ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ اخبارات میں بچوں کے بارے میں تلاش گمشدہ کے اشتہارات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات وہاں ہوتے ہیں جہاں والدین یا خاندان کے بزرگ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں اپنی واجبی ذمہ داریاں اور فرائض کی انجام دہی سے غافل رہتے ہیں، یا جانتے بوجھتے چشم پوشی اختیار کرلیتے ہیں۔
بچے کو سب سے پہلے جو ماحول نصیب ہوتا ہے وہ اس کے اپنے گھر کا ماحول ہوتا ہے۔ اس کا معصوم ذہن پہلے اپنے گھر کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ گھر میں اس کے ساتھ جس قسم کا سلوک ہوتا ہے اس کی شخصیت اسی سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ جن گھرانوں میں بچوں کے ساتھ زیادہ لاڈ پیار کیا جاتا ہے، وہ بچے بڑے ہوکر بری عادتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حد سے سختی یا زیادہ لاڈ پیار بچے میں متضاد شخصیت پیدا کردیتے ہیںکبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے کے ساتھ مسلسل توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے جس سے اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور گھر سے بھاگنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اکرموا اولادکم و احسنوا ادبھم ’’اپنی اولاد کو عزت دو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔‘‘ بعض اوقات والدین کی سختی یا کسی بات سے ناراض ہوکر بھی بچہ گھر سے بھاگ جاتا ہے۔‘‘
بچے کے ساتھ لاڈ پیار کے بعد ایک دم سخت سلوک کرنا بھی غلط ہے، کیونکہ اس طرح کے رویوں سے بچوں میں بغاوت کے جذبات موجود رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ درمیانہ سلوک رکھنا چاہیے۔ میانہ روی اختیار کرنے کے نتیجے میں بچے میں اپنی اصلاح کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ گھر سے صرف وہ بچہ بھاگتا ہے جو لاڈ پیار سے تباہ ہوا ہو۔ بلکہ بعض گھرانوں میں گھر کے بزرگ بچے کی ہر عادت اور حرکت پر پابندی لگاتے رہتے ہیں اور اس کی معمولی سے معمولی بات پر اس کو جھڑکا جاتا ہے یا سخت سست کہا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں بچے کی سمجھ میں نہیں آتیں، اور ستم ظریفی یہ کہ ڈانٹنے کے ساتھ اصلاحی لیکچر بھی دیے جاتے ہیں، جبکہ ان اخلاقی درسوں کے برعکس خود والدین کی ذات اعلیٰ اخلاق کا نمونہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ ان کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ بچہ لیکچر سے اتنا نہیں سیکھ پاتا جتنا اپنے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتا ہے۔
بچے کے عادات و اطوار اپنے والدین اور خاندان کے بزرگوں کے کردار اور عادات کا آئینہ ہوتے ہیں، چنانچہ جس گھر کے ماحول میں گھٹن پائی جاتی ہے اور بچے پر بے جا پابندیاں لگائی جاتی ہیں وہاں بچے خوفزدہ رہتے ہیں اور یہی جذبہ ان میں احساسِ کمتری کا بیج بوتا ہے جو عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتا چلا جاتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بچے ہر قیمت پر اپنے ظالمانہ ماحول کا بدل ڈھونڈ لیتے ہیں اور وقت اور موقع ملتے ہی اپنے گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔
ایسے بچوں کو اپنے ماحول کی سفاکیوں کا علم ہوتا ہے اس لیے گھر سے جانے کے بعد وہ گھر واپس آنے کا تصور بھی نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے والدین سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ تلاشِ گمشدہ کا اشتہار دینے والے والدین اور بزرگ اگر نیک نیتی اور خلوص سے اپنا اور اپنے بگڑے ہوئے بچوں کا تجزیہ کریں تو انہیں اپنے بچوں کی حرکات کا اس قدر احساس نہیں ہوگا جس قدر اپنی ناقص تعلیم و تربیت اور متضاد شخصیت کا، جس نے ایک نونہال کے مستقبل کو بنانے کے بجائے تاریک کردیا۔
بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ ان کی صحیح تربیت والدین کا فرض ہے۔ اگر ان کی تربیت صحیح ہوجائے تووہ نہ صرف والدین بلکہ ملک و قوم کے لیے باعثِ افتخار بن سکتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو ایسا ماحول دیا جائے جس سے ان کی شخصیت اور کردار میں وقار اور اعتماد پیدا ہو اور وہ ایسی بھرپور شخصیت کے مالک بن سکیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ان کا وجود باعثِ فخر ہو۔lll