بھارتی

محمد طارق

شہریت ترمیمی بل کے قانون بنتے ہی بہت سارے بھارتی سڑکوں پر اتر آئے۔ اب بھارتیوں سے بھارتی ہونے کا ثبوت مانگا جائے گا جس کے تحت یہ طے کیا جائے گا کہ کون بھارتی ہے، کون بھارتی نہیں ہے۔ جن کے پاس کوئی دستاویز نہیں ان کا کیا؟

اس قسم کے سوالات نے بہت سارے بھارتیوں کو بے چین کردیا تھا اور وہ شہروں میں احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے۔ ان میں درس گاہوں کے طلبہ بھی شامل تھے۔

قومی شاہراہ پر سرکار کے اس قانون کے خلاف فلک شگاف نعرے لگاتا ہوا ہجوم آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک ٹی وی چینل کا رِپورٹر کیمرہ مین کے ساتھ ہجوم کا حصہ بنا ہوا تھا۔

رپورٹر نے ایک شخص کو دیکھا جو بے لباس احتجاج کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پوسٹر تھا اور جسم پر صرف نیکر۔ رپورٹر اس کی طرف بڑھا اور پوچھا تم بے لباس کیوں احتجاج کر رہے ہو وہ بھی اس سردی کے موسم ہیں؟

وہ بولا: ’’احتجاجیوں کی پہچان جب لباس سے کی جانے لگے تو میں بغیر لباس کے ہی احتجاج کرنا پسند کروں گا۔‘‘

اس بے لباس شخص کے پاس ہی ایک اور احتجاجی غصے سے بھرا کھڑا تھا۔ بولا ’’جس دیش کی جنتا نے جن لوگوں کو چن کر دیا ہے وہی چنے ہوئے لوگ اب ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ اگر تم اس دیش کے ناگرک ہو تو ثابت کرو، ہے نا حیران کردینے والی بات!

ٹی وی رپورٹر کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس نے نظریں گھمائیں، ہجوم میں اسے ایک لڑکا نظر آیا۔ وہ ہجوم کا سب سے کم عمر فرد تھا۔ ہوگا گیارہ بارہ سال کا۔ اسے دیکھ کر رپورٹر کی آنکھیں چمک اٹھیں وہ فوراً اس کی طرف مائک لیے لپکا۔

’’تمہارا نام کیا ہے بیٹا؟ رپورٹ نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا۔

… ’’لڑکے نے اپنا نام بتا دیا۔

’’بیٹا اس ریلی میں کیوںآئے؟

’’ماں نے مجھے بھیجا ہے۔ ماں نے کہا تھا کہ میں کام دھندا چھوڑ کر نہیں جاسکتی تو چلا جا۔‘‘

’’کیا کرتی ہے تمہاری ماں؟‘‘

’’میری ماں پاس پڑوس کے بڑے لوگوں کے گھروں میں جاکر جھاڑو پونچھا کرتی ہے۔‘‘

’’کیا وہ پڑھی لکھی ہے؟‘‘

’’نہیں، لمحہ بھر خاموش رہ کر وہ بولا ’’ماں کے پاس بھارتی ہونے کا کوئی کاغذ بھی نہیں ہے۔‘‘

’’اور تمہارے پاس؟‘‘ رپورٹر نے پوچھا۔

’’میں اسکول میں پڑھتا تھا، وہاں سے ماں میرا بھارتی ہونے کا کاغذ نکال لے گی۔‘‘

’’کیا تم اب نہیںپڑھتے؟‘‘

’’نہیں… مہنگائی زیادہ ہوگئی ہے نا اور میری ماں کی کمائی کم ہے۔ اس لیے میں نے تین کلاس پڑھ کر چھوڑ دیا اور پنکچر والے کی دکان پر کام کرتا ہوں، دونوں کی کمائی سے گھر چلتا ہے۔‘‘ لڑکا بولا۔

’’تمہارے پتا جی کیا کرتے ہیں؟‘‘ رپورٹر نے دریافت کیا۔

لڑکے نے لمحہ بھر کے لیے سر جھکایا اور پھر نہایت افسردہ لہجے میںکہنے لگا۔ ’’میرے ابا مزدور تھے، شہر میں دنگا ہوا۔ وہ دنگائیوں کو سمجھانے کے لیے گھر سے نکلے اور مارے گئے۔‘‘ یہ کہہ کر لڑکے نے سر جھکا لیا اور پھر سرد سانس اپنے سینے میں بھر کے کہا: ’’بہت اچھے تھے میرے ابا! جب بھی شام کو گھر آتے تو پوچھتے تھے: ’’آج کیا پڑھ کے آئے ہو بیٹا! ’’اور میں انہیںوہ بتا دیتا جو ماسٹر جی پڑھاتے تھے۔ اس میں ایک بات میں روز انہیں سینے پر ہاتھ باندھ کر بتاتا تھا جو ماسٹر جی کلاس میں روز دہرایا کرتے تھے۔

’’وہ بات کیا تھی بیٹا؟‘‘ رپورٹر نے پوچھا:

’’لڑکا بولا: ’’بھارت میرا ملک ہے۔ سب بھارتی میرے بھائی اور بہنیں ہیں اور مجھے اپنے وطن سے پیار ہے۔‘‘ یہ کہہ کر لڑکا ہجوم کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ رپورٹر ہاتھ میں مائک لیے اسے تکتا رہ گیا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں