بچوں کا اغوا یا گھروں سے فرار، دونوں ہی نہایت سنگین صورتیں ہیں۔ کیا صرف ریاست، پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر ہم ایسے واقعات سے نجات حاصل کرسکتے ہیں؟
ہرگز نہیں۔ اس ضمن میں والدین اور دیگر اہلِ خانہ سمیت معاشرے کے مختلف افراد کا کردار نہایت اہم ہے۔ ایسے واقعات کی بڑی وجہ غربت اور جہالت بھی ہیں، جس کے خلاف لڑنے میں بنیادی کردار تو ریاست کا ہے مگر سماجی ذمہ داری بھی کم نہیں ہے۔ لیکن بچوں میں بغاوت اور منفی رجحان کی ایک اور بڑی وجہ والدین سمیت دیگر میل جول رکھنے والوں کا نامناسب سلوک اور ان کی ذہنی تربیت اور ضروری راہ نمائی کی طرف سے غفلت اور کوتاہی برتنا ہے۔ ظاہر ہے بچے، معاملات زندگی کا گہرا شعور نہیں رکھتے اور اپنے کسی اقدام کی سنگینی کا ادراک نہیں کرسکتے۔ ان کا کوئی غلط فیصلہ نہ صرف ان کی زندگی برباد کر سکتا ہے بلکہ اس کے معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اغوا یا گھروں سے فرار کے بعد بچے خود منفی سرگرمیوں اور جرائم میں ملوث ہوسکتے ہیں یا پھر کسی کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ یہ چوری ڈکیتی سے لیکر قتل جیسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔
اس لیے والدین، اہل خانہ و محلہ، اساتذہ، عزیز و اقارب، معاشرے کے باشعور اور ذمہ دار افراد اس حوالے سے اپنا کردار نبھائیں تو ہم اپنا اور قوم کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو فکرِ معاش کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے بچوں سے بات چیت اور ان کی چھوٹی بڑی خوشیاں اور مسائل جاننے کے لیے وقت دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ابتدائی عمر سے لے کر عقل اور شعور کی دہلیز پر قدم رکھنے تک بچوں کو توجہ اور درجہ بہ درجہ معاملات زندگی سے مناسب اور ضروری آگاہی دینا ضروری ہے۔ ابتدائی عمر میں والدین اور پھر اساتذہ کی جانب سے اخلاقی تعلیم اور نیک و بدکا فرق سمجھانے کی کوششیں نہایت اہمیت رکھتی ہیں اور اس کا بچے کی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
مختلف ادوار میں بچے کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں نہ صرف والدین اور اساتذہ بلکہ اہل محلہ بھی اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ والدین بچوں کی ذہنی کیفیت، مزاج اور سرگرمیوں میں غیر معمولی تبدیلی محسوس کریں تو اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ دوستانہ انداز میں مسئلہ دریافت کریں۔ گھر اور گھر سے باہر میل جول کے دوران نامناسب رویہ اور برتاؤ بھی بچوں کو گھروں سے فرار پر آمادہ کر سکتا ہے۔ اس کا سد باب کرنا ضروری ہے۔ عام زندگی کے مسائل اور مشکلات سے آگاہی دینے کے ساتھ کسی مسئلے کا اظہار کیے جانے پر فوری اور مکمل راہ نمائی کی جائے۔
والدین کے درمیان جھگڑے اور گھریلو تلخیاں عام بات ہیں، لیکن بچے کے سامنے الجھنے سے گریز کیا جائے۔ بے جا سختی اور مار پیٹ کے علاوہ کسی بھی بچے کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اسی طرح اسکول میں اساتذہ بہتر ماحول فراہم کریں اور جسمانی سزاؤں سے گریز کریں۔ مختلف مواقع پر والدین، اساتذہ اور دیگر لوگوں کی جانب سے حوصلہ افزا رویہ اور تعریفی کلمات اہمیت رکھتے ہیں۔ ملک میں غربت کے شکار بچوں کی بڑی تعداد محنت مزدوری کر کے والدین کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔ اس دوران کام لینے والے کا توہین آمیز رویہ، ڈانٹ ڈپٹ اور بعض اوقات انتہائی نامناسب سلوک بھی بچوں کو بغاوت پر اکسا سکتا ہے۔
ہمارے معاشرتی نظام میں بے شمار خامیاں اور خرابیاں موجود ہیں۔ بچوں کو ذہنی اور جسمانی استحصال کا بھی سامنا ہے، جو گھروں سے ان کے فرار کا سبب بنتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ گھر والے یا اہل محلہ اگر کسی واقف کار کے بچے کو گلیوں اور بازاروں میں کسی اجنبی فرد کے ساتھ دیکھیں تو غیر محسوس طریقے سے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں۔ اگر وہ کسی غلط آدمی کے ساتھ نظر آئے تو پیار محبت سے سمجھائیں اور خبردار کریں۔ معاشرتی رویوں کی وجہ سے بعض اوقات بچہ نفسیاتی عوارض کا شکار بھی ہوسکتا ہے اور اس حالت میں گھر والوں کی عدم توجہی یا باہر مذاق کا نشانہ بننے پر وہ کوئی غلط قدم اٹھا سکتا ہے۔ اس طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔
معاشی مسائل سے نمٹنے کے ساتھ والدین بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ مختلف محلوں میں باشعور اور پڑھے لکھے لوگ اپنے ناخواندہ ہمسایوں اور عزیزوں کو بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ کریں۔ اس کے لیے انہیں مشورہ دینے کے ساتھ راہ نمائی بھی کریں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچہ صحت مند سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ اس حوالے سے گلی محلوں کا ماحول بہتر بنانے کے ساتھ مختلف مقامات پر تفریحی سرگرمیوں کے لیے سہولتیں عام کی جائیں۔ محلے کے مختلف پڑھے لکھے اور باشعور افراد پر مشتمل کمیٹیاں قائم کر کے رضا کارانہ طور پر اس حوالے سے والدین کو آگاہی دینے کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے جہاں حکومت اور پولیس کو اپنا کام دیانت داری سے انجام دینا ہوگا، وہیں اہل محلہ کا بھی فرض ہے کہ وہ گھروں سے باہر کھیل کود کے دوران بچوں اور مشکوک اور اجنبی افراد پر کڑی نظر رکھیں۔lll