بچے ہمارے عہد کے

شاذیہ سعید

ہمارے بچے اب بچے نہیں بلکہ ٹیکنالوجیکل بچے بن چکے ہیں۔ پیدا ہوتے ہی جن کے ہاتھوں میں ٹیکنالوجی تھمادی جائے وہ بچے کیسی ذینی صلاحیتوں کے حامل ہوں گے ہماری سوچ تو وہاں کا طواف بھی نہیں کرسکتی۔ یوں کہا جائے کہ عصر حاضر میں تبدیلیوں کی رفتار کو بھی گویا پر لگ گئے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ دو دہائیوں قبل الیکٹرانک میڈیا کے نام پر صرف ٹی وی اور ریڈیو ہوا کرتا تھا لیکن موجودہ دور میں یہ شعبہ ایک ایسی صنعت کی صورت اختیار کر چکا ہے جس سے امیر، غریب، بوڑھے، جوان اور بچے سبھی مستفید یا متاثر ہو رہے ہیں۔ جس تیزی سے الیکٹرانک میڈیا نے ترقی کی ہے اتنی ہی تیزی سے اس نے ہماری زندگیوں کو متاثر بھی کیا ہے بلکہ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب بڑے ہی نہیں بلکہ بچے بھی اپنی علمی ضروریات کے علاوہ دیگر مصروفیات اور دلچسپیوں کے لیے کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور ویڈیو گیمز کے محتاج نظر آتے ہیں اور ان چیزوں کے بغیر تو جیسے ان کا ایک پل نہیں گزرتا۔ موجودہ ور میں جدید موبائل فون، آئی پوڈ، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ جیسی چیزیں بہت عام ہو چکی ہیں اور والدین اس بات پر کوئی توجہ نہیں دیتے کہ ان کے بچے دن رات ان آلات میں کھوئے رہتے ہیں۔

اگر بچوں کو بچپن سے ہی سائنس و ٹیکنا لوجی کے ماحول میں رکھا جائے جہاں وہ روزانہ سائنسی تجربات سے ہم کنار ہوں تو وہ ان چیزوں میں دلچسپی لیں گے اور اس طرح بچوں میں سائنس کا شعور پیدا ہوگا۔ ان بچوں کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں ان کا جوش و جذبہ سائنس و ٹیکنا لوجی سے وابستہ ہو تو ملک میں تقریبا ہر دو سے چار دن میں ایک نئی ایجاد سامنے آئے گی۔ جیسے کہ آئے دن کم عمر ترین بچے سوفٹ ویئر انجینئرز بن کر سامنے آرہے ہیں۔ آج کل کے بچے تو دیکھتے ہی دیکھتے بڑی بڑی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ بچوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کا شعور بیدار کر کے ہم متعدد ایجادات کو حاصل کرسکتے ہیں۔ آج کل کے بچے سونے سے پہلے اور اٹھنے کے بعد ہاتھ میں آئی پیڈ دیکھنا پسند کرتے ہیں، ہمیں بھی اتنے فیچرز کا پتا نہ ہو لیکن بچے ہر فیچر سے نہ صرف واقف ہوتے ہیں بلکہ ہمیں بھی سکھاتے ہیں۔ جہاں کسی چیز کا کوئی فائدہ ہوتا ہے وہیں اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی چیز بذاتِ خود اچھی یا بری نہیں ہوتی ۔

پرانے زمانے میں بچے جسمانی ورزش والے کھیل کھیلا کرتے تھے اب اسکول سے لوٹنے کے بعد یا تو ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے گھنٹوں کارٹون یا دیگر پروگرام دیکھ کر گزار دیتے ہیں یا پھر گیمز اور سرچنک کے نام پر کمپیوٹر پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ والدین اگر روکنا ٹوکنا چاہیں تو ان کے پاس انہیں لاجواب کرنے کو ڈھیروں دلائل موجود ہوتے ہیں۔ پھر یہی نہیں، ہمارے معاشرے میں چھوٹی چھوٹی عمر کے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون ہونا بھی جیسے لازمی امر بنتا جا رہا ہے۔ گھر سے باہر نکل کر کھیل کود چھوڑنے کے سبب بچوں کو صحت کے مسائل بھی لاحق ہو رہے ہیں۔ وہ نہ صرف موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ دیگر بچوں کے ساتھ مل کر کھیلنے سے ٹیم سپرٹ اور سماجی تعلقات کے حوالے سے تربیت کے جو مواقع ملنے تھے وہ اب اس سے محروم ہیں۔ دوسری طرف اب بچے ماں باپ سے چھپ کر ایسے مواد تک بھی رسائی حاصل کرلیتے ہیں، جو ہمارے دین اور تہذیب کے حساب سے بالکل غلط ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کا موبائل آلات استعمال کرنا ان کی ٹیکنا لوجی کی اہم صلاحیتوں کے حصول میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ آسٹریلیا کے ایک تعلیمی ادارے کے مطابق ۲۰۱۱ء کے بعد آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں بڑے پیمانے پر زوال دیکھا گیا ہے کیوں کہ کمپیوٹر سے طالب علموں کی کارکردگی میں بہتری نہیں آئی۔ اس کی رپورٹ کے مطابق کام کی جگہوں پر درکار ٹیکنا لوجی کی صلاحیت کی نسبت بچے ٹیبلٹس اور اسمارٹ فونز پر مختلف نوعیت کی مہارت حاصل کر رہے ہیں۔ آسٹریلیا کے اسکولوں میں انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنا لوجی جس طرح پر پڑھائی جاتی تھی اس میں کی جانی والی تبدیلیاں اس زوال کو بہتر طور پر واضح کرتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق لوگوں کے زیر استعمال آلات میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں بھی اس کی ایک وجہ ہیں۔ اس مطالعے میں ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۴ کے دو ران طلبہ کی ڈجیٹل تعلیم کا تقابل کیا گیا جب پچھلے دور کے بچوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا تو آئی سی ٹی کی تعلیمی کارکردگی میں بڑے پیمانے پر زوال دیکھا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۴ء کے گروہ میں شامل سولہ برس کی عمر کے طلبہ کی کارکردگی کسی بھی پچھلے گروہ سے کم تھی۔ امتحان کے دوران طلبہ نے زیادہ سے زیادہ موبائل ٹیکنا لوجی کا استعمال کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ آئی سی ٹی کی تعلیم کے مطابق صلاحیتوں کا استعمال کم سے کم کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ جو بچے ٹیبلٹس اور دیگر آلات استعمال کرتے ہیں وہ زیادہ قابل ہیں۔ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے مطابق ایسے ممالک جہاں کمپیوٹر استعمال کیے جاتے ہیں، وہاں تین چوتھائی بچوں میں ذہانت یا امتحانی کارکردگی کے اعتبار سے کوئی مثبت فرق دکھائی نہیں دیا۔ اس کے برعکس ایشیا کے ایسے اسکول جہاں عام افراد بڑی تعداد میں سمارٹ فونز اور کمپیوٹرز کا استعمال کرتے ہیں، وہاں کلاس رومز میں بچوں میں ان کا استعمال انتہائی کم دکھائی دیا۔ ٹیکنا لوجی سے بچوں کی کارکردگی میں کسی اضافے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ جنوبی کوریا میں بچے اوسطاً ۹ منٹ یومیہ جب کہ ہانگ کانگ میں گیارہ منٹ یومیہ کمپیوٹرز کا استعمال کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں یہ دورانیہ ۵۸ منٹ، یونان میں ۲۴ منٹ اور سویڈن میں ۳۹ منٹ ہے۔ تعلیمی نظام میں ٹیکنا لوجی پر بہت زیادہ انحصار کرنے والے اسکولوں میں بچوں کی کارکردگی میں بہتری کا کوئی خاص رجحان نظر نہیں آیا۔ اس تنظیم نے دنیا بھر کے اسکولوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اساتذہ کے ساتھ مل کر ٹیکنا لوجی کو زیادہ موثر استعمال کریں اور ایسے بہتر سافٹ ویئر تخلیق کیے جائیں جو بچوں میں تجرباتی رجحانات کے ساتھ ساتھ سیکھنے کی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنیں۔ اسی طرح سے ایسوسی ایشن آف ٹیچر اینڈ لیکچررز نے اسکول کے اوقات کے علاوہ بچوں کے کمپیوٹروں اور دیگر ڈیجیٹل آلات پر گزارے گئے وقت کی طوالت پر خدشات ظاہرکیے ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ کچھ بچے نہ تو تعلیم پر توجہ دے پاتے ہیں اور نہ ہی سماجی طور پر گھلتے ملتے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنا لوجی ایپل کے بانی اسٹیوجابز کے گھر ٹیکنالوجی کا استعمال بہت محدود ہے اور اس کے بچوں نے آج تک آئی فون اور آئی پیڈ استعمال ہی نہیں کیا۔

بچے قوم کا مستقبل اور اثاثہ ہوتے ہیں اور کسی بھی معاشرے کی ترقی کا انحصار دراصل بچوں کی بہتر تعلیم اور تربیت کا ہی مرہون منت ہوتا ہے۔ دنیا میں ترقی وہی قومیں کرتی ہیں جو زمانے کی ضرورتوں کے پیش نظر اپنی نئی نسل کی تربیت کرتی ہیں۔ والدین ہونے کے ناطے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جہاں ایک جانب اپنے بچوں میں جدید ٹیکنا لوجی کا شعور اجاگر کریں تو دوسری جانب اس ٹیکنا لوجی کے منفی اثرات سے بچاؤ بھی یقینی بنائیں۔ خاص طور پر ماؤں کو چاہیے کہ وہ اس بات پر نظر رکھیں کہ ان کے بچے ٹیلی ویژن پر کون سے پروگرام دیکھ رہے ہیں اور انٹرنیٹ پر کس طرح کی معلومات تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ایک احتیاط جو بہت زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے وہ ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کو کسی ایسے کمرے میں رکھنا ہے جہاں گھر کے تمام لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ دوسری احتیاط یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کمپیوٹر کی سکرین کا رخ دیوار کی جانب نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح مائیں آتے جاتے دیکھ سکتی ہیں کہ بچے کمپیوٹر پر کیا کام کر رہے ہیں۔ یاد رکھیے بچوں کی تربیت اور جدید ٹیکنا لوجی تک ان کی رسائی کے حوالے سے توازن کی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے ہی ہم آنے والے وقت کے لیے ایک اچھے اور بہتر معاشرے کی بنیاد ڈال سکتے ہیں تاکہ ہمارے مستقبل کے یہ معمار اچھی سوچ، منفرد طرزِ عمل اور صلاحیتوں کے بہتر استعمال کے ساتھ ایک کار آمد اور مفید شہری بن سکیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں