میں زمانے کی نظروں میں برا آدمی ہوں اور شاید بے وقوف بھی کیونکہ گول سوراخ میں چوکھونٹی میخ فٹ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میرا پڑوسی مجھ سے ناراض ہوگیا ہے اور مجھے برملا برا آدمی کہتا پھرتا ہے۔ میری برائی یہ ہے کہ جب اس نے اپنے بیٹے کو سرکاری ملازمت میں چور دروازے سے داخل کرانے کے لیے دفتر کے کلرک کو رشوت چڑھائی تو میں نے وہ عبارت بلند آواز سے پڑھ لی تھی جو دفتر کی دیوار پر لکھی ہوئی تھی اور جس کامطلب یہ تھا کہ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں ہی جہنمی ہیں۔
میرا بھائی بھی مجھے برا آدمی سمجھتا ہے کیونکہ میں اس کے جوان بچوں کو اکثر نصیحتیں کرتا رہتا ہوں، لا تخسروا المیزان کے معنی سمجھاتا اورکاروبار میں دیانت کو راہنما اصول بنانے پر زور دیتا ہوں۔ میں وقتاً فوقتاً اپنے بھائی کی ہنگامی مالی ضرورتیں بھی پوری کرتا رہتا ہوں اس لیے وہ میرے منہ پر کچھ نہیں کہتا مگر دل سے مجھے برا ہی آدمی سمجھتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں میں اس کے بچوں کا وقت ضائع کرتا اور انھیں کماؤ پوت بننے سے روکتا ہوں۔
میرے ایک لنگوٹیا دوست نے دولت کمانے کے لیے اپنے بیٹے کو دوبئی بھیجنا چاہا اور اس مقصد کے لیے قانونی طریقِ کار اپنائے بغیر لوگو ںکو بھیجنے والے ایجنٹ سے سودے بازی کرلی۔ مطلوبہ خطیر رقم میں کمی پڑی تو اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ میں نے معذرت کرلی کہ غلط کام میں تعاون نہیں کرسکتا اور … پھر
اک ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
ایک تعلیمی بورڈ نے مجھے ناظم امتحان بناکر ایک ’’پرابلم کالج‘‘ میں بھیج دیا۔ سب نے حتی المقدور امانت و دیانت کا دامن تھامے رکھا۔ مگر غرض مند تو دیوانے ہوتے ہیں۔ وہ میرے پیچھے پڑگئے اور بقول رشید احمد صدیقی مجھ پر موٹر، لڈو اور لاٹھی، ہر حربہ آزما ڈالا۔ میں بہرحال ان کے پٹانے میں تو نہ آیا، بلکہ امتحان کے اختتام پر’’ایک ناظم امتحان کی آپ بیتی‘‘ لکھ کر اخبارات میں چھپوادی جس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی آگئے، مگر تعلیمی بورڈ کے اربابِ بست و کشاد بھی میری دیانت، استقامت اور محنت کی داد دینے کی بجائے مجھ سے بگڑ گئے۔ میں دفتر میں پہنچا تو دیکھا کہ بورڈ کے مہربانوں کے منہ کا ذائقہ خراب ہوچکا تھا۔ میں ان کے نزدیک بھی برا آدمی ٹھہرا تھا۔
میرے شہر کے ایک ہر دلعزیز ڈاکٹر ہیں۔ وہ کالج کے اساتذہ پر خاص طور سے مہربان تھے کیونکہ ان کا لڑکا کالج میں میڈیکل کا اسٹوڈنٹ تھا ڈاکٹر موصوف سے میری بھی یاد اللہ تھی۔ ایک دن نور کے تڑکے مکان پر دستک ہوئی باہر نکل کر دیکھا تو وہی ڈاکٹر صاحب بلا ضرورت مسکرارہے تھے کہنے لگے ’’سر ایک ذرا سی تکلیف دینی ہے۔‘‘
’’فرمائیے ‘‘ میں نے اخلاقاً کہا۔
’’اس کار میں بیٹھ جائے۔سینٹر کے باہر بھی اسی میں بیٹھے رہیے گا اور پرچہ حل کردیجیے گا۔ ہم نے سب انتظام کرلیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کمال ڈھٹائی سے کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب معاف کیجیے گا۔ آپ نے غلط نمبر ڈائل کردیا ہے۔ میں اس قسم کا پروفیسر نہیں ہوں براہِ کرم تشریف لے جائیے۔‘‘ میں نے رکھائی سے کہا ڈاکٹر صاحب سانپ کی طرح پھنکارتے چلے گئے۔
اس دن سے اپنے مریضوں کو خبردار کرتے رہتے ہیںکہ میں اچھا آدمی نہیں ہوں۔ کسی اور کاذکر کیا کروں میرے اپنے گھر والے میرے بارے میں ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک بھی میں ایک لاجواب برا آدمی ہوں۔ میں اپنے خاندان میں کئی اعتبار سے منفرد ہوں۔ میں اپنے گھرانے میں پہلا آدمی ہوں جو اعلیٰ تعلیم سے مزین ہوکر بحمدللہ پروفیسری کے ارفع مقام تک پہنچا۔ اپنے خاندان میں صاحبِ تصنیف ہونے کا فخر بھی مجھے ہی حاصل ہوا لیکن میری صلاحیت اور انفرادیت وہم ہوکر رہ گئی ہے۔ اہلِ خاندان کے نزدیک میں نے پڑھ لکھ کر ڈبودیا ہے۔ میں اپنے خاندان کو بنگلہ، بنک بیلنس، پلازہ اور ایسے ہی دوسرے لوازمات مہیا نہیں کراسکا۔ جو فی زمانہ معیارِ شرافت و قابلیت اور نجابت سمجھے جاتے ہیں۔ ابھی تک کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں اور آج بھی پرانی سائیکل پر کالج یا بازار آتا جاتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے میرے کرایہ خانہ پر بیگم کی ایک پرانی سہیلی ملاقات کرنے آگئی۔ وہ میری شخصیت سے متاثر تھی، نہ جانے کیوں، اور کیسے اس نے میری تعریف میں کوئی بات کہہ دی۔ بس ہماری بیگم نے ہماری شان میں وہ فی البدیہہ ہجویہ قصیدہ اور آشوب نامہ پڑھا کہ پناہ بخدا۔ وہ تھوڑا سا آپ بھی سن لیجیے۔ بیگم اپنی سہیلی کو پان پیش کرتے ہوئے کہہ رہی تھی ’’اے بہن کیا بتاؤں کیسے شخص سے پالا پڑا ہے، چلتا ہے آگے کو دیکھتا ہے پیچھے کو۔‘‘
’’اے ہے بہن یہ کیا بات ہوئی۔‘‘ سہیلی حیرت زدہ ہوکر بولی۔
’’یہی کہ وقت نگوڑا تو آگے کو جارہا ہے پر میرے میاں مڑمڑ کر ماضی کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ کہتے رہتے ہیں کہ کاش آج کے لوگوں میں بھی وہی آن بان شان ہوتی جو مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں تھی۔ کبھی کبھی موج میں آکر مجھ سے بھی کہا کرتے ہیں: ’’بیگم! وہ سچے اور پکے اللہ کی تلوار اور مسلمان مجاہدین کیسے ہوتے ہوں گے۔‘‘ پھر وجد میں آکر اقبال کا شعر پڑھنے لگتے ہیں:
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
میں تو کہوں کہ ان کو چار پانچ صدیاں پہلے دنیا کے تختے پر اتر آنا چاہیے تھا یا پھر چوتھے آسمان سے حضرت عیسیٰ کے زمین پر اترنے کا انتظار کرلیتے۔
’’ارے بہن کیسی باتیں کررہی ہو بھائی صاحب تو اللہ رکھے ہیرو آدمی ہیں۔‘‘ سہیلی نے ٹوکا تو اہلیہ گویا برس پڑی۔
’’اے بہن بس رہنے دو کیوں منہ کھلواتی ہو۔ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے۔ میں ان کی شرافت اور دیانت کیا شہد لگا کے چاٹوں۔ یہ کھوٹے سکے ہیں۔ کبھی کے ٹکسال باہرہوچکے۔‘‘
’’خدا نہ کرے آخر ایسی کیا برائی ہے ان میں جس نے تمہیں تپا دیا ہے؟ میں تو انہیں…‘‘
’’تم جو چاہو سمجھتی رہو مگر میں بتائے دیتی ہوں کہ ان حضرت میں بے پناہ برائیاں ہیں۔ بس یہ سمجھو کہ چیونٹیوں بھرا کباب ہیں۔‘‘ اہلیہ نے بات کاٹی ’’کچھ ہمیںبھی تو معلوم ہو۔‘‘ سہیلی نے زور دے کر کہا۔
’’اری بہن! سو برائیوں کی ایک برائی تو یہی ہے کہ یہ سچ بولنے سے باز نہیں رہتے۔ جو بات ان کے دل میں ہوتی ہے وہی زبان پر آجاتی ہے۔‘‘
’’تو سچ بولنا برائی ہوئی؟‘‘ سہیلی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اور کیا نہیں۔ یہ زمانہ کوئی سچ بولنے کا ہے۔ ہر طرف جھوٹ کا دور دورہ ہے مگر یہ مولانا صاحب کہتے ہیں میں داڑھی رکھ کر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ سنت رسولﷺ رسوا ہوجائے گی۔ سچ بولنے کے جوش میں یہ چچا سعدی کی نصیحت بھی بھول جاتے ہیں تم نے بھی تو پڑھی ہوگی۔ اے وہی جس کا اردو میں مطلب ہے کہ فتنہ پیدا کرنے والے سچ سے وہ جھوٹ بہتر ہے جس سے فتنہ ٹل جائے۔ اے بہن! آخر شیخ سعدی کے بھی تو داڑھی تھی مگر بات کیسی پیاری کہہ گئے ہیں۔‘‘
’’شیخ سعدی نے مصلحت اندیشی پر زور دیا ہے مگر بہن جسے تم فتنہ سمجھ رہی ہو دانا لوگ اسے جرأتِ رندانہ کہتے ہیں جو بہت بڑی خوبی ہے۔‘‘ سہیلی نے پھر میری تعریف کردی۔
’’جرأت رندانہ نہیں ہمتِ احمقانہ کہو جس کا مظاہرہ کرنے پر میرے میاں تلے رہتے ہیں۔‘‘ اہلیہ نے پورے یقین سے کہا۔
’’وہ کیسے؟‘‘ سہیلی نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا
’’اس طرح کہ یہ دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے پر آمادہ رہتے ہیں۔ اب دیکھونا ہماری گلی کے نکڑ پر جو تانگے والا ہے وہ دن کو تانگہ چلاتا ہے مگر رات گئے پاؤڈر کا دھندا کرتا ہے، ہیروئن بیچتا ہے۔‘‘
’’ہائے اللہ! بڑا ظالم ہے۔‘‘ سہیلی نے کہا۔
’’وہی کیا، گلی کے دوسرے نکڑ پر جو چوہدری رہتا ہے وہ خود شرابی ہے۔اس کا بیٹا اسی کم بخت ہیروئن کا کاروبار کرتا ہے، چرس بھی پیتا ہے۔‘‘
’’اُف توبہ!‘‘ سہیلی نے کانوں پر ہاتھ دھرے۔
’’ارے ابھی بات پوری کہاں ہوئی ہے۔ ذرا سنتی جاؤ۔ چوہدری کی بیوی پینو باہر گلی میں کھڑی ایجنٹی کرتی رہتی ہے۔ ساتھ ہی پولیس کے خطرے کو سونگھتی رہتی ہے۔ ‘‘ عورت نہ ہوئی وہ ہوئی…
’’ہاں، ہاں وہی بنی رہتی ہے جو تم سمجھ رہی ہو۔‘‘ اہلیہ نے بات کاٹ کر کہا۔ اس پر دونوں ہنسنے لگیں۔
’’ایک دفعہ پولیس آگئی تھی۔ ماں نے بیٹے کو اشارہ کردیا، وہ تو سٹک گیا البتہ چوہدری رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ پیتا ہوا۔‘‘
’’چلو اچھا ہوا کوئی ایک تو اندر ہوا۔‘‘ سہیلی نے سکھ کا سانس لیا۔
’’ارے کہاں! وہ تو کھلا پھر رہا ہے۔ رانڈ کا سانڈ ہے۔ سنا ہے پولیس نے تین تھپڑ رسید کیے۔ تین ہزار لیے اور چلی گئی۔ میں کہتی ہوں جو کچھ ہونا ہے ہونے دو ہم نے کوئی ٹھیکہ لے رکھا ہے لوگوں کو سدھارنے کا۔ مگرمیرے شوہر ہیں کہ پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ نشہ چھوت کا مرض ہے۔ اس کو روکنا ہر شریف آدمی کا فرض ہے۔‘‘
’’بات تو معقول ہے۔‘‘ سہیلی نے سراہتے ہوئے کہا۔
’’اے واہ تم پھر ان کی حمایت میں بولنے لگیں۔ میں تو کیوں دھنک رے دھنیے اپنی دھن۔ خواہ مخواہ دشمنی مول لینے کا فائدہ؟ اور وہ بھی غنڈوں بدمعاشوں سے جن کے ہاتھ اتنے لمبے ہوتے ہیں۔‘‘ اہلیہ نے بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔
’’بہن تمہاری باتیں عقل کو اپیل کرتی ہیں مگر دل کو نہیں لگتیں۔ معاشرے میں بدی کا مقابلہ کرنے والوں کا وجود بہت ضروری ہے میں تو کہتی ہوں کہ ایسی تعمیری سوچ رکھنے والا برا آدمی نہیں ہوسکتا۔‘‘ سہیلی نے زور دے کر کہا۔
’’تو برا آدمی اور کون ہوتا ہے۔ یہ ان کی سچ گوئی ہمیں دھکے کھلواتی ری ہے بار بار بدلی کراتی رہی ہے۔ کالج کے اسٹاف روم میں ہنگامہ کراتی رہی ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ سہیلی نے پھر سوال کیا۔
’’اے ہے کالج کے اسٹاف روم میں ننگی تلوار بننے پر۔ تم جانو سرکاری ملازمت میں تو سب طرح کے لوگ آتے رہتے ہیں وہ بھی جو اپنے پیشے کی عزت ہوتے ہیں اور وہ بھی جو نام کے پروفیسر ہوتے ہیں… … بس ان میں ایک ہی ہنر ہوتا ہے کہ اوپر والوں کو خوش رکھتے ہیں۔ اس لیے من و سلویٰ کھاتے رہتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو سب کچھ ٹھیک ہے مگر اس میں تمہارے صاحب کی کیا برائی ہے؟‘‘
’’یہی کہ دل کی لبوں پر لانے سے باز نہیں رہتے ایک دن بھری بزم میں ایک خاص آدمی کی طرف اشارہ کرے کہہ دیا کہ خدا گدھوں کو حلوہ کھلا رہا ہے۔ پھر کیا تھا، ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ ہوا تھا۔‘‘
’’ہاں بہن سچ کہنا ہے تو جان جوکھوں کا کام۔‘‘ سہیلی نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’میں ان سے کہتی ہوں کہ خیر سے اب تم ریٹائرہوگئے ہو اپنے وہ کیا کہتے ہیں Duesلینے کے لے تمہیں اصولوں کی چادر کو چھوڑنا ہوگا ورنہ دفتر والے گھن چکر بنادیں گے۔اس پر یہ مسکرا کر رہ جاتے ہیں جو مجھے زہر لگتا ہے۔ اے لو بہن! یہ تو باتوں میں دوپہر ہوگئی۔ کھانا کھالو۔ یہ رام کتھا تو چلتی ہی رہے گی۔‘ اس پر اہلیہ کی سہیلی نے بھی وقت کا احساس کیا اور معذرت کرتی ہوئی چلی گئی۔
اہلیہ ہی کیا میرے بعض اپنے آدمیوں نے بھی اسی طرح ڈرایا تھا۔
اب اسے حسنِ اتفاق کہیے یا صاف گوئی کی برکت یااللہ کاکرم جو اندیشے میرے گھروالوں کو ڈستے رہتے تھے اُن سے میرا سابقہ ہی نہ پڑا۔ میری پنشن اور دیگر واجبات کے کاغذات دفتر ہی کے کرم فرماؤں نے تیار کرکے بروقت متعلقہ صاحبانِ اختیار کو روانہ کردیے جو چند ماہ کے اندر خود بخود پاس ہوکر آگئے۔ واجبات کا ایک حصہ ملنے میں کچھ دشواری ہوئی بھی۔ انتظامی مشینری کا پہیہ بدنیتی کی دلدل میں پھنسا بھی، مگر میں مستقل مزاجی سے دفتری اعتراضات دور کرتا رہا۔ آخر کار ہوا یہ کہ پہیہ چل پڑا۔
میں الحمدللہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آنے والے سب مشکل مقامات سے گزر آیا ہوں لطف یہ کہ میرے اصولوں پر آنچ بھی نہ آئی۔ میں ہر ماہ پنشن لینے نہیں جاتا لیکن چند ماہ کے بعد جب بھی دفتر جاتا ہو ںتو اپنے مہربان مہر سنگھ جی، پٹنائک صاحب اور ملک صاحب ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ میں ملک صاحب کے پاس بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ میری پنشن کا فارم خود پُر کرکے مجھ سے دستخط کروالیتے ہیں پھر چائے کا آرڈر چپراسی کو دیتے ہوئے پنشن بک خود متعلقہ بابو کو دے آتے ہیں۔ میں بمشکل چائے نوشی سے فارغ ہوتا ہوں کہ پاس شدہ پنشن فارم مع پاس بک میرے ہاتھ میں آجاتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ میری اہلیہ شرط ہارے ہوئے لہجہ میں کل پڑوسن سے کہہ رہی تھی: ’’آپا کیا بتاؤں ایسا لگتا ہے کہ ان جیسے برے آدمی اور بھی بہت سے ہیں ورنہ یہ سکون کا سانس کیسے لے سکتے تھے۔‘‘ میں اس کے تھکے ہوئے لہجہ پر مسکرا کر گنگنانے لگا:
بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں