بگڑا چہرہ

مہرین ناز

ہر انسان کی یہ فطرت یا عادت ہے جس کا تجربہ یقیناآپ کو بھی ہوگا کہ جب انسان تنہائی میں آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، تو اپنے چہرے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کے لیے طرح طرح کے منہ بناتا اورخود پر مسکراتا ہے۔کبھی بلاوجہ منہ بسورتا ہے،کبھی باچھیں اور ناک سکیڑتا ہے۔ یہی عادت مجھے بھی تھی۔ لیکن مجھے اِس حرکت کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

ہوا یوں کہ ایک دفعہ اپنا چہرہ بھیانک اور ڈرائونا بناکر دیکھ رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ میرا بھیانک اور ڈرائونا چہرہ اسی حالت میں ساکت ہوگیا ہے، میں گھبرا گیا اور چہرے کو اصل حالت میں لانے کے جتن کرتا رہا، مگر بے سود۔ اْس وقت میں غسل خانے میں تھا۔ لہٰذا فوراً کپڑے بدلے اور چہرہ تولیے سے چھپا کر باہر آیا اوربیوی کو آواز دی۔ وہ دوڑی آئی، تو میں نے اپنا ماجرا سنایا۔وہ بھی پریشان ہوگئی۔ کہنے لگی کہ تولیہ ہٹائیں۔ میں نے انکار کیا، تو وہ رونے لگی۔مجبوراً میں نے تولیہ ہٹایا، تو وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔ مجھے سخت غصہ آیا اور ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تمھیں شرم آنی چاہیے، میرا چہرہ بگڑ گیا ہے اور تم دانت نکال رہی ہو۔ وہ کہنے لگی کہ آپ کا چہرہ تو بالکل صحیح سلامت ہے۔ آپ کو وہم ہوگیا ہے میں دوسرا آئینہ لے کر آتی ہوں۔جلد ہی وہ آئینہ لائی،تو میں نے اس میں اپنا چہرہ دیکھا وہ اسی طرح بھیانک اور ڈرائونا تھا۔ میں نے غصے میں آکر آئینہ فرش پر زور سے پھینک کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔

بیگم حیرت اور پریشانی سے میرا منہ تکنے لگی اور کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ میں نے کہا بیگم جلدی کرو۔ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ وہ بادِل نخواستہ میرے ساتھ چل پڑی۔ میں نے اب بھی چہرہ تولیے سے چھپارکھا تھا۔

ڈاکٹر نے کہا کہ تولیہ ہٹائیے۔ اس نے چہرہ دیکھا، تو اطمینان سے بولا آپ کا چہرہ بالکل نارمل ہے جس طرح آپ کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہے۔مجھے بڑا غصہ آیا اور میں نے کہا کہ آئینہ منگوائیے۔ جب میں نے آئینہ دیکھا، تو چہرے کی وہی بھیانک اور ڈرائونی حالت بدستور قائم تھی۔ میں نے کہا کہ آپ کیسے ڈاکٹر ہیں کہ بجائے علاج تجویز کرنے کے مجھے جھوٹی تسلی دے رہے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ جب آپ کو کچھ ہے ہی نہیں، تو علاج کیا کروں؟

میںغصے سے اْٹھ کر ایک اور پرانے نامی گرامی سرجن کے پاس چلا گیا اور اْس کو اپنی رام کہانی سنائی۔ اْس نے کہا کہ چہرے سے تولیہ ہٹائیے، مگر حیرت انگیز طور پراْس نے بھی وہی جواب دیا جوکہ پہلے ڈاکٹر نے دیا تھا۔ میں اول فول بکتا گھرآگیا۔

پھر آئینہ منگوا کر دیکھا۔ اس بار بھی آئینہ میں وہی بھیانک اور ڈرائونا چہرہ نظر آرہا تھا۔ میں دھاڑیں مارکر رونے لگا۔ بیگم الگ پریشان تھی۔ پھر اْس نے میرے چند قریبی رشتہ داروں کو بْلاکر ساری روداد سنائی۔ جب تمام عزیزوں نے ضد کرکے میرا تولیہ ہٹایا، تو بڑے اطمینان سے بولے کہ چہرہ تو بالکل ٹھیک ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ’’روئوں دِل کو کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ اس دوران میں مختلف درباروں پر حاضری دیتا اور دعائیں مانگتا رہا۔ لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔

ایک دن اخبار میں مجھے ایک عامل کامل نجومی کا اشتہار نظر آیا، تو میں اْٹھ کر اْس کے پاس چلا گیااوراْسے ساری تفصیل بتائی۔اْس نے فوراً نیم بْجھے کوئلوں پر حرمل کے چند دانے پھینک کر مجھے دھونی دکھائی اور کاغذ پر اْلٹی سیدھی لکریں مارتے ہوئے کہاکہ بدروح کا تمھارے جسم پر قبضہ ہوگیاہے۔ اس کے لیے سخت محنت کرنی پڑے گی۔ زعفران سے تعویذ لکھنے ہوں گے اور اس پر تمھارے چند ہزار روپے خرچ ہوں گے۔کالے بکرے کی قربانی دینی پڑے گی۔ اْلو کے خون کے چھینٹے تمھارے چہرے پر پھینکے جائیں گے۔ وہ آنکھیں بندکیے کتنی دیر تک اس طرح کی اوٹ پٹانگ بات کرتا رہا۔چپکے سے میں وہاں سے بھی اْٹھ آیا۔

ایک دن اتفاقاً سرِ راہ شہر کے ایک نامور بزرگ مجھے مل گئے۔ میںاْن کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اْن کے آستانے تک آگیا۔ جب وہ اپنی مسند پر بیٹھ گئے، تو میں نے اْن کے پیروں کو چھوا اور زارو قطار رونے لگا۔ انھوں نے محبت سے مجھے تھپکی دی اور رونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے اپنا پورا حال اْن کے سامنے رکھ دیا۔ انھوں نے اطمینان سے میرا چہرہ دیکھا اور کچھ توقف کے بعد فرمانے لگے۔ بیٹے بات دراصل یہ ہے کہ تمھارا ظاہر اور باطن ایک نہیں ہے۔ لوگوں کے سامنے تم اپنی شرافت، دیانتداری اور پارسائی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہو۔ لیکن اتنے شریف ہو نہیں جتنا خود کو ظاہر کرتے ہو۔ مسجدمیں بھی چلے جاتے ہو تاکہ لوگ تمہیں نمازی اور نیک سمجھیں۔ لیکن دوسری طرف حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تم بالکل پروا نہیں کرتے۔ وہ کون ساگناہ ہے جو تم سے سرزد نہیں ہوا۔ وہ کون سا ستم ہے جو تم نے روا نہیں رکھا۔ یہ سب تمھارے اندر کا بھیانک روپ ہے جو تمھیں آئینہ میں نظر آتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ تمھیں اپنے گناہوں، کوتاہیوں، حق تلفیوں کا احساس ہونے لگا ہے لیکن افسوس کہ تم نے تلافی کے لیے کوئی قدم نہیں اْٹھایا۔ خاص طور پر حقوق العباد کی طرف تمھارا دھیان ہی نہیں جاتا۔ کبھی تم نے کسی یتیم یا مسافر کو کھانا نہیں کھلایا۔ کبھی بھی تم نے اپنے ہمسائے کا حال احوال نہیں پوچھا۔ کبھی بھی تم نے کسی بیمار کی مزاج پْرسی اور تیمار داری نہیں کی۔ تم میں فرعونیت عود کر آئی ہے۔ بظاہر تم اْجلے کپڑے پہن کر اور سر پر ٹوپی اوڑھ کر باہر نکلتے ہوکہ لوگ تمھیں سلام کریں۔ بس ہر وقت اپنے محل ماڑیوں کی تعمیر کے فکر میں رہتے ہو کس طرح ان کو مزید مزین کروں۔ میرے پاس قیمتی سے قیمتی گاڑی ہو۔

لیکن مقامِ شکر ہے کہ تمھارا ضمیر سو فیصد مردہ نہیں ہوا۔ اس میںاصلاح والی زندگی کی رمق موجود ہے۔ یہی رمق والا ضمیر تمھیں آئینہ میں نظر آتا ہے۔ میری مانو تو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ رحمت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ بشرطیکہ تم سچے دل سے توبہ کرو۔ پھر انھوں نے مجھے عمر خیام کی ایک رباعی سنائی۔

جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ ایک دن عمر خیام نے باندی کو حکم دیا کہ جلدی سے شراب لے آئو۔ باندی کو شراب لانے میں دیر ہوگئی، تو عمر خیام لال پیلا ہوگیا۔ غصہ سے اس کی آنکھیں شعلے برسانے لگیں۔ جب باندی شراب لے کر آئی اور اس نے عمر خیام کا چہرہ دیکھا ،تو چیخ اْٹھی۔ حضور آپ کا چہرہ سیاہ پڑ چْکا ہے۔ عمر خیام نے آئینہ دیکھا، توواقعی وہ سیاہ تھا۔ تو عمر خیام روتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں فریاد کرتا ہے کہ مولا میں تو معمولی سا خطا کار انسان ہوں۔اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور غصہ میں آگیا۔ لیکن میرے مالک تو، تو رحیم ہے، کریم ہے۔ غفور ہے ہم سب کی پردہ پوشی کرنے والا ہے۔ ہمیں معاف کرنے والا ہے۔ تونے اتنی جلدی مجھے سزا کیوں دے دی۔ جلد بازی انسان کی فطرت ہے۔ تیری نہیں۔ پھر وہ زارو قطار رونے لگا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اْس کے چہرے کا رنگ اصل حالت میںآگیا۔

تم بھی اللہ تعالیٰ سے صِدق دل سے معافی مانگو۔ توبہ استغفار کرو۔ تم میں جو جو برائیاں ہیں اْن سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ ہر وقت اللہ سے ڈرتے اور معافی مانگتے رہو۔ قرآن مجید کی تلاوت کو معمول بنا لو۔ بلکہ با ترجمہ پڑھا کرو۔ مجھے قوی اْمید ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ تمھاری لغزشیں، تمھارے گناہ معاف فرمادے گا۔ وہ غفور ورحیم ہے۔ تم پر ضرور رحم کرے گا۔ اللہ کی رحمت سے مایوسی گناہ ہے۔جس قدر ممکن ہوبرے کاموں اور بْری سوچوں سے بچنے کی کوشش کرو۔ کسی کا دل دکھانے سے اجتناب کرو۔ ان شاء اللہ پھر تمھیں اپنا چہرہ آئینہ میں بھیانک اور ڈرائونا نظر نہیں آئے گا۔ تمھاری بیماری یا وہم کا بس یہی علاج ہے۔ اللہ حافظ !

میں گھر واپس آچکا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ بات تو سچ ہے۔ مگر بات ہے رسوائی کی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں