برقعے والی

محمد نصیر رمضان، مالیر کوٹلہ

گارمنٹس کی دُکان سے جیسے ہی ٹی شرٹ وغیرہ لے کر عامر باہر نکلا اچانک ساتھ والی لیڈیز ٹیلر کی دُکان سے دو لڑکیاں باہر نکلیں۔دونوں برقعے میں ملبوس تھیں ۔اُن میں سے لال برقعے والی کی نگاہ اچانک عامر کی طرف اُٹھی اور عامرنے بھی اُس کی طرف دیکھا ۔عامرنے گھبرا کر نظر دوسری طرف پھیر لی اور دل ہی دل میں شرمندہ ہوا کہ وہ اُس کے بارے میں کیا سوچے گی اُس نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور وہاں سے چل دیا۔
ایسے ہی ایک دن صدر بازار میں کسی دُکان میں عامر کو وہی لال برقعے والی لڑکی نظر آ گئی ۔اُس کے ساتھ ایک اور لڑکی تھی اُس کا رُخ دوسری طرف تھاوہ ایسی جگہ کھڑا ہو گیا جہاں اُن دونوں کی نظر اُس پر نہیں پڑ سکتی تھی۔ جیسے ہی دوسری لڑکی نے رُخ پھیرا عامر حیران رہ گیا وہ اُس کے چچا کی بیٹی مریم تھی۔ اُس نے دل ہی دل میں سوچا کہیں وہ اُس کی سہیلی نہ ہویا پھراُس کے ساتھ اسکول میں نہ پڑھاتی ہو کیونکہ مریم ایک انگلش میڈیم اسکول میں پڑھاتی تھی۔کچھ منٹوں بعد ہی وہ دونوںچلی گئیں ۔جس کا م کے لیے وہ بازار آیا تھاوہ بھی بھول گیا ۔شام کو عامرچچا کے گھر گیا ،چچی چائے بنانے کے لیے کچن میں گئی تو عامر نے مریم سے انجان بن کر پوچھا ’’ کل تم بازار میں کس لڑکی کے ساتھ تھیں ؟میں اُدھر سے گذر رہا تھا اچانک دیکھا تھا ‘‘
’’ لڑکی ۔۔۔۔کون سی۔۔۔۔‘‘ اُس نے عامرکی طرف دیکھا ’’ وہی۔۔لال بُرقعے والی‘‘ عامر نے کہا۔
’’ اچھا۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔وہ تو فائزہ تھی میرے ساتھ ہی پڑھاتی ہے ۔۔۔کیوں تمہیں کیا۔۔۔۔؟ ‘‘ اُس نے کہا۔
’’ کچھ نہیں۔۔۔بُرقع میں دیکھ کر میں پوچھ رہا ہوں ۔۔۔اس سے پہلے کوئی بُرقعے والی تمہاری سہیلی نہیں دیکھی۔۔۔اور تم کون سا برقع لیتی ہو۔۔۔۔ اسکارف ہی پہنتی ہو۔‘‘ ’’ کسی چکر میں نہ رہنا۔۔وہ بہت پردہ کرتی ہے اسکول میں بھی برقع نہیں اُتارتی ۔۔۔۔۔اور جب ہم سب لنچ بریک میں اکٹھے ہوتے ہیںتب بھی ۔۔‘‘ مریم نے کہا۔’’ اچھا۔۔۔۔۔واہ بھئی واہ ۔۔۔۔آج کل کے زمانے میں بھی ایسی لڑکیاں ملتی ہیں‘‘ عامر نے مسکراتے ہوئے کہا اور مریم نے اُس کی طرف شرارت سے دیکھا جیسے اُس کی باتوں کی گہرائی تک پہنچنا چاہتی ہو۔تبھی چچی چائے لے آئیں اور بات آئی گئی ہوگئی۔
اور پھر اس سے اگلے دنوں میں عامر کا جانے انجانے میں فائزہ سے کئی بار سامنا ہوا۔ایک دو بار تو اُسے لگا کہ وہ اُس کو دیکھ کر زیرِلب مسکرائی بھی ہے لیکن اپنا وہم سمجھ کر ٹال گیا۔ایک دن وہ جب مریم کے گھر میں گیا تو چھوٹتے ہی مریم بولی ’’ کیا۔۔۔جادو کر دیا ہے‘‘ عامر نے حیرانی سے مریم کی طرف دیکھا’’کیا مطلب۔۔۔!‘‘
’’ مطلب یہ کہ۔۔۔۔فائزہ تمہارے متعلق پوچھ رہی تھی‘‘ مریم نے کہا’’ میرے متعلق۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔‘‘ اُس کے دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔
’’ یہی کہ۔۔۔تمہارا کزن کیا کرتا ہے۔۔۔۔گھر کیسا ہے ۔۔۔کون کون ہے گھر میں۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ‘‘ مریم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ تم نے کیا کہا؟‘‘ عامر نے بے تابی سے پوچھا۔ ’’ کہنا کیا ہے ۔۔۔سب بتا دیا ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔‘‘ مریم بولی۔
’’ اور کیا ‘‘ عامر نے جلدی سے پوچھا ’’ اور تمہارا موبائل نمبر بھی دے دیا‘‘ مریم نے جیسے اطلاع دی ’’ موبائل نمبر۔۔۔ مگر کیوں؟‘‘ لیکن مریم نے کچھ نہیں بتایابلکہ اُسے چھیڑتی ہی رہی۔ایک برگر اور دو کافی پینے کے بعد بھی بس اتنا ہی کہا ’’ پتا چل جائے گا ‘‘
ایک دن عامر کے فون کی گھنٹی بجی۔ عامر نے فون اٹھایا اور پوچھا: کون؟
’فائزہ۔۔۔کون۔۔فائزہ؟‘‘عامرنے انجان بن کر پوچھا: ’’ وہی۔۔جو اُس دن مریم کے ساتھ تھی۔۔‘‘
’’ اچھا۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔جی کہیے کیا بات ہے‘‘ عامر نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ آپ مریم کے کزن ہیں۔۔!‘‘ اُس نے پوچھا۔ ’’ جی ۔۔۔۔بالکل ۔۔۔۔مریم میرے چچا کی بیٹی ہے ‘‘ عامر نے کہا۔
’’ کیا ۔۔کرتے ہیں آپ ۔۔؟ ‘‘
’’ جی۔۔۔۔۔کچھ خاص نہیں ۔۔اپنی ایک کپڑے کی دُکان ہے صدر بازار میں ۔۔ساتھ ہی ایک لیڈیز ٹیلر ماسٹر رکھا ہوا ہے۔۔۔۔‘‘
’’ اوہ۔۔۔۔۔کتنے بہن بھائی ہو آپ۔۔۔۔؟ ‘‘ فائزہ نے پوچھا ’’ جی بھائی تو کوئی نہیں ایک بہن ہے ۔۔۔۔اُس کی شادی ہوگئی ہے اور۔۔۔میری ابھی نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے فوراً زبان دانتوں تلے دبالی اور پوچھا ’’ مگر آپ ۔۔۔۔یہ سب کیوں پوچھ رہی ہیں ‘‘ عامر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ آپ کو مریم نے نہیں بتایا۔۔‘‘ اُس نے آواز کو قدرے نیچی کرتے ہوئے کہا ۔ ’’ بتایا تو تھا۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔تھوڑا سا ‘‘عامر بولا۔
’’ پھر آپ سمجھ جائیے نا۔۔۔۔‘‘میں نے اپنی امّی کو آپ کے آپ کے بارے میں بتا دیا ہے ‘‘ فائزہ نے بیتابی سے کہا۔ ’’ سوچ لو۔۔۔میں تمہارے مقابلے پڑھا لکھا نہیں ہو۔۔۔۔۔صرف آٹھویں پاس ہوں۔۔۔۔ اور تم اتنی پڑھی لکھی۔۔۔۔۔‘‘ عامر بولا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔مجھے تمہاری شرافت اچھی لگی‘‘ فائزہ نے شرماتے ہوئے کہا۔ ’’اور میں۔۔۔!‘‘ عامر نے شرارت سے کہا۔
فائزہ نے مسکراتے ہوئے فون رکھتے ہوئے کہا ’’ تم بھی۔۔۔۔‘‘
عامر نے گھر میں بات کی اور مریم سے بھی کہلوایا۔ گھر والوں کو کیا اعتراض تھا ۔اتنی پڑھی لکھی لڑکی مل رہی تھی۔دو ہفتوں میں میں ہی منگنی ہوگئی اور اگلے مہینے ہی لڑکی والوں کی طرف سے شادی کے لیے دباؤپڑنے لگا۔ سب نے مل کر شادی کی تاریخ دے دی ۔ایک دو رشتہ داروں نے اتنی جلدی شادی پر اعتراض بھی جتایا مگر عامر نے زیادہ پروا نہیں کی ۔وہ تو جیسے ہواؤں میں اُڑ رہا تھا۔ان سارے کاموں میں مریم پیش پیش تھی ۔فائزہ سے پوچھ پوچھ کر اُس کی پسند کی چیزیں خریدیں جا رہی تھیںاور آخر وہ دن آگیا جب فائزہ اور عامر رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔سبھی نے خوشی کا اظہار کیا کہ عامر کوایک پڑھی لکھی لڑکی مل گئی۔عامر کے تو قدم ہی جیسے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔بہت سارے دن رشتہ داروں کے یہاں دعوتیں کھانے اور ملنے ملانے میں ہی نکل گئے۔گھومنے کے لیے وہ کچھ دنوں کے لیے شہر سے باہر بھی ہو آئے۔
ایک صبح ناشتہ کرتے ہوئے عامر نے پوچھا’’ اسکول کب جا رہی ہو ؟ ‘‘ فائزہ نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا’’ ابھی تو نہیں۔۔۔۔۔تین چھٹیاں باقی ہیں، ایک مہینے کی لی ہیں ۔۔۔۔تم کہو تو اسکول چھوڑ دوں ‘‘ عامر نے فوراً کہا’’ نہیں۔۔۔نہیں میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا‘‘کچھ دنوں کے بعد فائزہ نے اسکول جانا شروع کردیا۔ زندگی معمول پر آنے لگی مگر گھر کے کام کاج میں اُس نے حصہ پھر بھی نہیں لیا۔
اسکول سے آتے ہی کھانا کھا کر سو جانا پھر شام کو اُٹھ کر موبائل میں مصروف ہو جانا ۔رات کے کھانے کے بعد صبح پھر سے وہی معمول شروع۔ایک دو بار عامر نے گھر کے کام میں دلچسپی لینے کو کہا بھی مگر اُس کا ایک ہی جواب تھا ’’ اُسے چائے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔‘‘
گھر کا سارا کام عامر کی ایک بہن اور بوڑھی ماں ہی کرتی تھیں۔اکثر وہ کھانا باہر سے منگوالیتی۔ایک دو بار عامر کے زور دینے پر اُس نے روٹی بنائی اُس کی حالت دیکھ کر آئندہ سے عامرنے توبہ کرلی۔اسکول سے آنے بعد وہ گھر میں ہی رہنا پسند کرتی۔ عامر کے رشتہ داروں کے گھروں میں جانے سے وہ کتراتی تھی۔کوئی رشتہ دار گھر میں آ جاتا تو اپنے کمرے سے جلدی باہر نہیں نکلتی تھی یہاں تک کہ مریم سے بھی ملنا جلنا کم کر دیالیکن اپنی ماں کے گھر ہفتے میں اُس کے تین چار چکر ضرور لگ جاتے ۔بعض اوقات تو اسکول سے سیدھے میکے چلی جاتی اور وہیں سے عامر کو شام کو لے آنے کا کہہ دیتی۔ گھر میں اعتراض اُٹھے تو اُس نے کوئی پروا نہیں کی محلے میں کسی کے گھر کوئی تقریب ہوتی تو وہاں بھی فائزہ بُرقع پہن کر جاتی ۔گھر میں موجود خواتین کے کہنے پر بھی وہ برقع نہیں اُتارتی تھی۔کئی لڑکیوں نے تو اُسے نک چڑھی کا خطاب دے کر بُلانا چھوڑ دیا یہاں تک کہ اسکول میں اُس کی ساتھی لڑکیوں نے بھی فائزہ کے رویے کو دیکھتے ہوئے کنارا کر لیا۔عامر یہ سب دیکھ پریشان ہوا۔ اُس نے ایک دن مریم سے بات کی۔ ’’فائزہ کا رویہ سمجھ نہیں آ رہا۔۔‘‘ عامر نے کہا۔
’’ وہ شروع سے ہی ایسی ہے ہم لوگوں کا خیال تھا کہ وہ پردے کی پابندی کی وجہ سے ایسا کرتی ہے مگر وہ اپنے گھر میں بھی ریزرو ہی رہتی ہے۔اس لیے اُس کی کوئی سہیلی نہیں ہے ‘‘ مریم نے کہا۔’’ گھر میں بھی اُس کا انداز لیے دیے والا ہی ہوتا ہے ،مجھے تشویش ہونے لگی ہے‘‘ عامر نے مریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ایک دِن عامر کے تایا کے بیٹے مُنیب کے گھر میں اُس کی بیٹی کا عقیقہ تھا ۔اُس نے شام کو کھانے پر عامر اور فائزہ کو بھی بُلایا۔پہلے تو فائزہ نے منع کیا مگر پھر عامر کے زور دینے پر وہ تیار ہو گئی۔شام کو دونوں تیار ہوکر تایا کے گھر پہنچے ۔وہاں عامر کو خاندان کی لڑکیوں نے گھیر لیا اور ہنسی مذاق کرنے لگیں ۔اُنہوں نے فائزہ کو بھی چھیڑا مگر وہ ٹھس بیٹھی رہی ۔سبھی لوگوں نے اُس کا حال پوچھا مگر اُس کا موڈ آف ہو چکا جس کا پتا عامر کو گھر آکر پتا چلا جب کمرے میں آتے ہی اُس نے سوال کیا’’ وہ نیلے سوٗٹ والی کون تھی جو ہنس ہنس کے تم سے فری ہونے کی کوشش کر رہی تھی؟‘‘ عامر اُس کی سوچ پر حیران ہوتا ہوا بولا’’ وہ۔۔۔تو میری تائی کے بھائی کی بیٹی تھی۔۔۔ کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’ مجھے یہ سب پسند نہیں۔۔۔سب تمہیں کیسا گھیرے ہوئے تھیں‘‘ فائزہ نے اُکھڑے لہجے میں کہا۔
’’ کیسی باتیں کر رہی ہو۔۔۔۔وہ سب میری بہنیں جیسی ہیں۔۔۔تمہاری سوچ کیسی ہے ۔۔انپڑھوں جیسی باتیں۔۔۔اور پھر میں تو شروع سے ہی اُن سے اس طرح ملتا ہوں۔۔۔وہ لوگ بھی مجھ سے اسی طرح پیش آتے ہیں۔۔۔اور پھر۔۔میرا کام بھی ایسا ہے کہ اُن سے واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے ‘‘عامر نے کہا۔ ’’ہوتا ہوگا۔۔۔مگر مجھے پسند نہیں۔۔۔‘‘ فائزہ نے قدرے اونچی آواز میں کہا ۔
’’ آہستہ سے ۔۔۔۔بات کرو ،اگر میرے دِل میں کوئی ایسی ویسی بات ہوتی تو۔۔۔۔میں تم سے شادی کیوں کرتا‘‘ عامر کو بھی غصّہ آگیا‘‘ لیکن فائزہ کے دل میں شک کا کیڑا کلبلاتا رہاوہ منہ پھلا کر لیٹ گئی۔عامر بھی آئندہ پیش آنے والے حالات کے بارے میں سوچتا ہوا سو گیا۔ اگلی صبح فائزہ بنا عامر سے بات کیے اسکول چلی گئی۔عامر نے بھی پروا نہیں کی۔گھر والوں نے دونوں کے درمیان ہوئی ناچاقی کو محسوس کر لیا۔ ساری بات سننے کے بعد عامر کی امّی نے عامر کو پیار سے سمجھانے کو کہا۔شام کو عامر نے پہل کرتے ہوئے فائزہ کو منا لیا اور کہیں باہر ریسٹورنٹ میں کھانے کا پروگرام بھی بنا لیا۔فائزہ کو اور کیا چاہیے تھا۔کچھ دیر کے بعد اُس کا موڈ کوشگوار ہو گیا کیونکہ واپسی میں عامر فائزہ کو اُس کی امّی کے گھر گھمانے لے گیا۔بات ٹل گئی۔
لیکن ایک دن جب عامر کی کزنز وغیرہ گھر میں آ گیئں تو فائزہ کا موڈ پھر بگڑ گیا۔رات کو اُس نے پھر جھگڑا کیا اور اگلے روز وہ اپنی امّی کے گھر بنا کچھ کہے چلی گئی۔ عامر نے سر پکڑ لیااُس نے فائزہ کی امّی سے شکایت کی مگر اُلٹا اُنہوں نے عامر پر الزام دھر دیا ۔اپنی عزّت اور جگ ہنسائی کے ڈر سے عامر پھر اُسے منا لایا۔پھر اکثر ہی اُس کے ساتھ ایسا ہونے لگا کبھی وہ عامر کے گھر والوں کو سلیقہ نہ ہونے کا طعنہ دے دیتی اور کبھی اُن سب کو انپڑھ خاندان والاکہہ دیتی بلکہ کبھی کبھی تو بدتمیزی سے بھی پیش آ جاتی۔عامر پریشان رہنے لگا گھر والے الگ تنگ تھے۔ایک دن جب وہ روٹھ کے میکے گئی ہوئی تھی، اُس کے تایا گھر آگئے اور عامر کو سمجھایا ’’ بیٹا۔۔۔اس طرح روز کے جھگڑوں سے پیار نہیں پلے گا نفرت ہی بڑھے گی جیسا وہ کہتی ہے۔۔۔کر لو۔۔۔لیکن گھر کو ٹوٹنے سے بچا لو‘‘’’ جی بڑے پاپا۔۔۔۔‘‘ عامر نے کہا اور اپنی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے فائزہ کو پھر لے آیا۔آتے ہی وہ اپنے کمرے میں گھس گئی۔ اُس نے کسی کو سلام تک نہیں کیا۔عامر کو غصّہ تو بہت آیا مگر پی گیا۔رات کو سونے سے قبل فائزہ کی طرف دیکھا۔اُسے لگا کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا اُس میں جو اُس نے فائزہ سے شادی کرلی۔ اتنی حسین بھی نہیں تھی جبکہ اُس کے خاندان کی لڑکیاں ایک سے ایک حسین تھیں۔شاید اُس کے عام لڑکیوں سے ہٹ کر بُرقع میں ملبوس رہنے کی ادا نے اُسے ایک تعلیم یافتہ اور دیندار لڑکی کے روٗپ میں پسند کیا تھامگر۔۔۔۔!
صبح کمرے میںکھٹر پٹر کی آواز سے اُس کی آنکھ کھل گئی ۔اُس نے ذرا سا آنکھ کھول کر دیکھا فائزہ اپنا ناشتہ کر رہی تھی۔صبح کو وہ ایک گلاس دودھ پہ گذارا کرتی تھی۔کچھ دیر بعد ہی وہ اسکول جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔عامر پھر سوچوں میں گم ہو گیا۔ جتنی وہ باحجاب نظر آتی تھی اگر حقیقتاً بھی ایسی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا،لیکن اب کیا ہو سکتا تھا ۔یہ شادی اُس نے بہت جلدی میں کی تھی ۔بہت سوں نے سمجھایا بھی تھا مگر اُس نے کسی کی نہیں سُنی ۔اُسے لگا تھا،ایسی ہی لڑکی اُس کے گھر کے لیے ٹھیک رہے گی۔۔۔۔کیا سوچا تھا کیا نکلا۔۔یہ سب اُسی کا کیا دھرا ہے اب ساری عمر اُسے ہی سمجھوتہ کرتے ہوئے گزارنا ہے۔۔۔وہ کس کو الزام دے۔۔۔۔اُس کی چچازاد بہن مریم نے بھی اُسے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔لیکن اُس کا بھی کیا قصور وہ خود بھی تو اس کا ذمّہ دار تھا۔۔۔۔۔ اچانک کمرے میں فائزہ آگئی۔
’’ یوں بستر پر پڑے پڑے مگرمچھ کی طرح کیوں اینٹھ رہے ہو کام پر نہیں جانا ہے کیا۔۔۔!‘‘
عامر کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے اُس نے پوری آنکھ کھول کر دیکھا سامنے فائزہ کھڑی تھی۔ ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں