رات کا پچھلا پہر تھا۔ آسمان پر جھلملاتے ستاروں کی روشنی ماند پڑنے لگی تھی، لیکن امتیاز احمد کی آنکھوں سے نیند کوسوں دْور تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بڑھاپے کا واحد سہارا ،وسیم انھیں تنہا چھوڑکر دوسرے ملک جارہا تھا۔وہ اْن کی جان تھا۔ کیوںکہ وہ جب صرف دو برس کا تھا، امتیاز کی رفیق حیات انتقال کرگئی تھیں۔ بیوی کی اچانک وفات کے بعد امتیاز نے ننھے وسیم کو پالنے پوسنے میں اپنی پوری زندگی گزار دی۔
ایک دن صبح ناشتے پر وسیم نے بتایا کہ وہ عرب ملک جانے کا ویزا حاصل کرچکا ہے، تب امتیاز نے دِلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’بیٹے! کتنا اچھا ہوتا کہ بڑھاپے کے دنوں میں تم مجھے چھوڑکر نہ جاتے، تیرے بغیر میں کیسے جی پاؤں گا؟‘‘ باپ کی باتیں سن کر بیٹے نے کہا ’’اباجان، جس دن سے میں نے عرب ملک جانے کا پلان بنایا ہے، آپ ’نہیں، نہیں‘ کی رٹ لگارہے ہیں۔ اب روانگی کے وقت تو کم از کم مسکرائیے، کیا آپ نہیں چاہتے کہ میں بڑا آدمی بنوں؟‘‘ ’’اچھا، بیٹا! جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں حفظ و امان میں رکھے۔ اپنا خیال رکھنا، میری فکر نہ کرنا‘‘۔
شام کی فلائٹ سے وسیم جدہ روانہ ہوگیااور امتیاز بھیگی پلکوں سے ائیرپورٹ سے گھر واپس آگیا۔بیٹے کو گئے چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ امتیاز کی حالت ابتر ہونے لگی۔ اتنی بڑی دْنیا میں ان کا دِل بہلانے والا کوئی نہ تھا۔ ان چھ مہینوں میں انہوں نے بیٹے کے نام کئی خطوط پوسٹ کئے اور ہر خط میں لکھا کہ ’’بیٹے واپس آجاؤ، میری صحت گرتی جارہی ہے‘‘۔
اتنے خطوط کے جواب میں وسیم نے لکھا کہ ’’اباجان! حوصلہ رکھیے، میں ہر ماہ کئی ہزار روپے آپ کے لئے روانہ کروں گا۔‘‘
وقت کا پرندہ پرواز کرتا گیا، دو برس مکمل ہونے میں ایک ماہ باقی تھا۔ اچانک امتیاز احمد ایسے بیمار پڑے کہ پھر جاں بر نہ ہوسکے۔ ان کے انتقال کی خبر ان کے پڑوسی رمضان علی نے وسیم کو دی۔ خبر سن کروہ بہت رویا کہ والد کا آخری دیدار بھی نہ کرسکا۔ وسیم جب واپس گھر آیا تو والد مرحوم کا ایک جملہ اْس کے ذہن میں گونجنے لگا۔ ’’ بیٹے! تمہاری جدائی برداشت نہیں ہورہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے موت آجائے اور تمہارے ہاتھ کی مٹی تک مجھے نصیب نہ ہو‘‘۔
تھوڑی دیر میں محلہ کمیٹی کے صدر حاجی کلیم الدین کچھ لوگوں کے ہمراہ آئے۔ وسیم کو تسلی دینے کے ساتھ ایک پوٹلی اس کے ہاتھ میں تھمادی ،جس میں 23 ہزار روپئے تھے۔ پوٹلی ہاتھ میں لے کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ امتیاز نے آخری خط میں لکھا تھا۔
’’بیٹے، وسیم! باپ کی خواہش پوری کرنے کی بجائے تم بڑا آدمی بننا چاہتے تھے۔ شاید بڑا آدمی بننے کے لئے یہ رقم تمھارے لیے مددگار ثابت ہو، جو تم ہر ماہ مجھے بھیجا کرتے تھے۔‘‘lll