بانجھ

پروفیسر شاہدہ شاہین (میسور)

صبح سے آسمان پر گھنیرے بادل چھائے رہے تھے ۔ موسم دھند لاہو رہا تھااورکہرے کا سا عالم تھا-دوپہر کے بعد اچانک برسات ہو نے لگی۔ہوتے ہوتے برسات نے طوفان کی صورت اِختیار کر لی۔لگاتار دو گھنٹے دھواں دار برسنے کے بعد بارش کے زور میں کچھ کمی آئی۔

سندھیا اپنے گھر کے باہری برآمدے میں جمع بارش کا پانی باہر پھینک رہی تھی کہ اچانک ایک انوکھی آواز بھی اُس کے کانوں میں پڑی جیسے کوئی بے حد درد بھرا آلاپ اُٹھارہا ہو۔ اُس نے گردن اُونچی کر کے باہرکر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ چاروں طرف جل تھل تھا۔برسات کا پانی انتہائی زور کے ساتھ رہا تھا ۔ بیچ سڑک پرپانی میں شرابورایک آوارہ کتیا آنکھیں بند کئے آسمان کی طرف منہ اُٹھائے رونی آواز میں چلائے جا رہی تھی جیسے انتہائی مجبوری اور عا لم بے سروسامانی میں فریاد کر رہی ہو۔ دل چیردینے والی اِس درد بھری آواز کو سن کر کئی عورتیں اور بچے اپنے گھروں سے باہر سر نکال کر جھانکنے لگے تھے ۔

کچھ ہی دن پہلے اس کتیا نے سڑک کے اس پار ہوئی سوکھی موری میں بچے دیئے تھے ۔ اندر سے چیاؤں چیاؤںکی آوازیں آیا کرتیں جوگلی کے بچوں کے لئے تجسس کا باعث بنی ہوئی تھیں ۔ موری کے اوپر پتھر کی بڑی بڑی سلیں بچھی ہوئی تھیں ۔ کتیا رینگتی ہوئی اُس کے اندر آیا جایا کرتی تھی ۔ برسات کا تیز رفتارپانی موری کے اوپر سے ہو کر بہہ رہا تھا اوروہ بے زبان جانور اندازِ بے سروسامانی میں اپنے بچوں کی موت کا ماتم منا رہی تھی ۔اُس کے نالہ و شیون کی وجہ سے حسین موسم بھی غم ناک لگ رہاتھا ۔

کچھ لڑکے برستے پانی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اورسب نے مل کر وہ سل ہٹائی جس کے نیچے پِلوں کے پائے جانے کا اِحتمال تھا لیکن وہاں لبالب پانی بھر ہوا تھا۔ ایک لڑکے نے اندرہاتھ ڈال کر ٹٹولا اور مایو سی میں سر ہلا دیا ،اندر کچھ نہیں تھا ۔دوسری اور پھر تیسری سل ہٹائی گئی لیکن ناکامی ہی ہاتھ آئی۔

کتیا کا رونا بدستور جاری تھا جسے سن کر وہاں کئی لوگ اکٹھے ہو گئے تھے ۔چوتھی سل کے ہٹتے ہی سب خوشی سے اچھل پڑے۔گویاایک معجزہ ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ اِرد گرد سوکھے پتے اورکچرا جمع ہو جانے کی وجہ سے گڈھا صرف آدھا بھرا تھا۔ اندر دو پلے پانی میں کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے ۔ لڑکوں نے لپک کر اُنہیں اُٹھا لیا۔

اور دو پِلے پانی میں مرے پڑے تھے۔ پِلوں کی آواز سنتے ہی اُن کی ماں پاگلوں کی طرح لڑکوں کے اطراف چکر کاٹنے لگی ۔ سامنے والے مکان کے بر آمدے میں ایک ٹاٹ کا ٹکڑا بچھا کر پِلوںکو اُس پر رکھ دیا گیا۔ کتیا اُنہیں چومنے اور چاٹنے لگی اور وہ کوں کوں کرتے ہوئے اُس کے پیٹ کے نیچے گھسنے لگے جسے دیکھ سب کے چہروں پراِطمینان و ا ِنبساط کی ایک لہر دوڑ گئی۔

’’ـسندھیا او سندھیا۔۔۔۔۔۔۔اری کہاں مر گئی ـ‘‘

سندھیا چونک پڑی اور ’’ آئی ماں جی ‘‘ کہتی ہوئی گھر کے اندر دوڑ گئی ۔

اِس روح پرور منظر میں وہ اِس قدر کھوگئی اوریہ بھی بھول گئی تھی کہ اندر ماں جی جاگ گئی ہونگی۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھ کھلتے ہی اُن کے سامنے شام کی چائے پیش کرنی ہے ۔ کسی بھی کام میں اگر ایک آدھ منٹ کی بھی دیر ہوجاتی تو سندھیا کوہزار باتیں سننی پڑتی تھیںجو آخر میں اُس کے بانجھ پن پر آکر ٹک جاتیں ۔چھوٹی سے چھوٹی بھول پر بھی دن میں بیسیوں بار اُسے یہی سب کچھ سننا پڑتا تھا ۔

شادی کے تیسرے سال بھی جب وہ اِس خاندان کو وارث نہیں دے پائی تواُسکی ساس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔

’’جب ڈاکٹرنی کہتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر دیر کاہے؟ اِس بڑھاپے میں اب اور انتظار نہیں ہوتا، بہت ارمان ہے مجھے پوتے کو گود میں کھلانے کا !اِ س ابھاگن کے بھروسے بیٹھے رہے تو پھر ہو چکا۔ ہمارے بعد خاندان کا نام کہیں مٹ ہی نہ جائے !کوئی تو نام لیوا چاہیئے ۔ اپنے بیٹے کے لئے میں نے ایک اور لڑکی دیکھی ہے ۔ بھگوان نے چاہا توجلد ہی ہمارے آنگن میںپوتا کھیلے گا۔‘‘

شہر کے ہر ایک ہسپتال میں سندھیا کامعائنہ اور علاج بھی ہو چکا تھا ۔ڈاکٹروں نے صاف بتادیا تھا کہ عورت کے ساتھ ساتھ مرد کے بھی جانچ ہونی ضروری ہے ۔لیکن اُس کے شوہر نے ان سنی کر دی۔ سندھیا میں ایسی ہمت کہاں کہ اتنی بڑی بات شوہر یا ساس کے سامنے زبان پر بھی لا سکے۔

٭٭٭

آخرکار وہ گھڑی آ ہی گئی جب سندھیا کو خود اپنے ہاتھوں شوہر کے لئے نئی سیج سجانی پڑی۔او ر دل پر پتھر رکھ کر سوتن کا استقبال کرنا پڑا۔بد شگونی کے اندیشے سے آنکھ سے ایک قطرہ آنسو گرانے کی بھی ممانعت تھی ۔ رات گئے اندھیرے کمرے میں تنہالیٹی تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ۔انتہائی ذلت، نارسائی و عالمِ کس مپرسی میںآنکھوں کے راستے گرم گرم آنسوؤں کا لاوہ سا بہہ چلا۔

نئی بہو کے گھر میں قدم رکھتے ہی ساس کے کانوں میں کلکاریاں گونجنے لگی تھیں۔ معمولی سے نین نقش والی نین تارا کسی سکول میں پڑھاتی تھی اور عمر میں سندھیا سے دو ڈھائی سال بڑی تھی ۔

صبح شام اُسکی خدمت سندھیا کو کرنی پڑتی تھی ۔ سویرے اُٹھ کر اُس کے لئے ناشتہ بنانا، کپڑے دھونا، پھر شام کو اُس کے سکول سے واپس آنے سے پہلے چائے ناشتہ تیار رکھنا پڑتا تھا ۔ اور تو اور ساس کے حکم پر محلے کے ٹریننگ سینٹر جاکر سلائی، کڑھائی اور بنائی بھی سیکھنی پڑی تھی ۔ آج کل فرصت کے لمحوں میں وہ اُولن کا ایک چھوٹا سا سیٹ تیار کر رہی تھی ۔

نین تارا کو سندھیا پر ترس آتا تھا ۔ اپنی ساس کا دوغلہ سلوک اُس کی تیز آنکھوںسے چھپا نہیں تھا ۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ مستقبل میں ہونے والے وارث اور اُس کی ماہانا تنخواہ کی خاطراُسے سر آنکھوں پر بٹھائے رکھتی ہے، ورنہ سب دکھاوا تھا۔

ساس کی غیر حاضری میں وہ سندھیا کو پاس بٹھا لیتی۔اُس کا بھولا بھالا انداز، معصوم اور سندر مکھڑا ، گھٹی گھٹی سی ہنسی اُسے اچھی لگتی تھی ۔ دونوں مل کر خوب ہنستیں اور دل کھول کر باتیں کرتیں۔ ساس کے آنے کی آہٹ ملتے ہی سندھیا ہڑبڑا کر وہاں سے بھاگ کھڑی ہوتی ۔ باتوں باتوں میں اُس نے سندھیا سے ساری جانکاری حاصل کر لی تھی ۔

سندھیا کو اُس کے ماما مامی نے پال پوس کر بڑا کیا تھا ۔اُس کے ماتا پتاگاؤں میں اُ سکے نام زمین کا ایک بڑاسا حصہ چھوڑ گئے تھے ۔ جس سے سالانہ آمدنی کے علاوہ ہر ہفتہ پھل،سبزی،ترکاری،دودھ، مکھن وغیرہ بھی گاؤں سے آیا کرتا تھا ۔

صرف اِس لئے کہ وہ اِس گھر کو ایک وارث نہ دے سکی ،اُس کی حیثیت ایک نوکرانی سے بھی بد تر بنا دی گئی تھی ۔ ماما ،مامی ٹہرے گاؤں کے سیدھے سادے لوگ ۔ نصیب کا لکھا کہہ کر ہمیشہ اُسے صبر کی تلقین کر تے رہتے تھے ۔ ہتک آمیز وناروا سلوک کبھی کبھی حد سے تجاوُز کر جاتا توخود نین تارا سندھیا کی طرف داری کرتی۔

٭٭٭

نین تارا کے سکول میں چھٹیاں چل رہی تھیں۔وہ مائیکے گئی ہوئی تھی ۔ اِدھر بیٹے کے سامنے ماں کا پرانا راگ پھر سے شروع ہو گیاتھا۔۔۔۔

’’ شادی کو پورا ایک سال بیت گیا لیکن اِس بیل پر بھی پھل پھول لگنے کے آثار اب تک دکھائی نہیں دیئے۔ نین تارا کوڈاکٹر کی صلاح لینی چاہیئے ۔ ‘‘

فرماں بردار بیٹا شام کو بیوی کو واپس لے آیا ۔ جب نین تارا نے سنا کہ ڈاکٹر ی معاینے کے لئے جانا ہے توصاف لفظوں میں کہہ دیا ۔

’’ آپ کو بھی میرے ساتھ چلنا پڑے گا۔کیونکہ اس معاملے میں صرف عورت کی جانچ ایک آدھی ادھوری کارروائی ہے ۔؟‘‘

یہ سن کر دونوں دنگ رہ گئے۔ ماں نے فوراََبیٹے کی طرف داری کرتے ہوئے کہا:۔

’’یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا۔۔۔۔۔۔۔۔اولاد کی پیدائش کے مقصد سے مرد وے کی جانچ یا علاج کے بارے میں نہ کہیں دیکھا نہ سنا ۔ارے کمبخت ! مرد ذات میں کوئی کمی نہیں ہوتی ، کمزوری اور بانجھ پن تو صرف عورتوں میں ہوتا ہے۔‘‘

لیکن نین تاراضد پر اڑی ہوئی تھی ۔ دھواں دار بحث و تکرار کے بعدآخر کار ہتھیار ڈالنے پڑے۔ شام ڈھلے دونوںاسپتال سے واپس لوٹے ۔نین تارا سیدھا اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔ اُس کے شوہر نے چپی سادھ رکھی تھی۔ دراصل ڈاکٹر کے ذریعے بتائی گئی ایک بات بھی اُس کے پلے نہیں پڑی تھیں۔ بیٹے کو اس طرح گم سم بیٹھادیکھ کر ماں پوچھنے لگی ۔

’’اب منہ لٹکا کر کیوں بیٹھا ہے ۔ اصلیت پر پردہ ڈالنے سے کیا فائدہ، بتا بھی دے ۔۔۔۔۔بیوی کا عیب آخر کب تک چھپائے گا۔‘‘

نین تارا تنتناتی ہوئی باہر نکل آئی اور اپنا ہاتھ نچاتے ہوئے بولی ۔

’’اگرآپ میں سچ سننے کی ہمت ہے تو سنئے، میں بتاتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ میری میڈیکل رپورٹ بالکل نارمل ہے ۔ لیکن آپ کے بیٹے کی رپورٹ میں درج ہے کہ اِنہیں Teratospermia کی شکایت ہے‘‘

ماں بیٹا ہونقوں کی طرح منہ کھولے دیکھتے رہ گئے۔ خاک سمجھ میں نہ آیا۔ نین تارا پھر بولی۔

’’ڈاکٹر نے کہاہے کہ ۔۔۔۔۔میڈیکل رپورٹ کے مطابق آپ کا بیٹا ایک کامیاب شوہر تو بن سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے باپ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‘‘

دونوں بھونچکے رہ گئے ۔ اچانک ماں بول اُٹھی ۔

’’ سب بکواس ہے ۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا ناکہ اِس کے سنگ کہیں مت جانا ،لیکن تو نے بات نہیں مانی ۔۔۔۔۔۔اب دیکھ لے، کیسی اُوٹ پٹانگ باتیں بنا رہی ہے جو آج تک کسی نے نہ سنی ہوں گی۔ ذرااِس کی ہمت تو دیکھ۔۔۔۔۔۔کتنی چالاکی کے ساتھ اپنا عیب تیرے سر مڑھنے کی کوشش کر رہی ہے !‘‘

نین تارا نے کچھ کہنے کے لئے اپنا منہ کھولا ہی تھا کہ شوہر نے ایک زوردار ڈانٹ کے ساتھ اُسے چپ کرا دیا ۔غصے میں بڑبڑاتی اور پیر پٹکتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ کافی دیر تک ماں بیٹا دونوںمل کر ساری دنیا کے ڈاکٹرزاور میڈیکل سائنس کو ناقص اور فضول قرار دیتے رہے ۔ ذہنی رو بہکی تو سندھیا کو کوسنے لگے ۔

’’اگر یہ ابھاگن بانجھ نہ ہوتی تو اُس چڑیل کو بھلا کیوںگھر لاتے ۔ ذرا سا سکول میں کیا پڑھا تی ہے، اپنے آپ کو دنیا بھر کی ماسٹرنی سمجھنے لگی ہے ۔اِس نے سمجھ کیارکھا ہے ؟ جو بھی اناپ شناپ بکے گی ہم آنکھ بند کر مان لیں گے ۔۔۔۔۔۔۔بیٹا! میں تو کہتی ہوں ۔اِسے چٹیاسے پکڑ نکال باہر کر ۔ دنیا میں لڑکیوں کی کمی ہے کیا! ایک ڈھونڈو ہزار ملیں گی ‘‘

نین تارا کسی بپھری ہوئی شیرنی کی طرح کمرے سے باہر آ گئی اورگرجتی ہوئی آواز میں بولی:۔

’’ تم لوگ مجھے کیا نکالو گے !میں خود ایسے آدمی کے ساتھ نہیں رہناچاہتی جو اپنے عیب پر پردہ ڈالنے کے لئے نہ جانے اور کتنی عورتوں کی زندگی برباد کرے گا، اُن پر بانجھ کا ٹھپہ لگائے گا ۔ میں پوچھتی ہوں۔۔۔۔۔۔بے زبان سندھیا پر اور کتنا اتیاچار کروگے آخر ؟ اپنی کمزوری مان کیوں نہیں لیتے ۔ بانجھ ہم نہیں ۔۔۔۔۔۔تم ہو ،لیکن پھر بھی ایک کے بعد ایک شادیاں رچانا اپناجائز حق مانتے ہو!اور چاہتے ہو کہ ہم بلا مزاحمت اندھوں اور بہروں کی طرح سب کچھ سہتی رہیں !لعنت ہے تم لوگوں پر اور تمہاری سوچ پر‘‘

دونوں سہم کر رہ گئے۔نین تارا نے اپنا سامان باندھ لیا تھا ،افسوس و ترحم آمیز نگاہوں سے سندھیا کی طرف دیکھتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئی ۔سندھیا ایک بے جان مورت کی طرح کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔

موسلادھار برسات میں گونج اُٹھنے والی اُس بے زبان جانور کی دل دوزفریاد کانوں میں گونج رہی تھی اور پتھر کی بڑی بڑی سلوں کے نیچے طوفان میں پھنسے ہوئے اُس کے بچے تصور میں گھوم گئے ۔ اوپر آسمان کی طرف دیکھ کروہ بھی رو پڑی لیکن آواز گلے سے باہر نکل نہیں پائی۔۔۔۔۔۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں