بہادر مائیں! (۲)

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

حضرت ام سلیم ؓبنت ملحان والدہ حضرت انسؓ بن مالک
نبیﷺ نے فرمایا: میں جنت گیا تو مجھے آہٹ معلوم ہوئی ۔ پوچھا کون ہے؟ بتایا گیا رمیصا بن ملحانؓ۔ یہ کیسی خوش قسمت خاتون ہیں جنہیں اس لطیف انداز میں جنت کی خوش خبری دی گئی۔ جنت کی خوش خبری تو یونہی نہیں ملی ہو گی انہوں نے نہ جانے کتنی مشکلات اور پریشانیاں برداشت کی ہوں گی۔ کیسی کیسی آزمایشوں کی بھٹی میں تپی ہوں گی۔ کیونکہ جنت کو تو سختیوں سے ڈھانک دیا گیا ہے۔ یہ قابل رشک خاتون حضرت انس بن مالک جیسے صحابیء رسول کی والدہ ہیں۔ یہ ایک بہترین ماں، بہترین بیوی، اسلام کی فدا کار، محبت رسول ﷺ سے سرشاراور نہایت ہی صابر و شاکر تھیں۔ انصار میں سے جنہوں نے اسلام لانے میں سبقت کی ان میں ام سلیم ؓ بھی ہیں۔ آپ خود تو مسلمان ہو گئی تھیں لیکن شوہر مالک بن نضر مسلمان نہیں ہوئے۔ اس وقت ام سلیم کے پاس ایک بچہ بھی تھا یعنی حضرت انسؓ ۔ وہ انہیں روز کلمہ سکھایا کرتی تھیں ۔ جس پر ان کے شوہر خفا ہوتے اور ایک دن اسی غصے میں شام چلے گئے اور وہیں کسی دشمن نے قتل کر دیا۔
ام سلیم ؓ بچے کی تربیت کے لیے ہر وقت کوشاں رہتیں۔ وہ اسے اسلام کا سچا نمونہ بنانا چاہتی تھیں۔ وہ ہمہ وقت انہیں نیکیوں پر ابھارتیں، اسلامی عقائد اور اوامر و نواہی کے بارے میں بتاتیں۔ اس سلسلے میں وہ اتنی حساس تھیں کہ شوہر کی وفات کے بعد یہ کہہ کر شادی کرنے سے منع کردیا کہ جب تک میرا بچہ محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے لائق نہ ہو جائے گا، اس وقت تک شادی نہیں کروں گی۔
جب نبی اکرم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اس وقت انس بن مالکؓ تقریبا آٹھ سال کے تھے۔ چونکہ ام سلیمؓ بہت دور اندیش بھی تھیںچنانچہ انہوں نے انسؓ کو نبیﷺ کی خدمت میں دے دیا۔ اب وہ نبیﷺ کی خدمت میں تربیت پانے لگے اور بارگاہ نبوی ﷺ سے براہ راست فیض یاب ہونے لگے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جن صحابہ کرام سے کثرت سے احادیث مروی ہیں ان میں سے ایک انسؓ بھی ہیں۔
انسؓ اسے اپنی ماں کا بہت بڑا احسان سمجھتے تھے کہ انہوں نے ان کو حضورﷺ کی خدمت میں دے دیا اور کہا کرتے تھے: اللہ میری ماں کو جزائے خیر عطا فرمائے انہوں نے مجھے کیا خوب ہی پالا۔
نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں دینے کے بعد بھی ام سلیم آپ کی تربیت سے غافل نہیں تھیں۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا نبیﷺ نے مجھے بلایا اور ایک کام کرنے کے لئے کہا ۔ اس کام کے کرنے کی وجہ سے مجھے ماں کے پاس پہنچنے میں دیر ہو گئی۔ ماں نے تاخیر کا سبب پوچھا تو میں نے کہا کہ حضور ﷺ نے ایک کام کے لئے بھیج دیا تھا۔ انہوں نے کہا کیا کام تھا؟ میں نے کہا یہ ایک راز کی بات ہے۔ ماں نے کہا حضورﷺ کا راز کسی کو نہیں بتانا۔ یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔
حضرت ام سلیم نہایت جری اور بہادر بھی تھیں۔ انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ جب جہاد پر جاتے تو میری ماں ام سلیم اور انصار کی دوسری عورتوں کو ساتھ لے جاتے ۔ یہ عورتیں مجاہدین کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کا علاج کرتیں۔جنگ احد میں جب میدان جنگ میں افراتفری مچ گئی تھی ام سلیم ؓ اور حضرت عائشہؓ اپنی پیٹھ پر پانی کی مشک بھر بھرکر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتیں۔
یہ نبیﷺ کی صحبت کی فیض یابی اور ماں کی دوراندیشی اور تربیت کا اثر تھا کہ انس بن مالکؓ مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے عظیم محدث بھی تھے۔ ان کا شمار کثیر الروایات صحابہ کرام ؓ میں ہوتا ہے۔ علامہ ذہبی کے مطابق ان سے ۲۲۸۶ روایات احادیث مروی ہیں ۔ ان میں سے ۱۸۰ احادیث پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے۔
حضرت ام عمارہؓ والدہ حضرت حبیب بن زیدؓ اور عبداللہ بن زیدؓ
غزوہء احد میں آپﷺ نے فرمایا ـ’’ میں نے اپنے دائیں بائیں ام عمارہ کو ہی لڑتا ہوا پایا‘‘۔
تاریخ اسلام میں جن صحابہ اور صحابیات نے اپنی بہادری اور فدا کاری کے جوہر دکھائے ان میں سے ایک ام عمارہؓ بھی ہیں۔ ان کا مقام اللہ کے رسولﷺ کی نظر میں اتنا بلند تھا کہ بڑے بڑے صحابہ کرام ان کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔ یہ شرف و منزلت ان کی سرفروشی اور جانثاری کی وجہ سے ملا۔ حضرت ام عمارہؓ انصاریہ تھیں۔ ان کے شوہر کا نام زید بن عاصم تھا۔ جن سے دو بیٹے تھے حضرت عبداللہ اور حضرت حبیبؓ۔ شوہر کی وفات کے بعد انہوں نے عربہ بن عمروؓ سے شادی کر لی اور ان سے بھی دو بیٹے تھے۔ اپنی ماں کی طرح بچے بھی عشق رسول ﷺ سے سرشارتھے اور شہادت کا عظیم مربتہ ملاتھا۔ ام عمارہؓ نے بیعت عقبہ اولیٰ میں حضورﷺ پر اپنی جان اور مال قربان کرنے کا عہد لیا تھا۔ اس بیعت میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ تھیں اور مدینہ میں وہ لوگ جنہیں اسلام قبول کرنے میں السابقون الاولون کا شرف حاصل ہوا، ام عمارہ ان میں سے ایک تھیں۔
ام عمارہؓ نہایت ہی جری، نڈراوربے خوف تھیں۔ جانثاری اور فدا کاری کے جذبے سے سرشار تھیں۔ یہی بے خوفی، جرآت مندی، بہادری اور فداکاری کی تعلیم آپ نے اپنے بیٹوں میں بھی دی تھی۔ غزوۂ احد میں آپ اپنے شوہر عربہ بن عمرو اور دونوں بیٹوں کے ساتھ شریک تھیں۔ جب میدان جنگ میں بھگدڑ مچ گئی اور اسلامی لشکر تھوڑی دیر کے لئے تتر بتر ہوگیا، نبیﷺ تنہا رہ گئے، چاروں طرف سے تیر و تلوار کی بارش ہو رہی تھی، بڑے بڑے بہادر گھبرا گئے تھے، ایسے میں جو جانثار آپﷺ کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہوگئے ان میں سے ایک ام عمارہ بھی تھیں۔ جب انہوں نے لڑائی کابدلتا منظر دیکھا تو تلوار سونت کر کافروں پر پل پڑیں۔ ان کی تلوار بجلی کی طرح چمک رہی تھی۔ جب کفار حضورﷺ پر وار کرتے تو کبھی اپنی ڈھال پر روکتیں اور کبھی تلوار سے کاٹتیں۔ اپنے بہادر بیٹوں کو بھی سمجھا دیا تھا کہ جب میں دشمنوں کا وار روکوں تو تم پیچھے سے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دینا ۔ جب سوار نیچے گر جاتا تو ماں بیٹے مل کر اس کا خاتمہ کر دیتے۔ اولاد بھی ایسی کی ماں کی ایک آواز پر تعمیل حکم میں لگ جاتی۔ اسی جنگ میں حضرت عبداللہؓ جب زخمی ہوگئے اور گر پڑے تو خود زخموں پر پٹی باندھی اور ہمت بندھاتے ہوئے کہا ’’ اٹھ، بڑھ اور کافروں سے لڑ‘‘۔ یہ تھا ایک ماں کا جذبہ ایمان جو ممتا پر غالب تھا۔ اس ہمت پر آپ ﷺ نے فرمایا’’ اے ام عمارہ: جتنی طاقت تم میں ہے اتنی کسی اور میں کہاں۔‘‘
اسی لڑائی میں ایک کافر ابن قمیہ نے تلوار سے حضورﷺ پر وار کیا ۔ یہ تلوار آپﷺ کے خود کے حلقوں پر پڑی، نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے حضورﷺ کے دانت میں دھنس گئے اور خون بہنے لگا ۔ ام عمارہ حضورﷺ کا یہ حال دیکھ کر بے چین ہوگئیں، آگے بڑھ کر ابن قمیہ پر وار کیا لیکن دہری زرہ پہننے کی وجہ سے اس پر کوئی اثر نہ ہوا، جواب میں اس نے ان پر وار کیا جس سے کاندھے پر نہایت ہی کاری ضرب لگی اور آپ خون میں نہا گئیں۔ آپﷺ نے فرمایا’ ’ واللہ آج ام عمارہ کا کارنامہ سب کے کارناموں سے بڑھ کر ہے۔ یہ سن کر ام عمارہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ !اللہ سے دعا کیجئے کہ میں جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ آپؐ نے دعافرمائی تو و ہ بے اختیار پکار اٹھیں اب مجھے دنیا کی کسی مصیبت کی پرواہ نہیں۔
ان ہی کے بیٹے حضرت حبیبؓ کو مسیلمہ نے قید کر لیا اور کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں؟ حضرت حبیب نے جواب دیا ہاں، میںگواہی دیتے ہو کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ یہ سن کر وہ بولا نہیں، تم گواہی دو کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ حضرت حبیبؓ نے لاحول پڑھی اور سختی سے انکار کر دیا۔ تو اس نے جھنجھلاکر ان کا ایک ہاتھ کٹوا دیا۔ اور بولا اب کہو مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ حضرت حبیبؓ نے لاحول پڑھی اور پھرسے انکار کر دیا۔ تو اس نے ان کا دوسرا ہاتھ کٹوا دیا۔ اسی طرح بار بار اصرار کرتا رہا کہ اسے رسول تسلیم کر لیں لیکن ام عمارہ کی تربیت یہ تھی کہ ان کے فرزند ہر بار انکار کرتے رہے یہاںتک کہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتے کاٹتے تکا بوٹی کر ڈالا۔ کیا عظیم ذات تھی تسلیم و رضا کے پیکر، جانباز، ایمان کے جذبات سے لبریز، جسم کی بوٹی بوٹی کٹوا دی لیکن راہ حق سے قدم نہیں ہٹایا۔ اللہ ان سے راضی ہو۔جب ام عمارہ کو اس دردناک واقعے کی خبر ملی تو صبر کرتے ہوئے عہد کیا کہ اگر مسیلمہ پر لشکر کشی ہوئی تو اس ظالم کو اپنی تلوار سے جہنم رسید کروں گی۔ چنانچہ جنگ یمامہ میں جو مسیلمہ کے خلاف دور صدیقی میں ہوئی تھی اپنے بیٹے عبداللہ کے ساتھ گئیں اس وقت عمر تقریبا ساٹھ سال کی تھی لیکن ایسی بہادری سے لڑیں کہ بڑے بڑے بہادروں کو حیرت میں ڈال دیا ۔ کئی بڑے بڑے زخم لگے، ایک ہاتھ کلائی سے جدا ہو گیا لیکن کسی طرح مسیلمہ کے پاس پہنچ گئیں ابھی وار کرنا ہی چاہتی تھیں کہ ایک ساتھ دو تلواریں چمکیں اور مسیلمہ کٹ کر ڈھیر ہو گیا۔ یہ تلواریں ان کے بیٹے اور وحشیؓ کی میان سے نکلی تھیں۔
ام عمارہ ؓ کے بیٹے عبداللہ کی بہادر ی کے بارے میں اوپر کے واقعات سے پتا چلتا ہے۔ ساتھ ہی یہ کئی حدیثوں کے راوی بھی ہیں۔یزید کے دور میں آپؓ ان صحابہ کرام ؓمیں سے تھے جو یزید کے خلاف جہاد فرض سمجھتے تھے۔ چنانچہ ۶۳ھ میں یزیدی لشکر کے خلاف جنگ کرتے ہوئے اپنے دونوں بیٹو ں سمیت مدینہ میں شہید ہوگئے۔
اوپر کے واقعات میں ہمارے لئے بحیثیت ماں جو اسباق ہیں ان کا جائزہ لے لیتے ہیں:
۱۔ یہ ہستیاں خود نہایت ہی عظیم ہستیاں تھیں، جوصبر و استقلال کا پیکر ، نہایت ہی پاکباز، بہادر، صبر و شکر کی چٹانیں تھیں۔ یعنی ان کی تربیت محض زبانی تربیت نہیں تھی بلکہ وہ اپنی اولاد کو جن امور کی تربیت دیتی تھیں اس کا خود عملی نمونہ تھیں۔ پہلا اور سب سے اہم سبق یہ ہے کہ جن اخلاق، عادات و اطواراورامورکو ہم اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں اس کا خود عملی نمونہ بن کر دکھائیں۔
۲۔ بچوں کی تربیت سے کبھی بھی ذرہ برابر غافل نہ ہوں۔ چاہے اولاد کتنی ہی بڑی اور اونچے درجے والی کیوں نہ ہو جائے آپ انہیں بھلائی اور خیر کی نصیحت کر تی رہیں۔
۳۔ اسلام کے لئے فدائیت، جانثاری ، اس کو پروان چڑھانے اور اس کی حفاظت کا جذبہ ہماری رگ و پے میں سرایت ہو اور اس خلاف اٹھنے والا ہر قدم ہمیں بے چین کر دے تاکہ ہماری یہ تڑ پ ہماری اولاد کی تڑپ بن جائے اور یہ تڑپ نسل در نسل منتقل ہوتی رہے اور اسلام کے پروان چڑھنے کا سبب بنتی رہے۔
۴۔ ہم جن چیزوں کو اہمیت دیں گے بچہ اسی چیز کو اہم سمجھے گا۔ بچہ شروع کے چند سالوں میںدنیا کو والدین کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسی دور میں بچے کو خدا سے قریب کر دیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو وہ کبھی دین سے دور نہیں ہو پائے گا اور اگر خدا نخواستہ کبھی بھٹک بھی گیا تو بہت جلد لوٹ آئے گاکیونکہ بچپن کی تربیت بڑھاپے تک ساتھ نہیں چھوڑتی ہیں۔
سر سید کی والدہ بہت ہی نیک اور شریف عورت تھیں۔ سر سید ابھی بچے ہی تھے کہ کسی بات پر ناراض ہو کر ملازم کو تھپڑ مار دیا۔ امی جان کو معلوم ہوا تو بہت ناراض ہوئیں۔ گھر سے نکال دیا، مارے ڈر کے خالہ کے گھر جا چھپے، تین دن بعد خالہ کو سفارشی بنا کر ساتھ لے کر آئے لیکن ماں نے کہا جب تک ملازم سے معافی نہیں مانگ لے گا تب تک میں معاف نہیں کروں گی اور نہ ہی گھر میں رہنے دوں گی۔ آخر سرسید نے نوکر سے معافی مانگی تب کہیں جا کر امی کی طرف سے بھی معافی ملی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں