کوٹھری سے تیکھی برچھی کی طرح روشنی کی لکیر ایک جھری سے باہر آرہی تھی۔ بیٹھک کے بڑے تختوں کی دراڑ سے بھی روشنی سفید لہو کی دھار کی طرح باہر جا رہی تھی۔
آنگن کے بیچ میں ایک پرانا اور گھنانیم تھا۔ نیم کے نیچے وہ ماضی کے ٹوٹے ہوئے دھاگے جور جوڑ کر کوئی کہانی بن رہا تھا۔
کچے پرانے دھاگے۔
کالی اندھیری رات، ٹپ ٹپ بارش کی ننھی ننھی بوندیں، کبھی بادل گرجتے، کبھی بجلی چمکتی۔
اس کے چار بیٹے تھے۔ اسے ان کی شادی کی فکر تھی، پچھواڑے دو کوٹھریاں تھیں، آگے ایک کمرہ تھا اور باہری دروازے کے نزدیک ایک بیٹھک تھی۔
بڑے لڑکے کا بیاہ ہوا تو پچھلی کوٹھری کے لیے اور اس کی گھر والی کے لیے مخصوص ہوگئی۔
دوسرے لڑکے کا بیاہ ہوا تو پیچھے کی دوسری کوٹھری میں باپ کا آنا جانا بند ہوگیا۔ اب اس کوٹھری میں دوسرا لڑکا اور اس کی بیوی رہتے تھے۔
تیسرے لڑکے کو شادی کے بعد آگے والا کمرہ مل گیا۔
اب اسے چوتھے بیٹے کی فکر تھی۔ اس آخری لڑکے کے لچھن ٹھیک نہیں تھے۔ کھیتی باڑی میں اس کا جی نہیں لگتا تھا، اگر یہ کنوارا رہ گیا تو لوگ کیا کہیں گے۔
آخر ایک دن چوتھے لڑکے کی بھی شادی ہوگئی۔ اس نے جہیز کا سامان بیٹھک میں سجا دیا۔
بوڑھا باپ نیم کے نیچے آگیا۔ بالکل اکیلا اور ہر فکر سے آزاد۔ وہ سوچ رہا تھا یہ نیم کاٹ کر وہ اپنے لیے ایک چھوٹا سا کچا کوٹھا کیوں نہ ڈال لے، لیکن اس کے مرنے کے بعد اس کے چاروں بیٹے کوٹھا کیسے بانٹیں گے…؟ نیم کا درختو چلو کاٹ کر بانٹ بھی لیں گے۔
ایک بار وہ اٹھ کر گردوارے کی طرف جانے لگا لیکن پھر لوٹ آیا۔ لوگ کیا کہیں گے؟ اتنے بڑے خاندان کا مالک … اور
اب وہ کھیس کی بکل مارے نیم کے نیچے بیٹھا تھا۔ ٹپ ٹپ، آہستہ آہستہ بارش ہو رہی تھی اور اس کے کپڑے ایک ایک کر کے بھیگتے جا رہے تھے۔l