[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

برائیوں کے تدارک میں خواتین کارول

امتیاز وحید

عائلی اور صحت مند معاشرتی نظامِ حیات کے مجموعی تصورکی بقا،بنیاد اور اس کے فروغ میںمردو زن کو دو متوازی ستون کا درجہ حاصل ہے۔مردوں کے غلبہ والے سماج میں عورتوں کی فروتر حیثیت کے باوجود اس آفاقی کلیہ کی صداقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ مطلوبہ زندگی کا پیمانہ دونوں کے باہمی تعامل اور اشتراک کے بغیر ممکن نہیں۔نبی صلعم کے فرمان کے مطابق:’’عورتیں مردوں کی ہم مرتبہ ہیں۔‘‘(ابودائود) یہ ایک فطری اصول ہے۔دائرئہ کارکا تعین البتہ دونوں میں پائی جانے والی طبعی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہو تو مضائقہ نہیں۔دینِ فطرت ہونے کے ناطے اسلام نے اس آفاقی اصول کے تحت عورتوں کو نہ صرف اس کے جملہ حقوق فراہم کیے اور اس کے تمام تر مفادات کا تحفظ کیا بلکہ اس کی اساسی اور مستقل بالذات حیثیت پربھی اصرار کیاہے ۔اسی اسلامی روح کی نمایندگی اقبال کے یہاں ’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ‘ کے شعری کنایے میں ملتی ہے۔ اسلام کا ایسا ٹھوس موقف ایک جانب عورتوں کے ساتھ جاری ناانصافی کے خلاف اس کے نظام عدل کا حصہ تھا تو دوسری جانب طبقۂ نسواں کو یہ باور بھی کرانا تھا کہ مردوں کی طرح وہ بھی نظامِ حیات کا ناگزیرحصہ ہیں ۔ سماجی تشکیل اور اس کی شیرازہ بندی میں وہ بھی صاحب رائے ہے اور اپنا مستقلوجود رکھتی ہیں۔اسلامی عہد میں اس نوع کی مثالوں کی کمی نہیں جہاں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عورتیں خود اعتمادی کے ساتھ سماجی امور کے بیشتر معمولات میں فعال ہیں۔وہ تجارت پیشہ ہیں، سب سے اچھے شریک حیات کے انتخاب میں آزاد ہیں،وہ خلع لینے کی مجاز ہیں،جنگوں میں شریک ہیں،مختلف امور پر مباحثہ کے لیے آزاد ہیں،یہی نہیں بلکہ حفصہ بنت عمرؓ عبداللہ بن عمرؓ کی باقاعدہ غلطی کی نشاندہی کرتی ہیں، ام الدرداؓ عبد الملک بن مروان کے بعض رویوں پر انھیں روکتی ہیں حتی کہ نبی کریم ﷺ کی سفارش کے باوجود بریرہؓ اپنے حق پر قائم نظر آتی ہیں۔یہ اور ان جیسی درجنوں مثالیں اسلام کے اس بین تربیتی لائحۂ عمل کا حصہ تھیں جن کے ذریعے اسلام نے عورتوں میں اخلاقی جرأت پیداکرنے کی منصوبہ بندکوششیں کیں۔ انھیں علم و آگہی پر ابھارا، استفسار کا حق دیاتاکہ براہ راست حقائق کا ادراک خود بنی محترم سے کرسکیں۔ اس طرح انھیں نفسیاتی طور پر محض دفاعی حصار سے نکال کر خود کار ذہن دیا وغیرہ۔ اس کا نتیجہ عورتوں کی مثبت شخصی تعمیر کی صورت میں سامنے آیا اور عورتیں اپنے علم و آگہی کی بنیاد پر بعض دینی معاملات میں بھی مرجع خلائق بنیں۔اس تناظر میں امہات المومنین کے ساتھ حضرت ام سلیمؓ،حضرت اسماء بنت عمیسؓ، حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ وغیرہ ہمارے درمیان ہمیشہ ایک بالغ فکر،روشن ضمیر اور معاشرتی و فکری طور پر بیدار مغز خواتین کی حیثیت سے سامنے آتی ہیں۔ اسلامی تصورِ نسواں کے واضح شعور نے خواتین کو سماجی امور کے کئی محاذ پر فعال بنایا اور انھیں ایک بہتر، آلودگی اور تعفن سے پاک سماج کی تشکیل میں اپنے تعمیری کردار کے تئیں بیدار کیا۔

معاشرتی برائیوں کے تدارک میں’جہالت سے گلوخلاصی‘ اور’خودآگہی کی تلاش‘ عورتوں کاپہلا مطلوبہ کردار ہونا چاہئے۔جہل برائیوں کا سرچشمہ ہے۔ حصول علم کو ترجیحات میں مقدم رکھے بغیر برائیوں کے خلاف خواتین کی مہم بندی محض اک خواب ہے۔ صحابیات رسول صلعم سے ملاقات کی انتہائی مشتاق ہوتی تھیں تاکہ وہ علم کو اس کے سب سے اعلیٰ سرچشمے سے حاصل کرسکیں،نبی صلعم کی وفات کے بعد یہی وطیرہ صحابہ کرام ؓ کا تھا کہ وہ بھی بنی صلعم کی بیویوںسے ملاقات کے متمنی رہتے تھے تاکہ وہ بنی کے بعد ان کی تعلیمات کو سب سے اعلیٰ سرچشمے سے حاصل کرسکیں۔حدیثِ رسول صلعم طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم مسلم مرد اور عورتوں میں علم کی خاطرمسابقت کا محرک بنی۔

عورتوں کے استحصال کے تناظر میں یہ جاننا اہم ہے کہ مدت تک وہ اپنے وجود سے بیگانہ رہیں۔خود آگہی سے محرومی کی یہی لعنت اس کے استحصال کا سبب بھی بنی۔اس میں ظاہر ہے کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں مگر اس کا کیا جائے جو ذات اور وجود سے لاعلمی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔خود آگہی کی دولت سے فیض یافتہ عورت اپنی متنوع حیثیتوں میں دفاعی ذہنیت سے نکل کر اقدامی بلکہ اخلاقی جرأت اور خود اعتمادی سے لیس ہوگی اور یہی تقاضائے وقت ہے ۔

عورت جبلی طور پرتخلیق کار ہوتی ہے۔تخلیق کار اپنی تخلیقی یافت کو بہتر سے بہتر طور پر پیش کرنا چاہتا ہے ۔عورت کی گود اسی سیاق میں پہلا انسانی مکتب ہوتا ہے جس میں بندگی اور فرزندگی کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔اس حیثیت سے عورت انسان کی پہلی معلّمہ بھی قرار پاتی ہیں۔ مربی علم و عرفان کی دولت سے مالامال ہو تو اس کے زیر تربیت بچوں کی نفسیات پراس کے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔عورت اولاد کی عمدہ تربیت کے ذریعے اسے ایک ذمے دارانسان اور فرض شناس شہری بنا سکتی ہے اور معاشرتی نظام اور اس کے ڈھانچے کو مستحکم کرسکتی ہے۔معاشرتی جرائم میں ملوث ہونے والے بیشتر افراد کا پس منظر اچھے ماحول اور عمدہ تربیت کے جوہر سے خالی دیکھا گیا ہے۔اس طرح اچھے سماج کی تشکیل کا سفر ماں کی گود سے شروع کیا جاسکتا ہے ۔

مخلوط اسکولی نظام ،بچوں میں بڑھتے ذہنی دبائو اور سوشل میڈیا کی یلغار میں بچوں کی تربیت کا معاملہ اب اتنا آسان اور سہل نہیں رہا لہٰذا اس کے لیے داخلی نظام اور بچوں کی نفسیات کو اللہ کے سامنے جواب دہی اور خود احتسابی کے دائرہ میں رکھ کر بچوں کو اپنی نگہ داشت کی ذمے داری خود انھیں سونپنی ہوگی اور یہ کام ماں سے بہتر طور پر کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا۔

مادیت کے بڑھتے طوفان میں اچھی ،نیک اور تعلیم سے بہرہ ور خاتون آسان اور سہل زندگی کے تصور کو اجاگر کرسکتی ہے ۔بے جا اصراف، جھوٹی شان و شوکت ، خود نمائی اورنمائش کی خاطر عورتوں کے مطالبے شوہروں سے کیا کچھ نہیں کرالیتے۔ایسی صورت میں عورت کی راست بازی، صبر، قناعت اور بلبل و طائوس کی تقلید سے توبہ ثمرآور نتائج لاسکتی ہے۔رشوت ، ہیرا پھیری، چوری جیسی نفسیات کے خلاف گھر کی عورتیں اس قماش کے شوہر طبقہ کے لیے تازیانے کا درجہ رکھتی ہیں۔ گھر کی عورت کی مرضی کے خلاف رشوت اور حرام کی کمائی سے لائی ہوئی اشیا گھر کی چہار دیواری میں کیوں کر داخل ہوسکتی ہیں۔

جدید شہری اور اکائیوں میں بٹتی جارہی دورِ حاضر کی زندگی سے درآنے والے خاندانی بکھرائو اور رشتوں میں بڑھنے والی دوریوں کو پاٹنے اور خانگی رشتوں کو مستحکم کرنے میں خواتین اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔خاندنی بکھرائو کے اس پہلو نے ہماری اجتماعیت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے۔ مغرب کی طرح ہمارے بزرگ بھی تنہائی کا عذاب ڈھونے پر مجبور ہورہے ہیں۔جبکہ بزرگوں سے آباد ہمارے گھرانے خوش بختیوںکی آماجگاہ تصور کئے جاتے تھے۔نسلِ نو کی تربیت میں دادی اماں کی شبینہ کہانیاں، دادا جان کی دانٹ اور ناناجان کی معیت سے گھریلوفضا میں صحت مندی رہتی تھی ۔مشرقیت کے اس توانا محاذ پر شگاف پڑنا شروع ہوگیا ہے ۔اس کی بقا میں عورتوں کی قربانی، سوجھ بوجھ اور ضبط کی بڑی سخت ضرورت ہے۔اپنی ذاتی سہولت اور ضروریات پر خاندنی مفاد کو ترجیح دے پانا کارِ دشوار ضرور ہے تاہم اس میں اس کی ضمانت ہے کہ آئندہ کل یعنی آپ کا عہد پیری بالکل محفوظ ہے ۔

لاعلمی یا معلومات کی کمی کے سبب عورتوں کی صحت کا شعبہ کس مپرسی کا شکار ہے۔مناسب اور بروقت غذائیت کی کمی، مادرِ رحم میں بچوں کی صحیح نشو ونما، بروقت دوائیں، صلاح و مشورہ جیسے کئی امور توجہ طلب ہیں۔ عورتوں میںان مسائل کے تئیں حقیقی معنوں میں بیداری کا کوئی حکومتی یا طبّی منصوبہ خود طبقۂ خواتین کی سرگرم عمل داری کے بغیر ممکن نہیں۔جان کا اتلاف، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی نقص اور کمی جیسے مسائل سے روز ہمارا سامنا ہے ۔ان کے تدارک پر عورتوں کے کردار اور بیداری کو یقینی بنانا تقاضائے حال ہے۔

جہیزایک درندہ ہے،جس نے ہندوستانی معاشرت کی روح کو زخمی کررکھا ہے۔ ناقابل شمار، ناقابل یقین اور ناقابل برداشت زخم! لیکن حرص و طمع سے بھرے بے حس سماج میں یہ حصول زر کا ایک موثر ذریعہ بھی ہے۔ جہیزکے خلاف صف آرائی کے باوجود اس کا زور تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ قانون، سماجی بندشیں تمام ہیچ۔جہیز فاتح ہے۔اس کی فتح مندی میں اس عورت کا کردار بامعنی ہے جو دوسرے کے گھر سے جہیز دے کر بھیجی گئی تھی ،اب وہ بااختیار حیثیت رکھتی ہے ۔وہ تمام مظالم جو اس کے گھر والوں نے اس کی شادی کے وقت برداشت کئے تھے وہ ساس کی حیثیت سے اس کی تجدید کرتی ہے۔یہ ہمارا سماجی المیہ ہے ۔یہاں جہیز جیسی برائی کے لیے مزید کچھ کہنا عبث ہے۔ اس مذموم آئینہ میں خواتین طبقے کے مطلوبہ کردار پر محض اشارہ مقصود ہے۔

مادیت کے دوش پر سوار تیز گام زندگی میں مغرب نے خوشی کی جستجو یا اس کے حصول کے لیے کئی انداز ڈھونڈھے ہیں،جو خالص مصنوعی، پیشہ ورانہ، جھوٹی اور لمحاتی تلذز کی اساس پر استوار ہیں۔مشرق کی زمین پر اس کی لو دن بہ دن تیز تر ہورہی ہے۔طرزِ نو کی غماز خواتین کے نت نئے ملبوسات ہی دیکھیں تو آپ انھیں اباحیت سے لبزیز پائیں گے۔روز مرہ کی زندگی میں عورتوں بطورِ خاص نئی نسل کی دوشیزائوں میں مردوں کے لباس زیب تن کرنے کے رجحان نے جڑ پکڑنا شروع کردیا ہے ۔دوپٹے کا تصور ماضی بعید کی دقیانوسیت کے عقب میں گم ہوتا جارہا ہے اور یہ اتنا عام ہے کہ ہمیں حیرت بھی ہو،تو حیرت ہے!

ہر سال یوم عشاق کے جمائوڑے سے پورا ملک تعفن زدہ ہے ۔یہ کھلے عام بے حیائی ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ سبھی کچھ روشن خیالی ، گلوبل کلچر اور ترقی کے نام پر ہورہا ہے۔ جشن سالِ نو کی شبینہ تقاریب نے بھی کم تباہی نہیں مچارکھی ہے۔اس جھوٹی دنیا کی رونق محض عورت کے دم سے قائم ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آزادیِ نسواں کے اس تصور سے روشن دماغ ماڈرن خواتین فیض یاب ہورہی ہیں یا وہ مغرب کے اباحیت پسند نظام میں ایک استحصالی حربے کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔اس لعنت کا تدارک عورت کی داخلی بیداری کے بغیر ممکن نہیں۔

یہ صورت حال ایک روشن ضمیر مشرقی انسان کے لیے آزار سے کم نہیں۔یہ سراسر مشرق کی ہار ہے ۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ مشرق کی روحانیت خود اپنی بقا کا سامان مہیا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔اسلامی معاشرت کی عورت اپنے کردار میں اتنی طاق ہیں کہ ان کے قدموں تلے جنت کی بات کہی گئی ہے۔ان کے روشن کردار کے آئینے میں سماجی برائیوں کی بیخ کنی کے امکانات اب بھی روشن ہیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں