[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

بچوں کو درد کیوں ہوتا ہے؟

تحریر: تیسیر الزاید ترجمہ: تنویر آفاقی

دردِ نمو

اکثر بچے رات کے وقت اپنی پنڈلیوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔ بلکہ تقریباً تمام ہی بچے اپنے جسمانی نشو ونما کے دوران کسی نہ کسی مرحلے میں پنڈلیوں اور گھٹنوں میں درد اور تکلیف کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ درد کبھی تیز ہوتا ہے اور کبھی ہلکا، کبھی درد کا سبب معلوم ہوجاتا ہے اور بسا اوقات اس کے سبب کا پتہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔ تاہم اکثر ماہرین اس قسم کے درد کا سبب بالعموم بچوں کی ہڈیوں میں ہونے والی افزائش اور نمو کو بتاتے ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو کیا جو بچے نسبتاً لمبے ہوتے ہیں، انھیں درد بھی زیادہ برداشت کرنا پڑتا ہے؟ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا تیزی سے ہڈیوں کے بڑھنے سے درد بھی تیز ہوتا ہے؟

بچوں میں ہونے والے اس درد کے معاملات میں سے تقریباً نصف معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں بارہ سے سترہ برس کی عمر کے درمیان بچے پنڈلیوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔ ہر بچے کے درد میں شدت اور تکلیف ایک دوسرے سے مختلف،کم یا زیادہ ہوسکتی ہے جو بالعموم پندرہ منٹ کے وقفے تک رہتی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی یہ درد محض ایک ہفتے کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور کبھی کئی ماہ تک باقی رہتا ہے۔ البتہ اس قسم کے درد سے بچے کو کھیلنے کودنے یا بھاگنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور نہ ہی اس درد سے بچے کو بخار یا درد کے مقام پر جلد میں سرخی وغیرہ ظاہر ہوتی ہے۔ باوجود اس کے کہ اکثر ماہرین اس درد کو ’دردِ نمو‘ (Growth Pain) کا نام دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا واضح سبب ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا ہے۔

دوسری جانب بعض بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں فطری جسمانی بڑھوتری کے دوران پنڈلیوں میں کسی قسم کے درد کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ نہ ہی یہ بات تجربے سے ثابت ہوتی ہے کہ لمبے قد والے بچے اس درد کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ درد اس مقام پر نہیں ہوتا، جو ہڈیوں کے بڑھنے کا مقام ہے، یعنی جوڑوں (Joints) کے قریب۔ بلکہ گھٹنے اور ٹخنے کے درمیانی حصے پنڈلی میں ہوتا ہے۔ اس معاملے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’دردِ نمو‘‘ اسی وقت ہوتا ہے، جب بچے کا جسم بڑھ رہا ہو، حالانکہ جسم بڑھنے اور اس درد کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مرض اس کا واضح سبب ہے۔ ایک طرح سے یہ درد طبّی اعتبار سے ایک پہیلی ہے جس کی حقیقت ابھی تک معلوم نہیں کی جاسکی ہے۔

آپ کا بچہ اگر اس قسم کے درد کی شکایت کرے تو آپ بس اس کو مطمئن کریں اور تسلّی دلائیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ طبّی اعتبار سے اب تک اس کا جو سبب سمجھا جارہا ہے وہی آپ اسے بھی بتادیں۔ درد کا مرہم یا درد کم کرنے والا کوئی تیل یا جیل وغیرہ ہو تو وہ لگا دیں تاکہ اسے درد سے آرام مل جائے۔

معدے کا درد

معدے اور پیٹ کے درد کی شکایت بچوں کی عام شکایت ہوتی ہے۔ معدے اور پیٹ کے درد کی وجہ معلوم کرنا کبھی کبھی والدین کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کے لیے بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ درد مختلف اسباب سے ہوسکتا ہے۔ کبھی کبھی ٹھنڈ لگنے سے بھی یہ شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ زیادہ مقدار میں کوئی چیز کھالینے سے بھی درد ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگلے روز ریاضی کا امتحان ہو، اور اسی وجہ سے درد ہورہا ہو ۔ البتہ ایک سبب اور ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ بچہ یہ چاہتا ہو کہ والدین میں سے کوئی اس کے پاس سوجائے۔ یعنی وہ والدین کا قرب چاہتا ہو۔

محققین کی رائے یہ ہے کہ ۵؍فیصد بچے ہی ایسے ہوتے ہیں جو معدے میں درد کی شکایت کسی مرض کی وجہ سے کرتے ہیں۔ باقی ۹۵؍فیصد بچوں کے دردِ معدہ کی شکایت کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے اور اس کے سلسلے میں کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کہ بچے درد کی شکایت کرتے ہیں، والدین اس کو سمجھنے یا اس کا کوئی مناسب تدارک اور علاج کرنے سے عاجز رہتے ہیں۔

بچوں کو یہ درد کیوں ہوتے ہیں؟

یہ سوال بھی اب تک سمجھا نہیں جاسکا ہے۔ لیکن اس معاملے میں نفسیاتی عنصر کو بھی اہم خیال کیا جاتا ہے۔ معدے یا پیٹ کا درد، معدے اور آنتوں کے عضلات میں گڑ بڑی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ عضلات مختلف پٹھوں اور رگوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بچہ جب کسی چیز کے تعلق سے فکر مند ہوجاتا ہے تو یہ پٹھے سکڑنے لگتے ہیں اور عضلات میں تنگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس عمل کی وجہ سے بچہ پیٹ میں درد کی شکایت کرتا ہے۔

بچہ اگر غمگین ہو، پریشان یا خوف زدہ ہو تو اس صورت میں اس کے اعصاب میں کھنچاؤ پیدا ہوسکتا ہے اور یہ کھنچاؤ پیٹ میں درد کا سبب بن سکتا ہے۔ اس قسم کا اعصابی کھنچاؤ بغیر کسی مرض کے بھی بچوں کے پیٹ میں درد پیدا کردیتا ہے۔

بہتر یہ ہے کہ اس طرح کے دردوں سے پریشان بچے کی ماہر ڈاکٹر سے جانچ کراکر یہ اطمینان کرلیا جائے کہ کسی دوسرے مرض مثلاً پیشاب میں انفیکشن یا کسی کھانے کی چیز سے الرجی اس درد کی وجہ نہیںہے۔ اسی طرح والدین کو اس قسم کے درد کے سلسلے میں یہ باتیں بھی نگاہ میں رکھنی چاہئیں کہ درد کتنی دیر تک رہتا ہے، اس کی شدت کتنی ہے، عام طور پر کس وقت ہوتا ہے۔ کسی مخصوص چیز یا کھانے کے استعمال سے تو درد نہیں ہوتا، درد کے ساتھ بخار، دست اور قے وغیرہ تو نہیں ہوتی۔ ان باتوں پر نگاہ رکھنے سے ڈاکٹر کو بچے کے مرض کی باریکی سے تشخیص کرنے میں سہولت ہوگی جو کہ صحیح علاج کااولین مرحلہ ہے۔

نفسیاتی عوامل و اسباب

بچوں کے معدے میں ایسا درد جس کا سبب مرض کے بجائے نفسیاتی ہو، اسکول کی عمر سے پہلے ہوتا ہے۔ یہ نفسیاتی درد بچوں کی بہ نسبت بچیوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ درد کی شدت کم و بیش یکساں ہوتی رہتی ہے۔ کبھی شدید درد ہوتا ہے اور کبھی ہلکا۔ اس قسم کے درد کے ساتھ دست اور قے کی شکایت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات یہ درد چند منٹوں کے بعد ہی رفع ہوجاتا ہے لیکن کبھی کبھی ایک گھنٹے تک بھی رہ سکتا ہے۔ بچے کے جسم پر اس درد کے برے اثرات بھی نظر نہیں آتے۔ یعنی نہ تو اس کا وزن کم ہوتا ہے، نہ ہی اس کی حرکت و قوت میں کوئی فرق آتا ہے۔ بخار وغیرہ کی شکایت بھی نہیں ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بچہ روز درد کی شکایت کرے اور ایسا ہفتے میں ایک بار بھی ہوسکتا ہے۔ جو بچے اس قسم کے درد کے شکار رہتے ہیں، ان کو اکثر شرمندگی اور اپنی کوششوں میں ناکامی کا احساس رہتا ہے۔

والدین کی ذمہ داری

جب طبی جانچ اور ڈاکٹر کی تشخیص سے یہ واضح ہوجائے کہ بچہ صحت مند ہے اور اسے کوئی مرض لاحق نہیں ہے، تو بچے کی اس طرح کی شکایات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں والدین کو درج ذیل باتوں پر توجہ دینی ہوگی:

(۱) جب کبھی آپ کا بچہ اچانک پیٹ / معدے میں درد کی شکایت کرے تو آپ اس کو نظر انداز کرنے کا رویہ اختیار کریں لیکن تھوڑی بہت توجہ بھی دیں گویا آپ بھی یہ چاہتے ہیں کہ بچے کا درد کم ہوجائے۔ اگر درد کم کرنے والی دوا دینے کی ضرورت ہو تو وہ بھی دے دیں۔ اگر بچے کو درد اس وقت ہو جب کہ وہ ہوم ورک یا گھر کا کوئی کام کرنے جارہا تھا تو درد کم یا ختم ہوجانے کے بعد اسے اس کے کام کی جانب متوجہ کریں کہ اسے مکمل کرلے لیکن خوش اسلوبی سے اس کو کوئی ملامت نہ کریں اور نہ ہی اس کو یہ احساس دلائیں کہ آپ اس کے درد کو کام یا ہوم ورک سے نجات حاصل کرنے کا بہانہ سمجھ رہے تھے۔

(۲) اکثر بچے اس قسم کے درد کے نفسیاتی و سماجی اسباب کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اگر آپ بچے کی ہمت بڑھا کر اسے یہ بتانے پر آمادہ کرلیں کہ وہ اس پریشانی، خوف یا رنج کو بیان کردے جو درد کا سبب ہے تو درد پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور آپ اور بچہ دونوں ہی مسئلے کے حل تک پہنچ جائیں گے۔

(۳) بچے پر یہ ظاہر کریں کہ آپ اس پر پوری توجہ دیتے ہیں، اپنی محبت اور شفقت سے محرومی کا اسے کبھی احساس نہ ہونے دیں۔ بچے پر اپنی شفقت و محبت کے دریا بہانے کے لیے اس کے بیمار ہونے کا انتظار نہ کریں۔ کیونکہ اگر آپ اپنی محبت اور شفقت کو بچے کی بیماری سے مربوط کریں گے تو وہ آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹ موٹ کسی درد کا بہانہ کرنے لگے گا پھر اکثر اس لیے بیمار رہنے لگے گا کہ آپ اسے گود میں لیں اور اس پر توجہ دیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں