ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کینسر کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا کینسر، بریسٹ کینسر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت ترقی پذیر ممالک کی خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح زیادہ بلند ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کینسر کی شکار ۸۰ فیصد خواتین وہ ہیں جن کی عمر ۵۰ سال سے زائد ہو، جب کہ اگر ۳۰ برس سے کم عمر خواتین Fibroadenoma کا شکار ہوں تو سب سے پہلے ان کی بریسٹ میں رسولیاں بننے لگتی ہیں، جو دوسرے مرحلے میں پہنچ کر سرطان کا سبب بن سکتی ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق بریسٹ کینسر کی اصل وجوہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہیں، مگر کچھ اہم عوامل ضرور ہیں۔ جن میں بڑھتی ہوئی عمر، جینز، سرطان کی ہسٹری، ایسٹروجن ہارمون کے اثرات، موٹاپا، قد، الکوحل کا استعمال، تاب کاری کے اثرات، ہارمونز کی تبدیلی اور ضرورت سے زیادہ کام کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اگر کبھی کسی خاتون کو بریسٹ یا اوورین کینسر لاحق ہوا ہو، تو پھر اس کی اگلی نسل میں بھی اس مرض کے پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق درمیانے قد کی نسبت لمبے اور چھوٹے قد کی خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح زیادہ پائی گئی ہے (اس کی وجہ بھی تاحال سامنے نہیں آسکی ہے) نیز ایکس ریز، سی ٹی اسکیننگ اور ہامونل ری پلیسمنٹ تھراپی وغیرہ بھی مرض کی وجوہ میں شامل ہیں۔ فرینچ ماہرین کے مطابق ’’جو خواتین رات گئے تک کام کرتی ہیں، ان میں اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات عام خواتین کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں۔‘‘
بریسٹ کینسر اس وقت دنیا بھر میں خواتین میں تیزی سے پھیلنے والا مرض بن گیا ہے۔ صرف امریکہ میں آٹھ میں سے ایک خاتون اس مرض کا شکار ہے۔ اور کینسر کے مریضوں کا تناسب 12% ہے۔
ایک ویب سائٹ کے ذریعے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہر ایک لاکھ خواتین میں 21.5 خواتین اس کینسر کے ذریعے موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔
2012 میں ہندوستان میں 144,937 خواتین کو بریسٹ کینسر کا پتہ چلا۔ ان میں 70,218 کا انتقال ہوگیا۔ اس کامطلب ہے کہ بریسٹ کینسر کا شکار ہونے والی ہر دوسری عورت ہندوستان میں موت کا شکار ہو جاتی ہے۔ جب کہ ہندوستان کے مقابلے چین 187213 خواتین میں کینسر کا پتہ چلا 47984 کا ہی انتقال ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ چار میں سے ایک خاتون کا ہی اس مرض کے سبب انتقال ہوتا ہے۔
اس کا مطلب صاف ہے کہ ہمارے یہاں علاج و معالجہ کی سطح چین کے مقابلے میں بہت پست ہے۔ وہاں اس مرض کے سبب موت کا فیصد 25% ہے اور ہمارے یہاں 50% ہے۔
اگر اس مرض کا ممکنہ اور بروقت علاج نہ کیا جائے، تو یہ جسم کے دیگر اعضا خاص طور پر پھیپھڑوں، جلد، دماغ، ہڈیوں، جگر اور لمف نوڈز کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ عمومی طور پر بریسٹ کینسر چار مراحل پر مشتمل ہوتا ہے اور ان مراحل میں عام طو رپر جن علامات کو جانچا جاتا ہے، ان میں سرطان کا سائز، اس کا ناگوار یا غیر ناگوار ہونا، سرطان کی لمف نوڈز میں موجودگی اور اس کا بریسٹ کے علاوہ جسم کے دیگر حصوں میں سرایت کر جانا وغیرہ شامل ہیں۔ اگر پہلے مرحلے ہی میں مرض کی تشخیص ہوجائے، تو صحت یابی کے امکانات ۹۹ فی صد بڑھ جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہمارے جسم میں کرومو سوم نمبر ۱۷ پر BRCA-I اور BRCA-2 جینز پائے جاتے ہیں، جو کہ بریسٹ کے خلیوں اور جسم کے دوسرے ٹشوز میں پائے جانے والے ڈی این اے کی مرمت کا کام انجام دیتے ہیں۔اگر کسی وجہ سے ان خلیوں کا ڈی این اے تباہ یا غیر فعال ہوجائے، تو یہ جینز اس کی ازسر نو مرمت کر دیتے ہیں اور اگر یہ جینز خود کسی غیر خوش گوار تبدیلی (میونیشن) کا شکار ہوجائیں، تو پھر تباہ شدہ ڈی این اے والے خلیے کی مرمت کا کام رک جاتا ہے۔
در حقیقت یہی عمل بریسٹ کینسر کا سبب بنتا ہے۔ یاد رکھیے، جہاں متوازن غذا کا استعمال بریسٹ کینسر کے لاحق ہونے والے خطرے کو کم کرتا ہے تو ضرورت سے زائد میٹھے مشروبات اور باقاعدہ الکحول کا استعمال اس خطرے کو بڑھاوا بھی دیتا ہے۔ دوسری جانب موٹاپا بھی اس مرض کی اہم وجوہ میں سے ایک ہے۔ تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ جو خواتین غذا میں چکنائی کا استعمال زیادہ کرتی ہیں، ان میں بریسٹ کینسر کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر خواتین اپنی روز مرہ کی غذا سے بیس سے تیس فی صد چکنائی کم کردیں، تو ان میں سرطان کے امکانات بھی کم ہوسکتے ہیں۔ تاہم کسی بھی خاتون میں بریسٹ کینسر کا امکان اس وقت بڑھ جاتا ہے، جب بارہ سال سے کم عمر میں ماہ واری شروع ہوجائے۔ پہلا بچہ ۳۰ سال سے زائد عمر میں ہو، ۵۵ سال کی عمر میں ماہ واری کا نظام ختم ہوجائے یا پھر Mensinal Cycle کا دورانیہ ۲۶ یا ۲۹ دنوں سے کم یا زیادہ ہو۔
علاج کی بات کی جائے تو عام طو رپر بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کا علاج مختلف تھراپیز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔مثلاً ریڈیو تھراپی، بایو لوجیکل تھراپی، ہارمونل تھراپی اور کیمو تھراپی وغیرہ جب کہ بعض کیسز میں سرجری بھی کی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ کیرولینا گیلونگ اسکول آف گلوبل پبلک ہیلتھ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو خواتین باقاعدگی سے ورزش کرتی ہیں، وہ بریسٹ کینسر سے محفوظ رہتی ہیں۔ جسم کا مناسب وزن، متوازن غذا خاص طور پر مچھلی اور n3 saturated fatty acid کا استعمال بریسٹ کینسر کے امکانات کو کم کرتا ہے۔ اسی طرح یونی ورسٹی آف غرناطہ، اسپین کے ماہرین کی جرنل آف کیمیکل نرسنگ میں شائع کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم از کم چھے ماہ تک بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤں میں بریسٹ کینسر کا امکان نہ ہونے کے برابر ہو جاتا ہے، جب کہ تمباکو نوشی نہ کرنے والی خواتین بھی اس موذی مرض سے محفوظ رہتی ہیں۔
صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین باقاعدگی سے اپنا طبی معائنہ کروائیں، تاکہ سرطان کی شکل میں آنے والے خطرے کا مقابلہ کیا جاسکے۔lll