بچوں کی صحت اور غذا

مروہ حیدر

نیو یارک کی سائراکس یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں موٹاپے کا شکار بچوں کی تعداد1990میں 3.1 کروڑ تھی جو 2016 میں بڑھ کر 4.1 کروڑ ہوگئی۔ تحقیق کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ 2022 تک یہ تعداد تقریبا دو گنا بڑھ کر سات کروڑ سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بچوں میں موٹاپا کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن (WHO) نے اسے اکیسویں صدی کی سب سے خطرناک بیماری قرار دیا ہے۔

اس سلسلہ کی خاص بات یہ ہے کہ یوروپی ممالک خاص طور پر اور خوش حال ممالک عام طور پر اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۳۴ یوروپی ممالک ایسے ہیں جہاں بیس فیصد بچے موٹاپے کا شکار ہیں۔ جب کہ غریب، ترقی پذیر اور افریقی ممالک میں یہ تناسب بہت کم ہے۔ یوگانڈا اور ایتھوپیا وہ ممالک ہیں جہاں یہ شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

اگر ہم اپنے ملک ہندوستان کی بات کریں تو یہاں پر بھی اس بیماری نے پیر پھیلانے شروع کردیے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر دس بچوں میں سے ایک بچہ موٹاپے کا شکار ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ۲۰۲۵ تک موٹاپے کا شکار بچوں کے معاملے میں ہندوستان ۱۸۴ ممالک میں دوسرے نمبر پر آجائے گا۔

موٹاپے کے اسباب میں جو باتیں سر فہرست ہیں ان میں غیر صحت مند غذائی عادات، جن میں جنک فوڈ اور پیکجڈ غذا کا استعمال خاص ہے، جسمانی ورزش نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ جسمانی ورزش نہ ہونے کی بنیادی وجہ بھی ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ آج کل بچے موبائل فون پر گیم کھیلنے میں مصروف رہتے ہیں یا ٹی وی کارٹون دیکھنے میں وقت گزارنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور ان دلچسپیوں کے سب جسمانی ورزش اور کھیل کود کی طرف طبیعت راغب نہیں ہوتی۔

اس کا مطلب صاف ہے کہ والدین کو اس طرف متوجہ ہونا پڑے گا اور جہاں موبائل اور ٹی وی سے مناسب دوری اختیار کرنی پڑے گی وہیں بچوں کی غذائی عادات پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ آج کے اس مضمون میں بچوں کی غذا اور صحت کے موضوع پر والدین اور ماؤں کو توجہ دلانی مقصود ہے۔

ہمارے زہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ صحت ایک نعمت ہے اور صحت مند رہنے کے لیے غذائیت سے بھرپور خوراک اور ورزش ضروری ہے۔ یہاں غذائیت سے بھرپور خوراک کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مرغن اور مرچ مسالے والی چٹخارے دار ڈشز اور گوشت ہی کھایا جائے بلکہ متوازن اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کردہ صاف ستھری اور سادہ غذا کھانا ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ زیادہ تیل اور مرچ مسالے صحت کے لیے مضر ہیں اور اسی طرح جنک فوڈ کا بہت زیادہ استعمال بھی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ طبی ماہرین اور محققین اس حوالے سے لوگوں کو آگاہی دیتے رہے ہیں اور ان سے پیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں کے بارے میں بھی مختلف رپورٹیں ہم پڑھتے اور سننے رہتے ہیں۔

جنک فوڈ میں زیادہ چکنائی اور مٹھاس والی اشیا شامل ہیں، جیسے چپس، پاپڑ، برگر، فرنچ فرائز اور ٹافی، چیونگ گم، چاکلیٹ اور آئس کریم بھی ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

طبی محققین کا کہنا ہے کہ جنک فوڈ کی وجہ سے مٹاپا، دل کے امراض سمیت مختلف ذہنی و جسمانی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور اس حوالے سے آگاہی اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں کو صاف ستھری اور غذائیت سے بھرپور خوراک کے استعمال کے لیے آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے بچے اور نوجوانوں کو توانائی سے بھرپور اور متوازن غذا کے استعمال کی طرف راغب کرنا ضروری ہے، لیکن دیکھا گیا ہے کہ والدین ہی بچوں کو روغنی اور مسالے دار کھانوں اور فاسٹ فوڈ کا عادی بنا رہے ہیں، جس سے ان میں معدہ اور دانتوں کے امراض اور صحت کی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔

کہتے ہیں کہ بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی جس بات کی عادت ڈالی جائے تو وہ پختہ ہو جاتی ہے۔ ایک ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو صحت افزا غذا کھلائے اور کم عمری میں اسے جنک فوڈ کا عادی نہ بننے دے۔ کیوں کہ یہی مرحلہ اہم اور نازک ہوتا ہے جب عادتیں پختہ ہوتی ہیں۔ مائیں اگر تھوڑی توجہ دیں اور بچوں کے کھانے پینے کی ان کی من پسند اور صحت افزا اشیا کی تیاری کے لیے وقت نکالیں تو ان کے بچے چپس، پاپڑ، ٹافی وغیرہ سے بچ سکتے ہیں اور کئی امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

اسکول جانے والے بچوں کو جنک فوڈ اور کھانے کی غیر معیاری اشیا کے استعمال سے بچانا آسان نہیں رہتا، جس کی بنیادی وجہ ماحول ہے، مثلاً چند اسکول ہی ایسے ہوتے ہیں جہاں جنک فوڈ کی اجازت نہیں ہوتی مگر وہاں بھی ٹافی، ببل گم جیسی چیزوں پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ جو موجودہ دور کے بچوں کو دانتوں کی بیماریوں میں مبتلا کرنے کا بڑا سبب ہے۔ تاہم اپنے گھر اور بچوں کی صحت کی خاطر چند اصول بنائے جاسکتے ہیں، جس پر عمل کے ذریعے بچوں کو جنک فوڈ کی عادت سے بچایا جاسکتا ہے۔

٭ تمام اسکول والدین کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ اپنے بچوں کو گھر کا بنا ہوا کھانا لنچ کے طور پر دیں اور باہر کی تیار کردہ ڈبہ بند مصنوعات ہرگز ان کے لنچ باکس میں نہ رکھیں۔

٭ جو والدین بچوں کو گھر کا بنا ہوا کھانا لنچ میں نہ دیں ان کو متوجہ کیا جائے اور اس کے لیے مجبور کیا جائے اور اس حوالے سے باضابطہ اصول بنائے جائیں۔ والدین کو داخلے کے وقت اس بات سے تحریری طور پر آگاہ کردیا جائے کہ اسکول میں اس سلسلے میں سختی برتی جاتی ہے۔

٭ چٹ پٹی اور مزے دار چیز کھانے کا ہر کسی کو دل چاہتا ہے۔ اس لیے آپ بچوں کو گھر میں بھی فرنچ فرائز، برگر اور مختلف چیزیں بنا کر دے سکتی ہیں، لیکن روزانہ بچوں کو تلی ہوئی اشیا نہ دیں بلکہ اس کے لیے دن مقرر کرلیں۔

٭ اپنے بچوں کو جنک فوڈز کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ یہ کام اسکول کے اساتذہ بھی کرسکتے ہیں اور انہیں کرنا چاہیے اس کے لیے ماہ، دو ماہ بعد آگاہی کلاس لی جاسکتی ہے۔ اس دوران بچوں کو غیر معیاری اور تلی ہوئی اشیا یا جنک فوڈ سے لاحق ہونے والی بیماریوں سے آگاہی دی جائے اور بتایا جائے کہ اس طرح ان کے استعمال سے ان کی زندگی متاثر ہوسکتی ہے۔

٭ والدین اپنے بچوں کو کبھی کبھار جیسے دو ماہ میں ایک بار کسی معیاری جگہ سے آئس کریم، برگر یا پیزا کھلا سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر ڈبہ بند اشیا بھی دی جاسکتی ہیں، لیکن اس میں اعتدال پر زور دینا ہوگا اور دیگر احتیاطیں بھی پیش نظر رکھنا ہوں گی۔ جیسے ٹھیلے سے اور لوکل برانڈ کی کوئی چیز نہ خریدی جائے بلکہ کسی معروف اور معیاری کمپنی کی تیار کردہ مصنوعات خریدی جاسکتی ہیں۔

٭ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، اور اس لیے بچوں کا رجحان بھی اس جانب زیادہ ہے، بچوں کو جنک فوڈ کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے، بچوں کو ایسی وڈیوز دکھائی جائیں جس سے جنک فوڈ کے نقصانات معلوم ہوں پھل اور سبزیوں کی افادیت ان پر واضح ہو۔

بچوں میں باہر کی بنی ہوئی غیر معیاری مصنوعات یا تلی ہوئی غذائیں کھانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے ساتھ ان کو یہ بتانا ضروری ہے کہ صحت بخش، سادہ اور گھر پر تیار کردہ کھانے کس طرح جنک فوڈ اور باہر کے کھانوں سے بہتر ہیں۔ اگر بچے فاسٹ فوڈ کا مطالبہ کریں تو گھر میں ہی برگر، آلو کے چپس اور نوڈلز وغیرہ مائیں خود تیار کر کے کھلائیں۔ اس کے علاوہ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال لازماً کریں اور بچوں کو اس کی عادت ڈالیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں