ کر کے دیکھ لیا۔کوئی ڈاکٹر ایسا نہیں چھوڑا جس کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا ہو۔اب کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ کا دروازہ نہ کھٹکھٹائیں؟ اس کا دروازہ بہت وسیع اور ہمارے سب سے قریب ہے۔
میری بیوی کو یاد آیا کہ دو سال پہلے کسی بوڑھی عورت نے اس سے بھی کہا تھا کہ تمھیں اللہ سے دعا مانگنی چاہیے۔لیکن جیسا کہ میری بیوی نے بتایا، ڈاکٹروں کے اپائنٹ منٹ اور ان سے ملاقاتوں کے چکر میں ہمیں دعا کا موقع ہی نہیں مل سکا۔اس وقت تو ڈاکٹروں کے یہاں آنا جانا ہمارا معمول بنا ہوا تھا اور ایک عام بات ہوگئی تھی۔
لیکن اس کے بعد — ہم اپنے دلوں کی آرزو لے کر اللہ کے حضور حاضر ہوئے۔ فرض نمازوں میں، نفلوں میں ، رات کو جاگ جاگ کر ہم نے اللہ سے دعائیں مانگنی شروع کر دیں— اور ہمارا یقین غارت نہیں گیا — ہمیں اللہ کے دروازے سے نامراد واپس نہیں کیا گیا۔ اللہ نے اپنا باب قبولیت ہمارے اوپر کھول دیا۔
میری بیوی کو حمل ٹھہر گیا — اور —اس نے ایک بچی کو جنم دیا۔ تبارک اللہ احسن الخالقین۔
اس موقع پر ہم اپنی خوشی اور مسرت کو کسی حال بھی چھپا نہیں پائے۔ بلکہ اب تو ہم اللہ سے بار بار یہ دعا کرتے ہیں رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنِِ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَاماً۔lll