بہادر مائیں! (۱)

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں خواتین کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ جس قوم کی مائیں اپنے فرائض کی ادائیگی پورے شعور اور آگہی کے ساتھ کرتی ہیں وہ قومیں عروج پاتی اور تادیر زندہ رہتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ ایسی بے شمار ماؤں سے بھری ہوئی ہیں جنہوں نے اپنی بہترین تربیت سے قوموں اور ملکوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی ۔انہوں نے اپنی اولاد کی ایسی تربیت کی کہ ان کی عظمت و شوکت اور شہرت و ناموری امر ہوگئی ۔ایسی مائیں تادم قیامت بہتوں کے لئے بہترین مثالیں ہیں۔ہماری تاریخ ایسی ماؤں کے واقعات سے بھری ہوئی ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو دین کی خدمت کے لئے تیار کیا اور ان کے اندر ایسا جذبہ اور جنون پیدا کر دیا کہ وہ اسلام کے فدائی بن گئے اور باطل کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ کچھ نے جان کی قربانی دے کر، کچھ نے مال کی قربانی سے ، کچھ نے راہ اسلام میں آنے والی تمام مشکلات کو صبر کے ساتھ برداشت کرکے، کچھ نے قلم سے جہاد کرکے اورکچھ نے دین کو قول و عمل سے پھیلا کر، غرض جس کو جیسے موقع ملا، اس نے اس سے فائدہ اٹھا کر اسلام سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ماں کی تربیت اور ان کے عمل نے انہیں دنیا میں بھی شہرت اور ناموری عطا کی اور اللہ کے یہاں بھی انہیں محبوب بنا دیا۔ذیل میں چند صحابیات کا بحیثیت ماں ذکرہے۔
حضرت زبیر بن عوام ؓ کی والدہ حضرت صفیہ ؓ
حضرت زبیر بن عوام ؓ کا شمار ان دس خوش نصیب صحابہ کرام ؓ میں ہوتا ہے جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔آپ کی والدہ کا نام حضرت صفیہ بنت عبد المطلب ہے ۔ حضرت زبیر بن عوام ؓ کو یہ مرتبہ اور شرف دلانے میں ان کی ماں کا نہایت ہی عظیم کردار ہے۔ حضرت صفیہ ؓ نبی اکرم ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ چنانچہ آپ نبی اکرم ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی ہوئے۔ حضرت اسماء ؓ سے شادی ہونے کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کے ہم زلف ہوئے۔ حضرت خدیجہ ؓ کے بھی حقیقی بھتیجے تھے۔ اس طرح ذات نبوی سے ان کو کئی نسبتیں حاصل تھیں۔
والد کے انتقال کے بعد ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ نے ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہو کر ایک عالی حوصلہ، بہادر اور اولو العزم مرد ثابت ہوئے۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت صفیہ بچپن سے ان پر بہت سختی کرتی تھیں اور زودوکوب سے کام لینے کے ساتھ سخت سے سخت محنت والے کام لیتی تھیں۔ ایک دفعہ نوفل بن خویلد جوحضرت زبیر بن عوام ؓ کے چچا تھے اور باپ کی وفات کے بعد ان کے ولی تھے وہ نہایت خفا ہوئے اور کہا کہ تم اس بچے کو ما رڈالو گی کیا؟ اور بنو ہاشم سے شکایت کی کہ وہ حضرت صفیہ کو سمجھائیں ۔ حضرت صفیہ نے حسب ذیل رجز میں ان کا جواب دیا: جس نے یہ کہا کہ میں اس سے بغض رکھتی ہوں تو اس نے جھوٹ کہا، میں اس کو اس لئے مارتی ہوں کہ عقل مند ہو اور فوج کو شکست دے اور مال غنیمت حاصل کرے۔
اسی تربیت کا اثر تھا کہ وہ بچپن میں ہی بڑے بڑے مردوں کا مقابلہ کرنے لگے تھے۔ ایک بار مکہ میں ایک جوان پہلوان سے مقابلہ پیش آیا ۔ انہوں نے ایسا ہاتھ مارا کہ اس کا ہاتھ ہی ٹوٹ گیا ۔ لوگ اسے لاد کر شکایتا حضرت صفیہ کے پاس لائے تو انہوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا؟ بہادر یا بزدل ۔
ابھی کمسن ہی تھے کہ ایک بار کسی نے مشہور کر دیا کہ مشرکین نے آنحضرت ﷺ کو گرفتا کر لیا ہے۔ یہ سن کر جذبۂ جانثاری سے ایسے بے خود ہوئے کہ ننگی تلوار کھینچ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ آنحضرت ﷺ نے دیکھا تو پوچھا زبیر یہ کیا ؟بولے مجھے معلوم ہوا کہ نعوذ باللہ آپ کو مشرکین نے گرفتار کر لیا ہے ۔ آپ ﷺ نہایت خوش ہوئے اور ان کے لئے دعائے خیر فرمائی۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت میں ایک بچے کے ہاتھوں سے برہنی ہوئی۔
غزوۂ بدر اور احد میں نہایت ہی جانبازی اور دلیری کے ساتھ حصہ لیا ۔ آپ استقامت اور جانثاری کے جذبے سے شرسار تھے۔ اس بہادری سے لڑے کہ تلوار میں دندانے پڑ گئے۔ جسم زخموں سے چھلنی ہو گیا۔ جانثاری اور فدا کاری کے جذبے کی وجہ سے حواری رسول ﷺ کا لقب ملا۔
حضرت صفیہ ؓ خود بہت نڈر اور بہادر تھیں۔ یہ سید الشہداء حضرت حمزہؓ کی سگی بہن تھیںجن کی بہادری اور جرأت کا عرب لوہا مانتے تھے۔ غزوہ خندق میں اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو ایک قلعے میں ٹہرا دیا تھا۔ کافروں کو خبر ہوئی تو سن گن لینے کے لئے اپنے ایک بہادر سپاہی کو بھیجا۔ حضرت صفیہ ؓ نے دیکھ لیا اور ان کا مقصد سمجھ گئیں۔ جلدی سے خیمے کی ایک چوب اکھاڑی اور دشمن کے سر پر اتنا کاری وار کیا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا پھر سر کاٹ کر دشمنوں کی طرف پھینک دیا جس سے انہیں لگا کہ قلعے میں مرد بھی ہیں پھر ادھر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کر پائے۔اس طرح صفیہؓ کی بہادری اور حوصلہ مندی سے عورتیں خطرات سے محفوظ ہو گئیں۔
یہ وہی صفیہؓ ہیں جو غزوہء احد میں حمزہ ؓ کی شہادت کے بارے میں سن کر پہنچیں۔ چونکہ لاش کا مثلہ کیا گیا تھا تو اسے دیکھ کر برداشت کر نا بہت مشکل تھا۔ نبی کریم ﷺ نے منع کیا لیکن اس صبر و استقلال کے پیکر نے جزع و فزع نہ کرنے کے وعدے پر اپنے بھائی کی مثلہ شدہ لاش کو دیکھا اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر واپس آگئیں۔
حضرت اسماء بنت ابو بکرؓ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی والدہ
حضرت عبداللہ بن زبیر حضرت اسماءؓکے بیٹے تھے اور یہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی بیٹی، حضرت عائشہ ؓ کی بہن اور حضرت زبیر بن عوام ؓ جیسے جلیل القدر صحابی کی بیوی تھیں ۔ آپ کو ذات النطاقین کا لقب ملا تھا۔ یہ نہایت ہی جری اور بہادر تھیں۔عبداللہ بن زبیر مدینہ میں پیدا ہونے والے سب سے پہلے مسلمان بچے تھے۔ آپ نے بچپن سے ہی عبداللہ ؓ کو ایسی زبر دست تربیت دی کہ چھوٹی عمر میں ہی انہیں اسلام کا ایک بہادر اور نڈر سپاہی بنا دیا۔ابھی چار یا پانچ سال کے تھے کہ غزوہ خندق ہو ئی۔ حضرت اسماء ؓ انہیں لڑائی دیکھنے بھیج دیتیں۔ آپ بچپن سے ہی تیروں اور تلواروں کی لڑائی دیکھتے بڑے ہوئے اور ایسے بہادر نوجوان بنے کہ اس وقت ان کے مقابلے کا کوئی دوسرا بہادر نہ تھا۔ اپنے والد کے ساتھ جنگ یرموک اور افریقہ کی جنگ میں شریک تھے۔ حضرت عثمان کی شہادت کے فتنے میں ان کی مدافعت کررہے تھے۔ انہوں نے اموی خلیفہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ خود خلافت کا دعوی کیا تقریبا بارہ سال تک پہلے صرف حجاز، اور پھر حجاز، عراق، یمن، مصر، خراسان وغیرہ شام کو چھوڑ کر ایک بڑے علاقے کے خلیفہ رہے۔ پھر عبدالملک بن مروان خلیفہ بنے تو انہوں نے حجاج بن یوسف کو ان کے خلاف جنگ کے لئے بھیجا۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان سے لڑائی میں جب عبداللہ بن زبیر کے پاس فوج بہت کم ہو گئی تو عبداللہ نے ماں سے مشورہ کیا کہ اب کیا کروں؟ انہوں نے جن الفاظ میں جوش دلایا وہ ہم ماؤں کے لئے مشعل راہ ہے: بیٹا تم اپنی بات اچھی طرح سمجھتے ہو۔ اگر اللہ کے واسطے لڑ رہے ہو اور سچائی کے طرف دار ہو تو تم کو ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے، جاؤ مردوں کی طرح لڑو۔ جان کا خوف نہ کرو۔ عزت کے ساتھ تلوار کا زخم کھانا بدنامی کے سکھ سے ہزار گنا زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم شہید ہو گئے تو مجھے خوشی ہو گی۔ اور اگر تم دنیا کا مال و دولت چاہتے ہو اور اس کے لئے لڑ رہے ہو تو تم سے برا کون ہوگا۔ تم کب تک زندہ رہو گے۔ ایک دن مرنا ہے اس لیے اچھا یہ ہے کہ نیکی کے طرف دار ہو کر جان دو۔ ابن زبیر ؓ نے کہا کہ ماں میں موت سے نہیں ڈرتا ہوں بس مجھے خوف ہے کہ وہ میری لاش کا مثلہ کر دیں گے اور صلیب پر لٹکائیں گے۔ جلیل القدر ماں نے کہا: بیٹے بکری جب ذبح کر ڈالی جائے تو پھر اس کی کھا ل کھینچی جائے یا اس کے جسم کے ٹکڑے کیے جائیں ، اسے کیا پروا؟ تم اللہ پر بھروسہ کر کے اپنا کام کرو۔ راہ حق میں تلواروں سے قیمہ ہونا گمراہوں کی غلامی سے ہزار درجہ بہتر ہے ۔ موت کے خوف سے غلامی کی ذلت کبھی قبول نہ کرنا۔
یہ سننا تھا کہ آپ اتنی بے جگری اور بے خوفی سے لڑے کہ دشمنوں کے پسینے چھوٹ گئے لیکن کہاں ایک طرف ہتھیاروں سے لیس ایک بڑی فوج اور کہاں مٹھی بھر لوگ ۔ آخر میں عبداللہ بن زبیر کو شہید کر دیا گیا۔ شہادت کے بعد حجاج بن یوسف کے حکم سے ان کا سر کاٹ کر عبدالملک بن مروان کے پاس بھیج دیا گیا اور جسم کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ شہادت کے تین دن بعد ماں کا گزر اسی جگہ سے ہوا جہاں بیٹے کی لاش سولی پر لٹکی ہوئی تھی انہوں نے لخت جگر کی لاش کو دیکھ کر فرمایا : کیا ابھی سوار کے اترنے کا وقت نہیں آیا؟
جب ماں اتنی مضبوط اعصاب کی مالک ہوگی تو بیٹا تو بہادر اور نڈرہو گا ہی۔ حالانکہ اس وقت حضرت اسماء ؓ کی عمر سو سال کے قریب تھی۔اوپر ابھی حضرت صفیہؓ کا ذکر ہوا ہے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ انہیں کے پوتے تھے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں