[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

بچوں کے جھگڑے اور والدین کی ذمہ داری

محمد حنیف ندوی

بچوں کے آپس کے جھگڑے ہر محلے بلکہ ہر ملک قوم اور ہر معاشرے میں معمول کی بات ہے۔ لیکن اگر گھر کے اندر جھگڑنے والے بچوں میں سے کسی ایک کی حد سے زیادہ حمایت کی جائے تو یہ بات گھریلو ماحول کو خراب کرنے کا باعث بنتی ہے اور دوسرے بچے کے دل میں بھی اس بڑے سے بیزاری اور نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ان خرابیوں کے پیش نظر آپ کو بچوں کے جھگڑوں کا بہت ہی احتیاط اور حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو یہ دیکھئے کہ بچوں کا جھگڑا کیوں اور کیسے ہوا؟

اگر اس سبب کو دور کر دیا جائے اور بچوں کو سمجھا دیا جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ جھگڑا ختم ہوجائے گا۔ عموماً جھگڑے اس لیے ہوتے ہیں کہ ایک نے دوسرے بچے کا منہ چڑا دیا اور وہ اس سے گتھم گتھا ہو جاتا ہے۔ دو بچے کھلونوں سے کھیل رہے ہیں، ایک بچے نے دوسرے سے کوئی کھلونا چھیننے کی کوشش کی، اس طرح دونوں میں لڑائی ہوجاتی ہے اور دونوں رونے اور چیخنے لگتے ہیں۔

ایک کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے اور دوسرا اپنی چیز کھا چکا ہے، یہ اس سے لینا چاہتا ہے یا چھین لیتا ہے اور دونوں میں لڑائی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ہاکی، کرکٹ وغیرہ کھیل رہے ہیں، ایک فریق جیتنے کا دعویٰ کرتا ہے، جب کہ دوسرا فریق ہار تسلیم نہیں کر رہا، اسی بات پر جھگڑا ہو جاتا ہے۔ ان تمام مثالوں پر اگر غور کریں تو یقینا آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ بچوں کا لڑنا تین اسباب کی وجہ سے ہے۔

۱- فطری و قدرتی، شوخی و چلبلا پن جو ان کو قرار سے بیٹھنے نہیںدیتا۔

۲- بھولپن کی بنا پر اپنی خوشی اور پسند کی خاطر، دوسرے بھائی کی پسند اور خوشی کی پروانہ کرنا۔

۳- بھولپن کی وجہ سے اپنی دلی جذبات کو نہ چھپا سکنا اور اپنے غم، غصہ، خوشی، لالچ اور خواہش کا فوراً اظہار کر دینا۔

ان لڑائیوں میں کینہ یا کدورت کا شائبہ بھی نہیں ہوتا، اسی لیے لڑائی کے بعد فوراً ہی پھر مل کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں، گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔

اس لیے اگر آپ کے بچوں میں لڑائی ہو اور لڑنے والے بچے چھوٹے ہوں تو ہر ایک کو لڑائی کے خلاف غیرت دلائیں۔ کسی کی بیجا حمایت نہ کریں، مثلاً یوں کہیں: دیکھو بیٹا! یہ کتنی بری بات ہے کہ تم اپنے بھائی سے لڑتے ہو اور اسے اپنا کھلونا نہیں دیتے، حالاں کہ وہ آپ سے چھوٹا ہے اور آپ سے کھیل بھی رہا ہے، آپ کو تو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

آپ اسے مارتے ہیں، توبہ ۔۔۔۔۔ توبہ۔۔۔۔۔ اور اگر بچے کچھ بڑے ہیں تو اس وقت سمجھا بجھا کر دونوں کو الگ الگ کریں اور پھر دو رکعت نفل پڑھ کر دعا مانگیں! کہ اے اللہ! میری اولاد میں آپس میں محبت پیدا فرما، لڑائی جھگڑوں سے ان کی حفاظت فرما ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد ان میں سے ہر ایک کو تنہائی میں بلا کر اس سے لڑنے کا سبب معلوم کریں اور لڑائی کی مذمت اور نحوست اس پر واضح کریں اور اس سبب کو دور کریں، پھر ان دونوں کو ایک ساتھ بٹھا کر پیار و محبت سے مل جل کر رہنے کی فضیلت اور فوائد بتائیں اور اس پر عمل کی ان کو نصیحت کریں اور دعا بھی کریں کہ اللہ ان میں ہمیشہ کے لیے اتحاد و اتفاق نصیب فرمائے۔ اسی طرح اگر آپ کا بچہ اپنے کسی دوست سے جھگڑا کرے تو پہلے اس کے لیے دعا کیجیے اور پھر اسے مذکورہ بالا طریقے پر سمجھائیے۔

آپس میں یا دوسرے بچوں سے لڑائی کی صورت میں ان کی ہرگز حوصلہ افزائی نہ کریں اور نہ ان کے اس فعل کو فخریہ طریقے سے بیان لیجیے کہ ’’میرے شیر بیٹے نے فلاں بچے کو خوب پیٹا‘‘ ورنہ آپ کا یہی جملہ ان کی تباہی کا موجب بنے گا۔ ذہنوں میں یہ بات جمائی جائے کہ لڑائی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو سدھارنے کے لیے گھر کا ماحول بھی خوشگوار رکھنا ضروری ہے، اس لیے آپ بچوں کے سامنے کبھی بھی کسی بھی معاملے میں شوہر بیوی ایک دوسرے سے الجھنے اور تو تڑاخ کرنے سے اجتناب کریں۔ ورنہ وہ بھی ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے کو معمولی سمجھنے لگتے ہیں۔ جب جھگڑا ہو رہا ہو تو ایسا ہرگز نہ کریں کہ غصہ میں فوراً اٹھے اور زور زور سے چیخنے یا گالیاں دیتے ہوئے پاس پہنچے اور دونوں کو الگ الگ کر کے دونوں کو زور زور سے مارنا پیٹنا شروع کر دیا کہ اس کی مثال تو ایسی ہوئی کہ آگ بجھانے کے لیے اس پر پیٹرول چھڑکا جائے۔ ان کی لڑائی میں خود شریک نہ ہوں کہ آپ بھی ان کے ساتھ چیخنے چلانے لگیں۔

اسی طرح اگر بیوی نے شام کو واپسی پر شوہر سے شکایت کی کہ آج فلاں نے آپ کے بچے کو مارا ہے اور دھکا دے کر کیچڑ میں گرا دیا ہے یا کوئی زخم یا چوٹ لگ گئی ہے، شوہر نے فوراً فلاں کے گھر پہنچتے ہی برا بھلا کہنا شروع کر دیا، جب بعد میں بات کھلی تو پتہ لگا کہ دونوں بچوں کی غلطی تھی، اس نے بھی اس کے کپڑے پھاڑ دیے تھے اور ناخن مار کر چہرے پر جا بجا نشانات ڈال دیے تھے۔ اگر ایسی کوئی شکایت سنیں تو پہلے اپنے گھر میں ہی سمجھائیں کہ لڑائی کرنا بری بات ہے، اس سے آپس میں توڑ پیدا ہوتا ہے اور اس طرح لڑنا انسانیت کے خلاف اور حیوانیت کا کام ہے۔

ایسی صورت میں کسی کے اکسانے کی ہرگز پروا نہ کریں۔ اگر کوئی طعنہ دے کہ بزدل ہو، بدلہ نہیں لے سکتے وغیرہ تو غصہ میں نہ آئیں، بلکہ صبر و ضبط کا دامن ہاتھ میں لے کر پیار و محبت سے تلقین کریں اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام و صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے واقعات سنائیں کہ کس طرح انھوں نے پتھر مارنے والوں اور گالیاں دینے والوں کے لیے دعائیں کی ہیں، پھر لڑائی کی تحقیق ضرور کریں، مگر پوشیدہ رہ کر کہ گھر والوں کو پتہ نہ چلے۔ جب بات سامنے آجائے تو اگر اپنوں کی غلطی ہو تو انہیں تنبیہ کریں اور دوسروں کی ہو تو ان کے بڑوں کو حکمت کے ساتھ، موقع دیکھ کر سمجھائیں اور ہوسکے تو دونوں کو گلے ملوا دیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں