بنت حوا اور ابن آدم کی جنگ

سعید بن عبد الغفار

اسلام اور پوری دنیا میں خواتین کے حقوق پر بہت بحث کی جاتی ہے۔ اس بحث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ بحث دو طرفہ ہوکر لبرلز اور اسلام پسند طبقوں میں مقید ہوگئی ہے اور اس حوالے سے عموما جو باتیں کی جاتی ہیں وہ جذباتیت پر مبنی ہوتی ہیں۔

جو طبقات مغرب اور اس کی تہذیب سے متاثر ہیں، ان کو اسلام کے قوانین و حدود خواتین کے لیے مشقت سے پر، جبر و تشدد اور ظلم آمیز لگتے ہیں، جب کہ اسلام پسندوں کو لبرلز کی طرف سے خواتین کے لیے بے پناہ آزادی کے مطالبے میں ان کا استحصال نظر آتا ہے اور اس آزادی میں عورت کی عزت و آبرو کو مجروح محسوس کرتے ہیں۔

اگر ان دونوں طبقات کی سوچ سے ذرا ہٹ کر ایک عام انسان کی حیثیت سے غور و فکر کیا جائے تو ہمیں یہ طاقت اور کم زوری کا معاملہ لگتا ہے۔ عورت کو کم زور سمجھنے کی وجہ سے کچھ لوگ اسے بے پناہ آزادی کا لالچ دے کر اس کا حصول اور دستیابی آسان بناناچاہتے ہیں اور اپنے لامتناہی مفادات کے تابع رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، جب کہ کچھ دوسرے لوگ نام نہاد خود ساختہ رسوم و رواج پر اسلام کا لبادہ اور لیبل چسپاں کر کے اپنی طاقت اور ناجائز بالادستی کا اظہار چاہتے ہیں۔ یہ دونوں طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم آج تک عورت کو حوا کی بیٹی کہہ کر پکارتے ہیں اور اسے آدم کی طاقت سے دور کردیتے ہیں۔ حالاں کہ جتنا وہ حوا کی بیٹی ہے، اس سے کہیں زیادہ وہ آدم کی بیٹی ہے اور اس کے اندر آدم کا وہ خون ہے، جو اسے طاقت فراہم کرتا ہے، مگر ابن آدم کا استعارہ بنت حوا سے دوری اور اس کے ساتھ روا رکھے جانے والے برتاؤ کا سبب بتاتا ہے اور معاشرے کی مجموعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ غور کیجیے کہ ان الفاظ کا استعمال کر کے پرورش اور نگہداشت کی بھاری ذمے داری عورت کے حوالے کر کے مرد بے فکر ہو جاتے ہیں، جب وہ اپنی ذمے داری پوری طرح ادا کر کے نڈھال ہو جاتی ہے اور ایک ننھے منے وجود کو ایک ہستی اور ایک مکمل دنیا بنا دیتی ہے تو ملکیت اور تسلط کی ذہنیت لیے اس کی قسمت کا ذمے دار وہ خود بن جاتا ہے، بلکہ ہمارے معاشرے میں تو اس عورت سے، جس نے خون جگر اور رت جگوں سے پال پوس کر جس اولاد کو توانا اور جوان کیا ہوتا ہے، اس کے متعلق فیصلوں میں مشورہ کرنا بھی توہین سمجھا جاتا ہے۔ ظلم بالائے ظلم تو یہ ہے کہ معاشرے کے چال چلن، مقامی اور سماجی رسوم و رواج کو مذہب کی مقدس چادر چڑھا کر اسلام اور قوانین اسلام کی تقدیس کا مذاق بنایا جاتا ہے، بلکہ کچھ لوگ تو اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ یہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے سارے رسوم و رواج قرآن و حدیث سے ہی ماخوذ ہیں۔

اسی جہالت اور بے دینی کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک برائی آنر کلنگ یا عزت کے لیے قتل ہے، جسے اسلام سے جوڑ کر اس لیے دکھایا جاتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک میں یہ خاصی عام مانی جاتی ہے۔ کیوں کہ وہاں کی آبادی مسلم ہے اس لیے اس برائی کو بھی اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ مسلم سماج اور اسلام پر عمل کرنے والوں کے لیے تکلیف دہ ہے۔

قتل عزت جسے عرف عام میں Honor Killing کہا جاتا ہے، کو بھی اسلام سے جوڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ میڈیا افغانستان اور کئی دیگر مسلم ممالک کی ایسی تصویر بنا رہا ہے جسیجیسے لڑکیوں کو سماجی روایات سے بغاوت کے سبب مار ڈالنے کی روایت عام ہو۔ اور یہ معاملہ نمایاں کیا جاتا ہے ملالہ کے حوالے سے۔ لیکن جب اقوام متحدہ کے ذریعے فراہم کردہ اعداد و شمار پر نظر پڑتی ہے تو معاملہ مختلف نظر آتا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں آنر کلنگ سے جڑے چند حقائق کو۔

کہا جاتا ہے کہ آنر کلنگ کی شروعات یوروپ سے ہوتی ہے اور اس کا سب سے پہلا شکار خاتون تھیں Fadime sahindal۔ اقوام متحدہ کے ادارے U.N. Population fund کی سن ۲۰۰۰ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پانچ ہزار خواتین اس میں مار ڈالی گئیں۔ ان اعداد و شمار کے بارے میں اگرچہ لوگوں کا اختلاف ہے اور تخمینہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن ان اعداد و شمار کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان پانچ ہزار خواتین میں بیس فیصد تعداد ہندوستان سے اور بیس فیصد ہی پاکستان سے ہے۔

آنر کلنگ کی روایت کسی نہ کسی حد تک جن مسلم ممالک میں بتائی جاتی ہے ان میں جہاں مصر، ایران، عراق، افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک ہیں وہیں امریکہ، کناڈا، برطانیہ، سویڈن، اٹلی اور اسرائیل جیسے ترقی یافتہ سمجھے جانے والے ممالک بھی شامل ہیں۔ اس میں ایک پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے اور وہ یہ پہلو ہے کہ آنر کلنگ کا شکار صرف لڑکیاں ہی نہیں ہوتیں بلکہ لڑکے بھی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ہندوستانی معاشرے میں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ آنر کلنگ میں صرف خواتین یا لڑکیوں کے قتل کو ہی اجاگر کیا جاتا ہے اور لڑکوں کے قتل کو اس طرح نظر انداز کر دیا جاتا ہے جیسے وہ اس کا شکار ہی نہیں ہوتے۔

عالمی سطح پر نظر آنے والے ٹرینڈ سے ایک بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ آنر کلنگ کو لاکھ کوئی اسلام سے جوڑ کر پیش کرے مگر حقیقت میں وہ مذہب کے سبب نہیں بلکہ معاشروں کی روایت پرستی اور انانیت پرستی کے سبب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہندوستان جیسا ملک اس میدان میں ’قیادت‘ نہ کر رہا ہوتا۔ جب کہ اترپردیش اور ہریانہ کے جاٹ قبائل، آج بھی عورتوں کے معاملے میں بڑے نخوت پسند اور متکبر ثابت ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ یہ کیفیت انہی رہاستوں میں پائی جاتی ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان معاشروں میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہاں تو ایک نئی جنگ برپا ہونے کے قریب ہے اور یقینا ہونی چاہیے۔ اور وہ جنگ ہے خواتین کے ان حقوق کی بازیابی کے لیے جو شریعت نے تو دیے ہیں مگر سماج نے ہڑپ کر لیے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ کو مذہب سے جوڑنے والے طبقات بھی عورت کو اس کا آئینی، شرعی اور اخلاقی حق دینے سے کتراتے ہیں۔ (الا ماشاء اللہ)

ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے ان کے پاس کوئی جواز بھی موجود ہو، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادات سے لے کر سیر و تفریح، شادی بیاہ سے لے کر تعلقات اور تقریبات تک ہرچیز میں تفاوت اور تضاد دیکھ کر بنت آدم کی طرف سے ردعمل کا اظہار ایک فطری عمل ہے۔ کیا اسلام نے واقعی عورت کو قوانین کی جکڑ بندیوں میں اتنا قابو کیا ہے کہ اس کا دہلیز کے پار قدم رکھنا بھی حرام ہوگیا؟ کیا شریعت نے عورت کے گرد اتنی اونچی فصیل کھڑی کردی ہے کہ اس سے سر ٹکرا کر وہ جان تو دے سکتی ہے مگر اس سے باہر سانس لینا بھی غلطی شمار کی جائے گی۔

ظاہر ہے کہ اس طرح کی پابندیاں شریعت کے پیج پر تو موجود نہیں، مگر صنفی امتیاز کی بنیاد پر کئی پابندیاں صرف مردانگی اور طاقت کے اظہار کے لیے ہیں اور اس کے لیے مسلم معاشروں میں شریعت کے مخصوص احکامات اور تاویلات کا سہارا بھی لے لیا جاتا ہے جب کہ دیگر معاشروں میں جہاں یہ لعنت پائی جاتی ہے وہاں اسے مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا جاتا۔ اس کا سبب ذرائع ابلاغ اور ان کے پالیسی سازوں کی تعصب پر مبنی اور اسلم مخالف سوچ ہے جس کے سبب وہ ہر معاشرتی برائی میں اسلام کو گھسیٹنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس کے برعکس جب دوسرے معاشروں کی بات آتی ہے تو وہ محض قدامت پرستانہ روایت کہہ کر گزر جاتے ہیں۔

اس کایہ مطلب نہیں کہ مسلم معاشروں میں سب کچھ ٹھیک ہے اور وہاں پر خواتین کو وہ سب حقوق اور اختیارات حاصل ہیں جو اسلام نے دنیا دیے ہیں۔ اسلام کی جانب سے خواتین کے حقوق ایک طرف ہیں اور دوسری طرف وہ مسلم معاشرہ ہے جو عملاً ان کو وہ حقوق بھی دینے کے لیے تیار نہیں جو اسلام نے انہیں عطا کیے ہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اس حق تلفی کے لیے بھی اسلام ہی کا سہارا لے کر اسے بدنام کیا جاتا ہے۔

ایک چھوٹی سی مثال میں ذاتی تجربے سے شیئر کرتا ہوں۔میری چھوٹی بہن، جس کی عمر پندرہ برس ہے، رمضان المبارک کے روزے اور نماز تراویح ذوق و شوق سے ادا کرتی ہے۔ جب عید الفطر کا وقت ہوا تو ہم سب بھائی خوب تیار ہوکر رب کے حضور سجدہ ریز ہونے عیدگاہ روانہ ہوئے تو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر لاچاری اور بے چارگی سے کہنے لگی کہ بھائی روزے اور تراویح کا اہتمام تو ہم نے بھی کیا ہے، مگر یہ سجدہ شکر اور بذریعہ عبادت خوشی کا اظہار صرف مردوں کے لیے ہی کیوں؟ کیا اسلام نے ہمارے لیے کوئی حکم نازل نہیں فرمایا، جو ہم بھی آج اس کے دربار میں حاضری کے لیے جاسکیں۔ اب رہ رہ کر مجھے وہ ساری احادیث یاد آنے لگیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبیؐ کے ذریعے اس بڑے دن کو عورت و مرد کی تخصیص کیے بغیر منانے کا حکم دیا ہے، بلکہ نسوانیت کی فطرت کو دیکھ کر مخصوص ایام والی خواتین کو بھی عیدگاہ آنے کا حکم فرمایا ہے۔

اب اس بات کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ لبرلز کی طرح خواتین کے لیے برابر کے حقوق کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، مگر جس کام کی شریعت اور احادیث میں گنجائش اور رعایت موجود ہے، اس سے کسی کو فائدہ نہ دینا زیاتی ہے اور بغاوت پر آمادہ کرنے والی بات ہے۔ مقام حیرت تو یہ ہے کہ جن حجروں اور مکانوں سے ایسے فتاویٰ صادر ہوتے ہیں، ان کی اپنی خواتین خریداری اور کار تبلیغ یا اپنے دنیاوی مقاصد کے لیے گھر سے خوب باہر جاتی ہیں، مگر انہیں عبادت کے لیے مساجد میں جگہ دینے کو ہمارا معاشرہ تیار نہیں۔ رسوم و رواج نے شریعت اور خاندانی وقار نے رسولؐ سے علیٰ مرتبہ حاصل کرلیا ہے۔ یہ اسی نفسیات کے پیدا کردہ مسائل ہیں، جو ابن آدم نے بنت حوا کا استعارہ استعمال کر کے اپنی آدمیت کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کے لیے (Feminism) کی تحریک چلا کر اسے بولڈ اور بے باک بنانے کی سعی کی تاکہ اس کی صلاحیتوں اور مہارتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ غور کریں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ جہاں سے صنفی تقسیم کی ابتدا ہوتی ہے، وہاں سے عورت کا تماشا بننا شروع ہو جاتا ہے اور اسے مزید تذلیل کا سامان بنایا جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال دوران حمل چھٹی، الاؤنسز اور دیگر معاملات ہیں، جو اس وقت کاروباری دنیا میں زیر بحث ہیں۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جن ممالک نے خواتین کو برابری کے حقوق دلانے کا بیڑا سر پہ اٹھایا ہے وہاں پر بھی مرد حضرات خواتین سے زیادہ تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ مغربی دنیا سے ہٹ کر ہمیں اپنے معاشرے کو دیکھنا ضروری ہے اور جائز شکایات کو رفع کرنا بھی توجہ طلب ہے، کیوں کہ وقت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے مطابق بحیثیت انسان اور بنت آدم عورت کے ساتھ روا رویہ نہ بدلا تو ہمارے معاشرے کا یہ تضاد بہت سے نئے گل کھلا سکتا ہے بلکہ ہم تو یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ٓج کا مسلم سماج عملی طور پر اپنی عورت کو وہ تمام حقوق خوش دلی سے دے دے جو اسلام نے دیے ہیں تو ہمارا معاشرہ دنیا کے لیے مثال بن جائے۔

ہماراتو مسئلہ ہی یہ ہے کہ خواتین کے سلسلے میں ہم حوالہ تو دیتے ہیں اسلام کا اور جب اس اسلام کو عملاً معاشروں میں تلاش کیا جاتا ہے تو کہیں نظر نہیں آتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور کی پڑھی لکھی خواتین کا خاصا طبقہ مغرب کے طرزِ حیات و طرزِ فکر سے مرعوب ہوکر اسلام سے بغاوت بھلے ہی نہ کرے مگر عملاً اسے برتنے کے لیے تیار نہیں ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں