بڑھتے فاصلوں کے درمیان

علی حیدر ملک

چلتے چلتے ایڑیاں دکھنے لگی ہیں۔ ماں کہتی تھی جب ایڑیاں دکھتی ہیں تو سمجھو کہ سفر ختم ہوا۔ لیکن یہ تو پرانا قصہ ہے۔ ماں کی بات بھی پرانا قصہ ہوگئی۔ کیسی ہنسی کی بات ہے۔ ہنستے ہنستے مجھے رونا آجاتا ہے۔ رونا تو مجھے اس وقت بھی آیا تھا جب میں پہلی بار سفر پر روانہ ہوا تھا۔

’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘ میرے باپ نے اپنی بھاری بلغمی آواز میں پوچھا تھا۔

’’سفر پر۔‘‘ بھائیں بھائیں کرتے گھر پر نظر دوڑاتے ہوئے میں نے جواب دیا ۔

’’کیا تم نے یہ یقین کرلیا ہے کہ یہ سفر ضروری ہے؟‘‘

’’ہاں! ضرورت نے مجھے یقین پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘

میرا باپ اپنی انا کی چوٹی پر چڑھ کر خاموش ہوگیا۔ ماں میرے سر پر آنچل کا سایہ کیے کھڑی رہی۔ اس نے نہ تو مجھے جانے کو کہا نہ رکنے کو۔ مگر اس کی ممتا کا آب حیات میرے وجود پر بھی پھوار کی مانند برستا رہا۔

’’ماں مجھے اجازت دو۔‘‘ میں نے التجا کی۔

اور اس نے لرزتے ہاتھوں سے آگے بڑھ کر میرے بازو پر امام ضامن باندھ دیا۔

’’پاک پروردگار تیری قدم قدم پر حفاظت کرے۔‘‘ اس کے ہونٹوں نے کہا یا نہیں لیکن میرے کانوں نے سنا۔ میرے دل نے بھی۔ میرے دماغ نے بھی، میرے روئیں روئیں نے بھی۔

سفر کی سمتیں تو شاید چار ہی ہیں لیکن جب میں نے پہلا قدم اٹھایا تو محسوس ہوا کہ سمتیں صرف چار نہیں چار سو ہیں یا چار ہزار ہیں یا چار لاکھ ہیں اور ہر سمت سے آواز آرہی ہے۔ ادھر آؤ، ادھر آؤ، ادھر آؤ، ادھر آؤ۔

معلوم نہیں وہ کون سی سمت تھی جدھر میں نے پہلے پہل قدم بڑھائے تھے اور بڑھاتا جا رہا تھا۔ کبھی آہستہ، کبھی تیزکبھی آہستہ۔یوں ایک سفر میرے اندر جاری تھا اور ایک سفر میرے باہر۔

چلتے چلتے پاؤں تو نہیں تھکے لیکن ایسا محسوس ہوا کہ جسم سے توانائی کا ذخیرہ ختم ہونے لگا ہے۔ چال سست پڑنے لگی۔ آنتیں ایندھن کی کمی کے باعث جلنے لگیں۔

ماں کہتی تھی: ’’سفر پر روانہ ہونے سے پہلے زادِ راہ کا انتظام ضرور کرلینا چاہیے۔‘‘

مگر میں نے زاد راہ کا انتظام نہیں کیا تھا سو… سو میں نے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ ارد گرد صرف ایک ویرانہ تھا۔ اجاڑ اور بے منظر، دور بہت دور گندم کے دانے کی مانند ایک بستی نظر آرہی ہے۔ ہانپتا کانپتا، گرتا پڑتا میں اس بستی تک پہنچا اور ایک گھر کے دروازے پر دستک دی۔ ایک آدمی نے دروازے سے باہر نکل کر پوچھا:

’’کیا ہے؟‘‘ میری زبان میں نقاہت کے کانٹے چبھے ہوئے تھے۔ مجھ سے کچھ بولا نہ گیا اور خاموشی سے اپنا ہاتھ اس کے آگے پھیلا دیا۔ ہاتھ پھیلاتے ہی ایسا لگا کہ میرا قد اچانک بالشت بھر رہ گیا۔

وہ آدمی زیر لب مسکرایا اور اندر سے دو روٹیاں لاکر میرے سامنے رکھ دیں۔ میں نے جلدی جلدی وہ روٹیاںچٹ کرلیں۔

’’مسافر معلوم ہوتے ہو؟‘‘

’’مگرزادِ راہ تمہارے پاس نہیں۔‘‘اس آدمی نے اپنے لہجے کے تمسخر کو چھپاتے ہوئے کہا۔

’’مجھ سے غلطی ہوگئی یا شاید میرے بزرگوں سے۔‘‘ اب میری آنکھوں میں چمک آگئی تھی اور میں بولنے کے قابل ہوگیا تھا۔

’’زادِ راہ کی ضرورت تو تمہیں آئندہ بھی پڑے گی، کیوں؟‘

’’ہاں‘‘

’’تو پھر خالی ہاتھ اور خالی پیٹ زمین ناپنے کی بجائے تم یہیں کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘

’’کام؟کیسا کام؟‘‘ …الفاظ اچانک میری زبان سے پھسل گئے۔

وہ ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے مکان کے عقب میں لے گیا اور ایک بہت بڑے گودام کے آہنی دروازے پر کھڑا ہوکر بولا۔ یہ گندم کی بوریاں ہیں۔ تمہیں یہ بوریاں اٹھا اٹھا کر یہاں سے بازار لے جانا ہوں گی۔ بازار کچھ زیادہ دور نہیں۔ کوئی ڈیڑھ کوس ہوگا۔ ہر بوری سے ایک مٹھی گندم بازار پہنچتے ہی تمہیں مل جائے گا۔ اب یہ تم پر منحصر ہے کہ تم کتنی بوریاں روز بازا رپہنچاتے ہو۔‘‘

میں راضی ہوگیا اور سورج اگنے سے ڈوبنے تک بوریاں ڈھونے لگا۔ سورج ڈوبنے کے بعد مزدوری کا گندم لے کر میں اپنی جھونپڑی میں آتا اور رات تک انہیں چکی میں پیستا رہتا۔

جب گندم کا آٹا کنستروں میں محفوظ ہوگیا تو ایک دن گودام اور بازار کے درمیان میں نے محسوس کیا کہ میری چال سست پڑنے لگی ہے۔اس دن میں نے معمول سے کم پھیرے لگائے، پھر اکثر ایسا ہونے لگا۔

مجھے محسوس ہوتا کہ پورا بدن ٹوٹ رہا ہے اور رگوں میں دورانِ خون سے بھی زیادہ تیزی سے چیونٹیاں دوڑ رہی ہیں۔ طبیعت بہت اچاٹ ہوگئی تو ایک دن میں گودام جانے کی بجائے بستی سے باہر نکل گیا اور چلتا رہا… چلتا رہا…

’’دو گھونٹ پانی پلادو۔‘‘ کنویں سے پانی بھرتی ہوئی عورت کے سامنے ہاتھوں کی اوک بناتے ہوئے میں نے درخواست کی۔

پانی پی کر جب میں نے آستین سے اپنا منہ پونچھ لیا تو اس عورت نے کھنکتی آواز میںپوچھا۔ ’’پیاس بجھ گئی؟‘‘

میں نے کوئی جواب دینے کے بجائے صرف ممنونیت کی نظر سے اسے دیکھا۔

’’صرف دو چلو پانی سے پیاس بجھ گئی۔ بس؟‘‘ عورت کھل کھلا کر ہنسی۔ میرے پورے وجود میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔

شام کا جھٹپٹا ہو رہا تھا۔ پرندے جوڑوں کی شکل میں تیرتے اپنے اپنے ٹھکانوں کو جا رہے تھے۔

عورت نے گاگرا اٹھا کر کمر پر رکھی اور زلفوں کے پیچھے جھٹک کر چلنے لگی۔ وہ چلی تو جیسے زمین بھی اس کے ساتھ چلنے لگی۔ آسمان بھی اس کے ساتھ چلنے لگا۔ ساری کائنات اس کے ساتھ چلنے لگی۔

میں بھی اس کے پیچھے ہولیا۔

اب مجھے محسوس ہوا کہ رگوں میں چیونٹیوں کی دوڑ تو بند ہوگئی ہے۔ مگر سائیں سائیں کرتے ایک بے رنگ بے نام خلا نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اور ہر آن کوئی چیز میرے احساس کے بدن میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے۔ دکھ کی ایک کالی رات میں میں نے اس کو سوتا چھوڑا اور اس کی کشش کے دائرے سے باہر آگیا۔ پو پھٹے جب کہ چڑیاں چہچہاتی ہوئی اپنے آشیانوں سے نکل رہی ہیں میں ایک پہاڑی کے پاس پہنچا جس کی بے شمار جڑوں میں یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ اصل جڑ کون سی ہے۔ میں آنکھیں موند کر بیٹھ گیا۔ تب دنیا کی ہر چیز نے مجھ سے پردہ کرلیا۔ صرف روشنی کا ایک ہالہ تھا جو مجھے اپنی آغوش میں لیے تھا۔ میرے اندر سائیں سائیں کرتا بے رنگ بے نام خلاء بھی دودھیا روشنی سے بھر گیا۔ پھر نہ جانے کتنے چاندکتنے سورج میرے گرد چکر کاٹ کر گزر گئے، آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ دنیا ابھی ابھی تخلیق ہوئی ہے۔ پاس ہی ابھی ابھی ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ ہاتھ پاوں جھاڑ کر چلنے گا تو پاؤں لڑکھڑانے لگے آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ آنتیں جلنے لگیں۔

جیسے تیسے گرتے پڑتے پھر اسی گودام پر پہنچا اور گودام سے بازارو، بازار سے گودام کے درمیان گردش کرنے لگا۔

بدن پھر ٹوٹنے لگا، رگوں میں چیونٹیاں دوران خون سے زیادہ تیزی کے ساتھ دورنے لگیں۔ پھر وہی کنویں سے پانی بھرنے والی عورت او رلذت کے نشے میں شرابور دن اور رات۔

پھر وہی سائیں سائیں کرتے ہوئے بے رنگ بے نام خلا کی اذیت ناک گرفت اوپرپہاڑی کے دامن میں گھنے درخت کے نیچے روشنی کا ہالہ مگر پھر وہی جلتی آنتیں اور گندم کا گودام…

گودام، کنویں اور درخت کے درمیان میں مستقل سفر میں ہوں لیکن ان کے درمیان کا فاصلہ کسی طرح کم نہیں ہوتا بلکہ روز بروز ایسا لگتا ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

چلتے چلتے پاؤں کی ایڑیاں دکھنے لگی ہیں، ماں کہتی تھی ایڑیاں دکھنے لگیں تو سمجھو کہ سفر ختم ہوا۔

مگر؟… مگر نہ سفر ختم ہوتا ہے اور نہ ساتھ ہی زادِ راہ ہے۔!!lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں