بچوں کا شرمیلا پن اور والدین کا رول

رخسانہ بشیر

میری گڑیاتو بہت شرمیلی ہے۔

’’میرا بچہ تو انتہائی شریف ہے۔ جہاں بٹھاؤ وہیں بیٹھا رہتا ہے جب تک اٹھنے کو نہ کہو۔‘‘

’’میرا چھوٹا بیٹا بڑا شیطان ہے مجال ہے جو اسے ذرا چین ہو، لیکن بڑا بیٹا بہت معصوم، بھولا بھالا اور شرمیلا ہے۔ ذرا تنگ نہیں کرتا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ یہ اور اس طرح کے بہت سے دیگر فقرے اکثر آپ کی سماعتوں کو چھوتے رہتے ہوں گے۔ دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ بعض والدین جہاں ہوشیار، چالاک، بے باک اور مستعد بچوں کی شرارتوں اور سرگرمیوں سے نالاں دکھائی دیتے ہیں وہاں خاموشی، ہچکچاہٹ کے شکار، شرمیلے اور ڈرے سہمے بچے کی وجہ سے قدرے سکون محسوس کرتے ہیں اور یقینا یہ درست رویہ نہیں ہے۔ بچوں کے حوالے سے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو ہمیں بہت سے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ذہین، حاضر جواب، بااعتماد، ہوشیار اور چست بچے والدین اور اساتذہ کی تھوڑی سی راہ نمائی سے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں گے جب کہ حد سے زیادہ شرمیلے بچے ہر کام پر والدین کے محتاج اور ان کی توجہ کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ جب انھیں مناسب توجہ اور رہ نمائی نہیں ملتی تو وہ بہت سے معاشرتی، نفسیاتی، ذہنی اور جسمانی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

آج ہم انھی بچوں کے مسائل اور حل کے حوالے سے بات کریں گے۔ شرمیلا پن خواہ بچوں میں ہو یا نوجوانوں میں، بچوں اور والدین دونوں کے لیے بہت زیادہ الجھن مصیبت، دباؤ اور افسوس کا باعث بن سکتا ہے۔ تقریبات وغیرہ میں آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ کچھ شرمیلے بچے اپنے والدین کی انگلی تھامے یا اپنی والدہ کے دو پٹے کا پلو پکڑے ان کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔ کہیں مہمان جائیں تو بھی ماں کے پہلو میں دبکے رہتے ہیں، بہ نسبت ان بااعتماد بچوں کے جو مزے سے اپنے دوستوں اور عم زادوں کے ساتھ ادھر ادھر گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بچے کم اعتمادی اور شرمیلے پن کے باعث بولتے نہیں بلکہ منمناتے ہیں حتی کہ اکثر استانیاں ان شرمیلے بچوں کو اونچا بلوانے پر خود کو بے بس محسوس کرتی ہیں۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ حجاب اور شرمیلا پن بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں، کارکردگی اور دانش مندی کے مظہر تجسس کو بہت حد تک محدود کر دیتا ہے، کیوں کہ ایسے بچے اپنے ہم جماعتوں کے سامنے سوال کرنے سے کتراتے ہیں اور شبہات کی وضاحت سے خوف زدہ رہتے ہیں اور یوں بہت سی باتیں، ذہن میں ابھرتے سوال ان کے لیے ہمیشہ مبہم ہی رہتے ہیں۔ یہی رویہ ان کے سیکھنے کی رفتار کو سست بنا دیتا ہے۔

بچوں کا انجان لوگوں میں خود کو بے آرام محسوس کرنا یا مجمعے کے سامنے بولتے ہوئے قدرے گھبرانا تو ایک عام سی بات ہے لیکن اس شرمیلے پن کی وجہ سے انہیں ہم جماعتوں،دوستوں، رشتے داروں اور دیگر بچوں کے سامنے بولنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ممکن ہے اس رویے کے پیچھے کوئی نفسیاتی گرہ ہو، کوئی حیاتیاتی یا جسمانی وجہ ہو۔ اس کی وجہ بچے پر حد سے زیادہ سختی یا دباؤ، زندگی کا کوئی تلخ واقعہ، گھر یا اسکول میں کسی کا جارحانہ رویہ، اسکول کا پریشان کن ماحول یا بچوں کی حد سے بڑھی ہوئی حساسیت بھی ہوسکتی ہے۔

وجہ خواہ کچھ بھی ہو اگر اس کا بروقت سراغ لگا کر سد بات نہ کیا جائے تو بچے کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور یہ شرمیلا پن بڑھتے بڑھتے اس کی زندگی میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے۔

بچوں کے اس مسئلے سے کیسے نمٹائے جائے؟ یہ سوال بہت اہم ہے اور یقینا اس وقت بہت سے ذہنوں میں ابھر رہا ہوگا، تو آئیے اس سلسلے میں ہم آپ کی مدد کرتے ہیں۔

ایسے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیے۔ انھیں وقت دیجیے اور سماجی اور معاشرتی تعلقات بنانے اور بڑھانے کے گر بتائیے۔ دوسروں سے گفتگو کا سلیقہ اور طریقہ سکھائیے۔ ان کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کا نہ صرف انھیں احساس دلائیے بلکہ اپنے آپ کو قبول کرانے اور پھر منوانے کا فن بھی بتائیے۔

بچوں کی شرماہٹ اور حجاب دور کرنے کا ایک نسخہ یہ بھی ہے کہ جماعت میں تمام بچوں، خواہ وہ شرمیلے ہوں یا بااعتماد، ان کے گروہ بنادیے جائیں اور ہر بچے کے لیے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ دوستی کلب کارکن بھی بنے اور پھر انفرادی اور اجتماعی ہر دو طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی اور مثبت رویے سے بچے میں مزید آگے بڑھنے کا رجحان اور اعتماد پیدا ہوگا اور یوں اس کی شرماہٹ اور ہچکچاہٹ ختم ہوجائے گی۔

بچوں میں شرمیلا پن اور ہچکچاہٹ دور کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انھیں رابطے کی مہارتیں سکھائی جائیں انہیں بتایا جائے کہ :

٭ آپ اپنا تعارف کیسے کروا سکتے ہیں اور دوسروں کا تعارف حاصل کرنے کے لیے آپ کو کس قسم کے سوال کرنے چاہئیں۔

٭ کمرۂ جماعت میں آپ کیسے مدلل انداز اختیار کرسکتے ہیں؟

٭ نصابی کتب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ مفید غیر نصابی کتب کا مطالعہ کیسے آپ کے علم، معلومات اور ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کر کے آپ کو دیگر طلبہ میں نمایاں کر سکتا ہے۔

٭ مل جل کر کام کرنے کی اہمیت کیا ہے؟ دوسروں کے ساتھ کام کر کے آپ کیسے بہت سی مفید مہارتیں سیکھ سکتے ہیں۔

٭ زیادہ لوگوں کے سامنے اپنی صلاحیتوں اور فن کا مظاہرہ کر کے آپ کیسے اعتماد کی دولت سے مالا مال ہوسکتے ہیں؟

ضروری ہے کہ مختلف مثالوں، مشقوں اور چھوٹے چھوٹے خاکوں کے ذریعے ایسے شرمیلے بچوں کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کواجاگر کرنے کیلیے مناسب جگہ مہیا کی جائے۔

لیکن یہاں ہمیں بچوں کی عمر کا وہ دور فراموش نہیں کرنا چاہیے جب وہ بچپن سے نو عمری میں داخل ہو رہے ہیں۔ جسم میں ہونے والی مختلف تبدیلیوں کے باعث بہت سے بااعتماد بچے بھی اپنے آپ میں سمٹنے لگتے ہیں اور ذہنی نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔وہ ان تبدیلیوں کو قبول نہیں کر پاتے اور نہ ہی والدین سے اظہار کرنے کی ہمت پاتے ہیںـ۔ایسے میں والدین کا فرض ہے کہ وہ خود سے بچوں کی مناسب رہ نمائی کریں تاکہ وہ شرمیلے پن سے چھٹکارا پاکر زندگی کے میدان میں اپنی قابلیت اور صلاحیت کے بل بوتے پر جھنڈے گاڑ کر ایک مکمل شخصیت بن سکیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں