بچوں پر طلاق کے اثرات اور ان کا تحفظ

ڈاکٹر نازنین سعادت (حیدر آباد)

مسلم شریف کی حدیث کے مطابق آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان مردود سب سے زیادہ اُس چیلہ سے خوش ہوتا ہے جو میاں بیوی کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کا اثر صرف میاں بیوی پر نہیں پڑتا، پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔

بچوں پر طلاق کے فوری اور دیرپا اثرات

طلاق کا سب سے زیادہ نقصان دہ اور دیر پا اثر معصوم بچوں پر پڑتا ہے۔اس سے ان کی زندگی میں بہت بڑی محرومی پیدا ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالی نے انسانی زندگی کا نظام ہی کچھ ایسا بنایا ہے کہ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کے ڈیولپمنٹ میں دونوں کا اپنا اپنا رول ہوتا ہے۔ ماں کا پیار باپ، یا کوئی بھی اور ،نہیں دے سکتا اور اسی طرح باپ کا شفیق سایہ ماں نہیں دے سکتی۔ بچوں کو نہ صرف ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ایسے ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے گہری محبت کرتے ہوں۔ ان کی باہم محبت کا اثر بچوں پر بھی پڑتا ہے۔ اس لئے بچوں کی پرورش کے لئے مثالی اور فطری ماحول یہ ہوتا ہے کہ، ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے والے ماں باپ ان کے ساتھ رہیں اور مل کر ان سے بھی محبت کریں۔ انہیں ماں باپ میں سے ہر ایک کی محبت بھی درکار ہوتی ہے اور اُس خوب صورت ٹیم یا جوڑے کی مشترکہ محبت بھی درکار ہوتی ہے جو دونوں مل کر بناتے ہیں۔اسی فطری ماحول میں بچوں کی شخصیتیں صحت مند خطوط پر پروان چڑھتی ہیں۔ جو ماں باپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے جھگڑتے ہیں یا معمولی انا کے مسئلوں کو لے کر ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں،وہ سب سے زیادہ معصوم بچوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ ان کے بچپن کے خوشگوار اور پر مسرت دور کو زہر آلود کردیتے ہیں اور زندگی کے بالکل آغاز ہی میں، ان کی زندگی کا مزہ کرکرا کردیتے ہیں۔

طلاق کا فوری اثر تو یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے اندر اپنی ماں یا باپ کو کھونے کا شدید احساس پید اہوتا ہے۔ وہ شدید تنائو کا شکارہوجاتے ہیں۔وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے۔ بہت سے بچوں کا تعلیمی گراف اس کے بعد تیزی سے گرنا شروع ہوتا ہے اور بسا اوقات پھر بحال نہیں ہوپاتا۔ بہت سے بچے ماں پاب کے درمیان دوری کے لئے خود کو ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ احساس جرم ان کے اندر منفی رجحانات پیدا کرتا ہے۔ وہ رات میں گھبرا کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔ بہت سے بچوں کا موڈ بدل جاتا ہے۔ وہ تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔ سماج سے خود کا تعلق توڑ لیتے ہیں۔کچھ بچے شدید غم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ زندگی میں مزہ لینا چھوڑدیتے ہیں۔ ناامیدی، مایوسی، اور منفی سوچ کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اُن کا،دنیا کو دیکھنے کا زاویہ ہی منفی ہوجاتا ہے۔

ان فوری اثرات کا نوٹس نہیں لیا گیا تو یہ اثرات معصوم بچہ کے مزاج اور نفسیات پر دیر پا اثرات مرتب کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسے بچوں کا غصہ پر قابو نہیں رہتا۔ ساری دنیا سے وہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ معمولی باتوں پر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ انتہائی صورتوں میں ایسے بچے سماج دشمن متشدد عناصر کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ کچھ بچوں کے لاشعور پر ماں باپ کے تنازعات اور جدائی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی تعلقات میں محبت اور اعتماد کی قدروں پر بھروسہ کرنا چھوڑدیتے ہیں۔ نہ وہ کسی سے محبت کرپاتے ہیں اور نہ کسی کی محبت کی قدر یا اس پر اعتماد کرپاتے ہیں۔ ایسے بچے خود بھی مستقبل میں خوشگوار ازدواجی زندگی کے لائق نہیں رہتے۔ امریکہ میں کئے گئے سروے کے مطابق طلاق یافتہ والدین کی بیٹیوں میں طلاق کی شرح دیگر عورتوں کے مقابلہ میں۶۰ فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے بچے ڈرگس وغیرہ کے زیادہ آسانی سے شکار ہوتے ہیں۔ بعض بچوں میں مستقل نفسیاتی امراض جیسے ڈپریشن یا بی پی ڈی Bipolar Disorder وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ مستقل ڈپریشن ان کے اندر بلڈ پریشر، ذیا بیطس وغیرہ جیسے جسمانی امراض کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ ان بچوں کی تعلیم پر دیر پا اثرات تو بہت عام ہیں ۔ وہ تعلیم پر دھیان نہیںدے پاتے۔ زندگی کی امنگ اور کچھ کر گذرنے کا حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم اور کیریر میں بھی پیچھے ہٹنا شروع کرتے ہیں اور اس کا اثر ان کے مستقبل پر پڑتا ہے۔

اس طرح طلاق دینے یا لینے سے پہلے شوہر اور بیوی کو ان سب اثرات کا اندازہ کرنا چاہیے۔ ثالثی کرنے والوں اور کونسلر کی ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر اور بیوی کو ان سب باتوں سے آگاہ کرے اور ان کو احساس دلائے کہ وہ کتنا بڑا فیصلہ کرنے جارہے ہیں اور اس کے کتنے دیر پا اثرات ان کے بچوں پر پڑسکتے ہیں۔ طلاق کا اثر پورے سماج پر پڑتا ہے۔ اس لئے سماج کو بھی اس کی فکر کرنی چاہیے۔ اور یہ پورے سماج کی ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر اور بیوی کے اختلافات کو ختم کرکے دوبارہ خوشگوار زندگی شروع کرنے میں ان کی مدد کرے۔ طلاق کو تو، آخری صورت میں اختیار کرنا چاہیے جب ساری کوششیں ناکام ہوجائیں۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اوپر جو نقصانات بتائے گئے ہیں، وہ صرف طلاق یافتہ ماں باپ کے بچوں کو درپیش نہیں ہوتے بلکہ اُن ماں باپ کے بچوں کو بھی ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کے درمیان ہمیشہ سخت تنائو، گالی گلوچ اور مار پیٹ کی صورت حال رہتی ہے۔ ماں باپ کے درمیان تکلیف دہ تعلقات Abusive Relationship بچوں کے حق میں طلاق سے زیادہ نقصاندہ ہوتے ہیں۔ طلاق کے بعد، اس کے اثرات سے بچانے کے لئے کچھ نہ کچھ تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں لیکن اگر بچوں کی ساری عمر ماںباپ کے درمیان شدید نوعیت کی ناچاقی اور جھگڑوں کو دیکھتے ہوئے گذر جائے تو اس کا مداوا بہت مشکل ہوتا ہے۔اسی لئے اسلام نے طلاق کا آپشن رکھا ہے کہ اگر تعلقات کی بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے تو اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو دوزخ بنانے سے بہتر ہے کہ دونوں الگ ہوجائیں۔

بہر حال وجہ جو بھی ہو، اگر طلاق ہو ہی جائے، تو ا ب ماں باپ کی اور ان کے خاندانوں کی بلکہ پورے سماج کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو بھی اور اپنے بچوں کو بھی اس کے مضر اثرات سے بچانے کی فکر کریں۔ مغربی ملکوں میں اس کے لئے تربیت یافتہ کونسلروں اور ماہرین نفسیات کی مدد لی جاتی ہے۔ اس کا انتظام ہمارے ملک اور ہمارے سماج میں بھی ہونا چاہیے۔وہ موجود نہ ہوں تو خاندان کے بزرگوں اور سماج کے ذمہ دار لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پورے شعور اور ذمہ داری کے ساتھ ان کی مدد کریں اور انہیں صحیح مشورے دیں۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ زندگی ہے۔ ہر معاملہ کی طرح اس معاملہ میں بھی اسلامی شریعت نے بہت واضح احکام دیئے ہیں۔یہ احکام ہمارے خالق و مالک نے ہمارے مزاج اور نفیسات کو ملحوظ رکھ کر ہمارے ہی فائدہ کے لئے دیئے ہیں۔ جو لوگ کونسلنگ کا یا طلاق لینے والے جوڑے کو مشورے دینے کا کام کریں انہیں اس ضمن میں اسلامی احکام سے بھی واقف ہونا چاہیے۔ اور جدید نفسیات کے اصولوں اور تکنیکوں سے بھی۔

مختلف عمرکے بچوں پر طلاق کے اثرات

ہر عمر کے بچوں کے شعور اور جذبات کی سطح مختلف ہوتی ہے اورہر عمر کی نفسیات بھی مختلف ہوتی ہے۔ اس لئے ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ان کی عمر کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر گھر میں الگ الگ عمر کے کئی بچے ہوں تو ان سب سے ان کی عمر کے لحاظ سے الگ الگ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ اور ماں کا یا باپ کا رویہ ایسا ہونا چاہیے جو ان سب بچوں کی ضرورت کے مطابق ہو۔

پانچ سال سے کم عمر کے بچے طلاق جیسے پیچیدہ معاملہ کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔البتہ ماں باپ لڑتے جھگڑتے ہوں یا طلاق کے بعد ماں یا باپ بہت افسردہ اور ہر دم روتے یا چیخ پکار کرتے رہے تو بچہ کا لاشعور اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ ایسے بچوں کے والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ممکنہ حد تک بچہ کو مطمئن اور نارمل نظر آئیں۔اس عمر کے بچہ کا انحصار بہت زیادہ اپنے والدین پر ہوتا ہے۔ خصوصاً ماں پر تو وہ اپنی زندگی کی ہر ضرورت کے لئے منحصر ہوتا ہے۔ اگر ماں دور ہوجائے تو اس کاا ثر اس کے لاشعور پر بہت گہرا ہوسکتا ہے۔ باپ کی جدائی کا بھی اثر ہوسکتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ باپ نے اسے چھوڑدیا۔ اس کا حل یہی ہے کہ اس کے روٹین کو کم سے کم ڈسٹرب کیا جائے۔ اور طلاق کے بعد بھی باپ اس سے برابر ملتا رہے۔ اس کو باپ کے گلے لگنے ، اس کو پیار کرنے وغیرہ کے مواقع معمول کے مطابق ملتے رہیں۔اگر ان بچوں کے مزاج میں اچانک تبدیلی واقع ہوجائے، ان کا ڈیولپمنٹ رک جائے یا پیچھے ہوجائے(مثلاً وہ پھر سے انگوٹھا چوسنا شروع کردیں یا خود سے باتھ روم جانا بند کردیں) رات میں بار بار اٹھنے لگیںیا اچانک چڑچڑے ہوجائیں تو یہ گہرے نفسیاتی اثر کی علامات ہوسکتی ہیں۔ ایسی صورت میں کسی ماہر نفسیات کی مدد لینی چاہیے۔

چھ سے آٹھ سال کے بچے، سوچنا اور اپنے جذبات کا اظہار کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسے بچوں کو آسان طریقہ سے لیکن صاف صاف بتایئے کہ کیا ہورہا ہے؟ ماں یا باپ ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بغیر صرف اس بات کی وضاحت کردیں کہ اب وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہورہے ہیں لیکن بچہ سے الگ نہیں ہورہے۔ اس کو ان کی محبت پہلے کی طرح ملتی رہے گی۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ اس سے سنیں اور اسکے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

نو سال سے گیارہ سال کے بچے چیزوں کو سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ماں اور باپ کے درمیان شدید تنائو ہے۔ ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو وہ قصوروار ٹہرانا شروع کردیتے ہیں۔لیکن ان کا لاشعور فیصلہ کرنے کے لئے معلومات آپ کے رویوں ہی سے حاصل کرتا ہے۔ اس لئے اگرماں باپ، ان کی خود اعتمادی اور عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے کی برائی کرنے سے بچنا چاہیے۔ یہ بچے طلاق کے بعد مستقل ماں باپ کے دوبارہ ملاپ کے خواب دیکھتے ہیں۔ خود کو قصوروار بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے اور اب یہ تبدیلی مستقل ہے۔ ماں باپ دوبارہ نہیں مل سکتے۔

بارہ سال کی عمر کے بعد بچہ کے اندر آزادانہ سوچنے کی صلاحیت شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے بچے سوالات کرتے ہیں۔ماں باپ کے رویوں پر تنقید بھی کرسکتے ہیں۔ دونوں کو یا کسی ایک کو قصوروار ٹہراتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرسکتے ہیں۔ اس عمر سے، گھر کے باہر تعلقات پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور بچے دوستوں کے حلقوں میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایک اثر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ گھر میں رہنا کم کردیں اور باہر سکون اور محبت تلاش کرنا شروع کردیں۔ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مجھے نہ تمہاری ضرورت ہے اور نہ تمہارے مسئلوں سے کوئی سروکار۔ لیکن اندرونی طور پر وہ بھی شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں سے کھلے ماحول میں اور پیار کے ساتھ، ان کے جذبات کی رعایت کرتے ہوئے اور ان کی بدتمیزیوں کو گوارا کرتے ہوئے بات کرنا اور ان کے اعتماد کو جیتنا ضروری ہوتا ہے۔

چودہ سال سے زیادہ کی عمر یعنی ٹین ایج نفسیاتی لحاظ سے سب سے مشکل عمر ہوتی ہے۔ عام حالات میں بھی اس عمر کے بچوں کی تربیت سب سے مشکل کام ہے۔ طلاق کے اثرات کے معاملہ میں بھی اس عمر کے بچوں کا مسئلہ سب سے زیادہ شدید اور واضح ہوتا ہے۔ وہ اپنے مستقبل کو لے کر پریشان ہوجاتے ہیں۔ ڈپریشن اور تنائو کا شکار ہوجاتے ہیں۔ والد یا والدہ، جو اس سے دور ہوگیا، اس کے بارے میں سوچتے ہیں کہ اب اس کو اس سے محبت نہیں رہی۔ گھر سے نکلتے ہیں تو یہ خوف انہیں ستاتا ہے کہ کہیں واپس آنے پر گھر ان سے چھین نہ لیا جائے۔ والدین کے سلسلہ میں یا کسی ایک کے سلسلہ میں انتہائی شدید منفی تصورات پیدا ہونے لگتے ہیں۔

اس نفسیاتی دبائو کے نتیجہ میں ان کے اندر جارحیت بڑھ سکتی ہے۔ ڈرگس یا نشہ کی عادت لگ سکتی ہے۔ وہ گھر سے فرار ہوسکتے ہیں۔اگر ان کے اسکول کی پرفارمنس متاثر ہورہی ہو، روز مرہ کی سرگرمیوں میں ان کی دلچسپی کم ہورہی ہو، وہ خاموش خاموش رہنے لگے ہوں، یا خود کو نقصان پہنچانے والے کام کرنے لگے ہوں تو فوری ماہر نفسیات کی مدد لینی چاہیے۔

محفوظ رکھنے کی تدابیر

طلا ق سے پہلے یا اس کے بعد بچوں کے سلسلہ میں ماں باپ کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، اس کے سلسلہ میںکچھ مشورے نیچے درج کئے جارہے ہیں۔ان مشوروں پر عمل ہو تو اس کا امکان ہے کہ بچوں پر طلاق کے مضر اثرات کم سے کم ہوں گے اور وہ بھی دیگر بچوں کی طرح نارمل زندگی گذارسکیں گے۔طلاق لینے والے ماں باپ کو ان باتوں کی ضروری تربیت دی جانی چاہیے۔

۱۔ بچوں کو طلاق کے بارے میں قبل از وقت بتائیں۔ یہ نفسیات کا بنیادی اصول ہے کہ اچانک پہنچنے والے صدمہ کا نفسیاتی نقصان زیادہ ہوتا ہے۔کسی حادثہ میں اچانک مرنے والے جوان آدمی کے اعزہ کو جو صدمہ پہنچتا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو ایک کینسر کے مریض کی اندیشہ کے مطابق موت سے ہوتا ہے۔اس لئے بچوں کو پہلے ہی سے بتایا جائے کہ اب ان کے امی ابوایک دوسرے سے جدا ہورہے ہیں۔ یہ بات ماں بھی پیار اور محبت سے سمجھا کر بتائے اور باپ بھی بتائے۔ ان کو یہ بھی ذہن نشین کرایا جائے کہ اس دوری کا سبب وہ یعنی بچہ نہیں ہے اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ماں باپ کی یہ بھی کوشش ہونی چاہیے کہ یہ خبر دیتے ہوئے ایک دوسرے کی برائی نہ کریں اور نہ ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹہرائیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ لیکن بچوں کے مستقبل کے لئے ماں باپ کو کم سے کم یہ مشکل ضرور برداشت کرنی چاہیے اور اس کی تربیت ان کو دی جانی چاہیے۔

۲۔ بچہ کی کسٹڈی کو لے کر جھگڑوں اور مقدمہ بازیوں سے بچیں: یہ بچہ کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ چیز ہوتی ہے۔ وہ اگر ماں باپ کے درمیان تنازعہ کے لئے خود کو ذمہ دار سمجھنے لگے تو یہ احساس اس کی شخصیت کو تباہ کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد ماں باپ بچہ کی کسٹڈی کے لئے جھگڑے شروع کردیتے ہیں۔ اور بچہ کو لے کر مار پیٹ، مقدمہ اور پولیس ،ان سب کی نوبت آجاتی ہے۔بچہ دونوں کے درمیان فٹ بال بنا رہتا ہے اور اس دوران ایسی نفسیاتی کیفیتوں سے گذرتا ہے جو اس کی خود اعتمادی، عزت نفس اور زندگی کے جوش اور امنگ کو بری طرح مسل کر رکھ دیتی ہیں۔ کاش کہ ماں باپ سمجھیں کہ ایسا کرکے وہ اپنے بچہ پر کتنا بڑا اور ناقابل تلافی ظلم ڈھارہے ہیں۔ یہ اسلام کی تعلیم سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے اس سلسلہ میں بہت واضح تعلیم دی ہے۔ حضانت (یعنی بچہ کی کسٹڈی یا تربیت) کے احکام فقہ کی ہر کتاب میں مل جاتے ہیں۔ شریعت نے چھوٹے بچوں یعنی سات سال سے کم عمر لڑکوں یا نابالغ لڑکیوں کی حضانت کے لئے عورتوں کو ترجیح دی ہے۔ یہ ماں کا حق ہے اور ماں نہ ہو تو اس کے بعد نانی، پھر دادی، پھر بہن اور پھر خالہ کا حق ہے۔ بچہ کی کفالت کا خرچ اس کے باپ کے ذمہ ہے۔ ان معاملات میں بض فقہی اختلافات بھی ہیں۔ یہاں فقہی مسائل بیان کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا پیش نظر ہے کہ اس سلسلہ میں واضح احکام شریعت نے دیئے ہیں۔اور ایک مسلمان کے لئے اس مسئلہ پر کسی تنازعہ کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔ شریعت کے احکام کی پابندی کی جائے گی تو ایسے جھگڑوں کی نوبت ہی نہیں آئے گی جو بچہ پر برا اثر ڈالتے ہیں۔

۳۔ بچہ کو ماں اور باپ دونوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملے۔ اگر بچہ ماں کے پاس رہ رہا ہو تب بھی اسے باپ کے ساتھ بھی وقت گذارنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ماں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ بچہ کا حق بھی ہے اور اس کی شدید نفسیاتی ضرورت بھی۔ باپ کے سایہ شفقت سے وہ محروم رہے گا تو اس کی شخصیت پر اس کا اثر پڑے گا۔ طلاق سے شوہر اور بیوی کا آپسی رشتہ ختم ہوا ہے۔نہ باپ بیٹے کا رشتہ ختم ہوا ہے اور نہ ماں بیٹے کا۔ باپ کی زندگی میں، اپنے بیٹے کو یتیمی کی زندگی پر مجبور کرنے والی ماں کوئی اچھی ماں نہیں ہوسکتی۔باپ (یا ماں) سے ملاقات اور اس کے ساتھ وقت گذاری کے لئے باقاعدہ شیڈول اور اصول طئے کئے جاسکتے ہیں۔ باپ کو یہ حق بھی ملنا چاہیے کہ وہ بچہ کو تحفے دے، اسے کھلائے پلائے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو۔اگر بچہ باپ سے ملنے گیا ہے تو ماں کو ہرگز یہ ظاہر نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے اسے دکھ ہوا ہے۔ اگر ماں باپ، ایک دوسرے سے ملنے پر بچہ سے ناراض ہوجائیں یا بچہ کو لگے کہ یہ ملاقات ماں یا باپ کو پسند نہیں ہے تو اس کا اثر بھی بچہ پر بہت برا پڑتا ہے۔

اسلام نے بھی اس کو ضروری قراردیا ہے کہ طلاق کے بعد بھی بچہ کو ماں اور باپ دونوں کے ساتھ وقت گزارنے کا اور ان کی محبتوں اور شفقتوں سے فیض اٹھانے کا موقع ملتا رہے۔حضانت (ماں کے ذمہ) اور کفالت (باپ کے ذمہ) کی تقسیم کار کے ذریعہ اسلام نے اس کاموثر انتظام کیا ہے کہ بچہ کا تعلق دونوں سے ہمیشہ برقرار رہے۔

۴۔ ماں باپ ایک دوسرے کی برائی نہ کریں او ر نہ ایک دوسرے کی شخصیتوں کو بچہ کی نظروں میں مجروح ہونے دیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے سے جدائی، عام طور پر شدید تنازعہ، لڑائی اور انا کے ٹکرائو کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں اکثر عقل اندھی ہوجاتی ہے۔ دوسری پارٹی کی کوئی خوبی دکھائی نہیں دیتی اور وہ سراسرشر لگتا یا لگتی ہے۔ اس ماحول میں یہ بہت مشکل ہے کہ ایک دوسرے کی برائی بیان کرنے سے خود کو روکا جائے۔ لیکن یہ بھی بچہ کی بڑی ضرورت ہے۔ سابقہ شوہر کی حیثیت عورت کے لئے تو ایک ایسے ناپسندیدہ مرد کی ہے جس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکا۔ لیکن اس کے بچہ کے لئے وہ بہر حال اس کا باپ ہے، جس کے اثرات وہ ہر حال میں قبول کرے گا۔ اگر باپ کی بہت خراب تصویر بچہ کے لاشعور میں بیٹھ جائے تو وہ ایک خراب انسان کے بیٹے کے طور پر ہی پرورش پائے گا۔ ان خرابیوں کو، جن کا صحیح یا غلط طور پر ،متواتر ذکر ہورہا ہے، اس کا لاشعور موروثی خرابیوں کے طور پر قبول کرے گا اور باپ کی اتباع میں یہ درست یا فرضی خرابیاں اس کی شخصیت کا جز بنیں گی۔ باپ سے نفرت یا اس کے بارے میں لاشعور میں غلط تصویرکسی بھی بچہ کی نفسیات پر کوئی اچھا اثر نہیں چھوڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کو تاریخ میں ایسی عظیم عورتوں کے واقعات بھی ملتے ہیں جنہوں نے زندگی بھر اپنے ظالم، وحشی، لٹیرے، شرابی یا عادی مجرم شوہر کی خرابیوں کو اپنے بچوں سے چھپائے رکھا۔اور کوشش کی کہ ان خرابیوں کا کوئی اثر ان کے بچوں پر نہ پڑے۔ بچے اپنے باپ کے اچھے پہلووں کو تو جانیں لیکن خراب پہلو ان کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہیں۔

یہی معاملہ شوہر کا بھی ہے۔ وہ اگر اپنی مطلقہ کے تئیں نفرت اپنے بچوں میں پیدا کرتا ہے تو دراصل ان کے اندر اپنی ماں سے نفرت پیدا کرتا ہے اور قطع نظر اس کے کہ ایسی نفرت کی بنیادیں صحیح ہیںیا غلط ، ماں سے نفرت بذات خود ایک برائی اور ایک نفسیاتی عیب ہے اور بہت سے نفسیاتی عوارض کا سبب بھی۔

اس لئے ماں باپ کو یہ سمجھایا جائے کہ اب ان کا رشتہ ختم ہوگیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں۔ ایک دوسرے کی برائی سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ ان کے بچوں کا بہت کچھ چھن جائے گا۔

۵۔ بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعمیری اور صالح سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے۔ ان کو اچھی صحبت فراہم کی جائے۔ ان کے جذبات کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے۔ یہ ضرورت تمام بچوں کی ہے ۔ لیکن چوںکہ والدین کی جدائی کے صدمہ کی وجہ سے طلاق یافتہ والدین کے بچے زیادہ حساس اور زیادہ نازک طبع ہوجاتے ہیں اس لئے ان کے سلسلہ میں ان باتوں کا زیادہ توجہ کے ساتھ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں