برائیوں کے خلاف خواتین کی طاقت

شمشاد حسین فلاحی

گاؤں سے کچھ دور پیڑوں کے نیچے کچھ مرد حضرات بیٹھے گالم گلوچ کی زبان میں بات کرتے ہوئے کچھ کھیل رہے تھے کہ سبز لباس میں ملبوس بیس پچیس خواتین کا ایک گروپ آتا دکھائی دیا۔ پھر کیا تھا مردوں کی وہ ٹولی اٹھی اور وہاں سے چمپت ہولی۔ مردوں کی یہ ٹولی ایک الگ تھلگ مقام پر جوئے میں مصروف تھی اور یہ سبز لباس والی خواتین اس گروپ کی ممبر تھیں جس نے سماجی برائیوں کے خلاف ’’جہاد‘‘ چھیڑ رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں دیکھتے ہی مردوں کا یہ گروپ فرار ہولیا۔

بنارس شہر سے کچھ ہی دوری پر واقع ایک گاؤں کی یہ خواتین مارشل آرٹ کی تربیت سے بھی لیس تھیں اور اس سے زیادہ برائی کے خاتمے کا عزم لیے منظم طور پر سماجی برائیوں کے خلاف جمع ہو رہی ہیں اور ان کا ہدف شراب اور جوئے کا خاتمہ ہے۔ ایک گاؤں سے شروع ہونے والی ان کی تحریک اب آس پاس کے دیہاتوں میں بھی پھیلتی جا رہی ہے اور ان کے اثر کو دیکھتے ہوئے اترپردیش کی پولیس نے بھی ان کی تائید کرتے ہوئے انہیں ’’پولیس متر‘‘ یعنی پولیس کے دوست کا درجہ دیا ہے۔ ان خواتین نے عوام میں ووٹنگ بیداری میں بھی فعال رول ادا کیا ہے اور عوام کو بڑی تعداد میں ووٹ کرنے کے لیے منظم طریقے سے مہم چلائی ہے۔

سبز گروپ کی یہ جماعت ہندوستان میں کوئی پہلی خواتین کی جماعت نہیں، جس نے سماجی برائیوں کے خلاف مہم چھیڑ کر انہیں بہ زور طاقت مٹانے کا عہد کیا ہے۔ اس سے پہلے اترپردیش ہی کے پسماندہ تصور کیے جانے والے علاقے بندیل کھنڈ میں ’’گلابی گینگ‘‘ نام کا خواتین کا گروپ کافی مقبول اور معروف ہوا۔ گلابی رنگ کے لباس میں ملبوس اس گروپ کی خواتین نے بھی شراب، جوئے، خواتین پر تشدد، جہیز اور جہالت و ناخواندگی جیسی سماجی برائیوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اس گروپ کی خواتین تو ہاتھوں میں لاٹھیاں لے کر چلتی ہیں۔ ان کی بھنک پاتے ہی مجرمین فرار ہو جاتے ہیں۔ مردوں میں شراب اور جوئے کی لت میں قابل قدر کمی آئی ہے۔ خواتین پر تشدد کے واقعات معدوم ہو رہے ہیں اور خواندگی کے ساتھ ساتھ بچوں کا اسکولوں میں اندراج اور حاضری بہتر ہو رہی ہے۔

برائیوں کے خلاف لڑائی تو ہر سماج اور معاشرے کی ضرورت ہے لیکن ہندوستانی معاشرے میں برائیوں کے خلاف جنگ خصوصاً سماجی برائیوں سے لڑائی ایک بڑی مہم ہے۔ اور اگر اس لڑائی کے لیے خواتین کمربستہ ہوں تو یہ اور بھی زیادہ قابل ستائش و تحسین ہے کیوں کہ سماجی برائیوں کا سب سے زیادہ شکار اور اس کا ہدف خواتین ہی ہوتی ہیں۔ من چلوں اور بگڑے ہوئے نوجوانوں کی چھیڑ چھاڑ ہو یا جہیز کا مطالبہ، شراب اور نشہ ہو کہ جہاں مرد عورتوں کی پٹائی کرتے ہیں، یا جوا جو گھر کی معیشت کو تباہ کر دیتا ہے، ہر جگہ آخر کار عورت ہی جھیلتی ہے۔

ہمارے سماج میں خواتین کی اس طرح کی تحریک جو برائیوں کو بہ زور قوت روکنے کے عزم سے اٹھی ہے اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اب برائیوں کا وہ طوفان جو خواتین کی زندگیوں کو جہنم بنا رہا ہے، اب ناقابل برداشت ہوگیا ہے اور اب اس صورت حال کے خلاف ’’کرویا مرو‘‘ کی نوبت آگئی ہے۔ اس تحریک کا ایک اور خاص پہلو یہ ہے کہ جہاں یہ تحریک ایک ردعمل کو ظاہر کرتی ہے وہیں ایک قسم کی مایوسی کو بھی بتاتی ہے اور یہ مایوسی حکومتی نظام اور امن و قانون کی ناکامی پر ہے جو جدید دور میں بھی عورت اور خاندان کو متاثر کرنے والے کلیدی جرائم کی روک تھام میں پوری طرح ناکام ہو رہا ہے اور اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ خود خواتین اپنے تحفظ کی خاطر ان سماجی برائیوں کے خلاف قوت بن کر کھڑی ہو رہی ہیں۔ جب کہ اگر امن و قانون کی صورت حال اطمینان بخش ہوتی تو اول تو ان خواتین کو اس قسم کی تحریک کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور اگر پھر بھی کوئی طاقت ایسی اٹھتی تو قانون خود اس کو روک دیتا کہ وہ اس کام کو نہ کرے جو قانون اور انتظامیہ کا کام ہے۔

’’سبز گروپ‘‘ اور ’’گلابی گینگ‘‘ کا تذکرہ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ یہ مکمل طور پر خواتین کے گروپ ہیں اور ہمارے سماج میں خواتین معاشرے کا وہ حصہ ہیں جنہیں کمزور اور دبا کچلا بنا کر رکھا گیا ہے۔ لیکن یہی دبا کچلا طبقہ اب طاقت بن کر اٹھ رہا ہے اور طاقت بھی ایسی جو بڑے بڑے ’’مردوں‘‘ کے پسینے چھڑا دے اور بگڑوں کو سدھرنے پر مجبور کر دے۔

خواتین کے یہ گروپ اگرچہ اپنے اثرات کے اعتبار سے بہت چھوٹے سے جغرافیائی علاقے کا حصہ ہیں اور محدود دائرہ اثر رکھتے ہیں مگر اس اعتبار سے انتہائی اہم ہیں کہ وہ ان پڑھ اور پسماندہ خواتین کی بیداری، سماجی برائیوں کے خلاف شعور اور سماج کو پرامن بنانے کی جدوجہد کی علامت اور ان کی شروعات ہیں۔ اگر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے، جس کے امکانات موجود ہیں، تو سماجی تبدیلی میں خواتین کی طاقت کو تسلیم کرانے کا سبب ہو گا۔

سماجی برائیوں کا خاتمہ ایک فلسفہ ہی نہیں سماج کی ضرورت ہے۔ طریقہ کار پر تو بحث ہوسکتی ہے مگر اس کی ضرورت اور اہمیت سے کبھی بھی اور کہیں بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام جہاں امر بالمعروف کا حکم دیتا ہے وہیں نہی عن المنکر کو بھی لازم ٹھہراتا ہے۔ اللہ کے رسول کی وہ حدیث تو مسلم سماج میں عام طور پر کہی اور سنی جاتی ہے کہ:

’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنی قوت سے بدل دے۔ اگر وہ طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کی برائی کو بیان کرے اور اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو دل میں برائی کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘

اس حدیث کی روشنی میں مسلم سماج کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ وہاں کیا صورتِ حال ہے، جب کہ اسلام کا بنیادی نظریہ ہی برائی کے بہ زور طاقت خاتمے پر مبنی ہے۔

مسلمان بھی اسی ہندوستانی سماج کا حصہ ہیں اور یہاں پھیلی اچھائیوں اور برائیوں سے وہ بھی اسی طرح متاثر ہوتے ہیں، جس طرح سماج کے دوسرے طبقات، مگر برائی کے خلاف جدوجہد کی نظریاتی اور دینی بنیاد ہونے کے باوجود مسلمانوں میں ایسا شعور موجود نہیں اور خواتین میں تو حالت اور بھی مختلف ہے۔ جب کہ اگر معاشرے میں بیداری ہو تو بہ آسانی ایسے گروپ تشکیل دیے جاسکتے ہیں جو ان گروپ سے الگ انداز میں لوگوں کے درمیان مہم چلائیں اور سماج کو برائیوں سے پاک سماج بنانے کی جدوجہد کریں۔ دیگر لوگوں کے مقابلے میں مسلم خواتین اور مرد حضرات اس بات کے زیادہ ذمہ دار ہیں کہ وہ سماجی برائیوں کے خلاف جنگ چھیڑتے ہوئے ایک اچھا معاشرہ تشکیل دیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں