مجھے اب یہ یاد نہیں رہا کہ میں اس روز وہاں سے کس کام سے گزر رہا تھا۔ ہاں اتنا یاد ہے کہ اس روز مجھے کوئی خاص کام نہیں تھا۔ اس بات کو اب خاصا عرصہ بیت چکا ہے۔ اور اب ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے سے مجھے یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ وہ گرمیوں کے دن تھے، سخت گرمیوں کے دن۔ سورج کی گرمی عروج پر تھی اور دھوپ میں خاصی تمازت تھی۔ وہ جگہ اگرچہ پہلے بھی عام طور پر پرسکون ہوتی تھی لیکن گرمیوں کے اس موسم میں تو اکا دکا ہی کوئی ادھر آتا جاتا دکھائی دیتا تھا۔
ایک خاصا پر رونق چوک تھا مگر وہ بھی کچھ فاصلے پر اور پھر جب سورج اپنی تمازت دکھا رہا ہو تو پھر بھلا ایسے چوکوں میں بھیڑ بھاڑ اور مخصوص ٹولیاں کہاں۔ ان حالات میں، میں اس نیند میں ڈوبی ہوئی چھوٹی سی سڑک پر خراماں خراماں چلا جا رہا تھا لیکن میرا یوں اطمینان سے چلے جانا زیادہ دیر برقرار نہیں رہا۔ جلد ہی ایک محبت بھری آواز نے مجھے رک جانے پر مجبور کر دیا۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ آواز ایک مکان کے گیراج سے آرہی تھی۔ اس آواز میں نہ جانے کیا جادو تھا کہ میں بلا سوچے سمجھے اس سمت میں بڑھتا چلا گیا۔
بظاہر وہ گیراج تھا اور اصولاً وہاں کوئی گاڑی ہونی چاہیے تھی مگر میرے سامنے تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ جی ہاں! بالکل ہی کچھ اور۔ میں اب اس گیراج میں قدم رکھ چکا تھا۔ اس وقت میرا ذہن نہ جانے کیوں برق رفتاری سے گردش کرنے لگا۔ مجھے خیال آنے لگا کہ ابھی کچھ دیر قبل ہی تو میں اس سڑک سے کتنی طمانیت سے گزر رہا تھا اور اب … اور اب میں یہاں کھڑا ہوں۔ میں ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ وہی آواز پھر سنائی دی۔ وہی سریلی اور محبت بھری آواز جس نے پہلے مجھے رک جانے اور بعد ازاں یہاں تک چلے آنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے ذرا غور سے دیکھا۔ وہ آواز ایک بوڑھی اور لاچار عورت کی تھی جو ایک بوسیدہ سی چارپائی پر بیٹھی بڑی احسان مند نگاہوں سے میری جانب دیکھ رہی تھی، میرا ذہن پھر مزید قلا بازیاں کھانے لگا کہ نہ جانے اس بے چاری عورت پر کیا بیتی کہ یہ یوں اس چھوٹے سے گیراج میںپناہ لینے پر مجبور ہوگئی؟ نہ جانے وہ کیا حالات تھے جس نے اسے یوں مجبور و بے کس کر کے رکھ دیا؟ اس کی چارپائی کے پاس بس پانی کا ایک مٹکا پڑا تھا۔ اس گیراج میں پنکھے نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ میں مزید غور و فکر کرنے لگا کہ نہ جانے ایسے کتنے غریب و نادار لوگ اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر ٹوٹے پھوٹے جھونپڑیوں اور مختلف فٹ پاتھوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہوں گے؟ خیالات کا یہ بہاؤ ابھی جاری ہی تھا کہ وہ بول اٹھی: ’’بیٹا! ایک کام کروگے؟‘‘ میں نہ جانے ہپنا ٹائز ہوچکا تھا، فوراً بول اٹھا ’’کیا کام ہے اماں جی؟‘‘
’’بیٹا! مجھ سے چلا نہیں جاتا، یہ پیسے لو اور مجھے کھانے کے لیے سموسے اور تھوڑی سی جلیبیاں لادو۔ میں نے اب تک کچھ کھایا نہیں نا!‘‘
اگلے ہی لمحے میں نے اماں سے پیسے پکڑ لیے مگر خیالات کا سیلاب تھا کہ کوئی بند باندھے نہیںرک رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اماں جی نے مجھ پر تو اعتماد کرتے ہوئے یہ کام کرنے کا کہہ دیا اور میں تو ابھی اسے کر بھی دوں گا لیکن … لیکن اگر کوئی منچلا نوجوان ہوتا تو کیا وہ بھی اسے سموسے اور جلیبیاں لاکر دے سکتا تھا؟ کیا وہ بھی اس غریب کا دکھ درد سمجھ سکتا تھا؟
آج بھی اس وقت جب کہ میں ایک طویل عرصے کے بعد اس واقعے کو قلم بند کر رہا ہوں وہ سارا قصہ ایک فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے گھوم رہا ہے۔اس وقت میرا دل ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ میں اس اماں جی سے پیسے لے کر اس کی مطلوبہ چیزیں اسے لادوں بلکہ میرا دل تو چاہتا تھا کہ میں دوڑ کر چوک میں جاؤں اور وہاں سے اسے اپنے پیسوں سے سموسے اور جلیبیاں لادوں مگر اس کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ بات اس کے لیے ناقابل قبول ہوگی۔ خدشہ تھا کہ میری یہ کواہش کہیں اس کی خودداری کو ٹھیس نہ پہنچا دے۔ اس لیے میںنے اس سے پیسے لیے اور سموسوں کی دکان کی جانب چل پڑا۔ میں حیران تھا کہ اس بڑھیا نے مجھ اجنبی پر اعتماد کیوں کرلیا۔ اس کے ذہن میں آخر کیوں یہ بات نہیں آئی کہ میں وہ پیسے لے کر بھاگ بھی سکتا ہوں؟ پھر خیال آیا کہ وہ بے چاری تو غریب ہے، مجبور ہے، لاچار ہے، وہ بھلا اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی تھی؟ لیکن سوال یہ تھا کہ وہ آخر اتنی غریب اتنی مجبور اور لاچار کیوں تھی؟ ان باتوں کا جواب بھلا اتنی آسانی سے کیسے مل سکتا تھا۔
انہیں خیالات اور سوچوں میں گم میں چوک میں موجود سموموں کی دکان پر پہنچ گیا۔ جہاں ڈھیر سارے گرما گرم سموسے تیار ہو رہے تھے۔ میں نے اس دکان سے سموسے اور جلیبیاں لیں اور پھر دوبارہ اس ضعیف اور غریب عورت کی جانب چل پڑا جو کہ ایک چھوٹے سے گیراج میںرہتی تھی۔ جس میں محض ایک بوسیدہ چارپائی اورپانی کا ایک پرانا مٹکا موجود تھا اور جس عورت کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ میں جب اس کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھتے ہی فرطِ مسرت سے اٹھ بیٹھی۔ مجھے ڈھیروں دعائیں دینے لگی۔ مجھے اس کا یہ فقرہ آج بھی یاد ہے کہ ’’بیٹا، آؤ بیٹھو! اور میرے ساتھ سموسے کھاؤ۔‘‘ مگر میں اسے کیا جواب دیتا۔ میںکیا سموسے کھاتا۔ میرا سر تو شرم کے مارے جھکا جا رہا تھا۔ میرے ذہن میں تو اس وقت خیالات کا ایک انبار تھا۔ میں وہاں سے سر جھکائے ہوئے چل دیا۔ پھر راستے بھر میں سوچتا رہا کہ میں اس عورت کے لیے آخر کیا کرسکتا ہوں؟ یہ ہرگز یاد نہیں کہ میں اس وقت اتنی گرمی میں کس کام سے جا رہا تھا یا پھر کسی اہم سرگرمی سے آرہا تھا لیکن مجھے یہ ضرور یاد ہے۔ اس اماں جی کی مجبوری، لاچاری اور … مجھے ہمیشہ یاد آتی رہی۔ یوں وقت گزرتا چلا گیا۔ دن رات بنے اور راتیں دن میں ڈھلیں۔ ایک دن دوبارہ میرا وہاں سے گزر ہوا تو میرے اٹھتے ہوئے قدم رک گئے۔ میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ میں نے دیکھا اس گیراج پر تالا لگا ہوا تھا۔ وہ گیراج جہاں پر میں اس غریب اور بوڑھی عورت سے ملا تھا، آج بند پڑا تھا۔ گیراج آج بھی بند ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے اندر آج بھی وہی بوسیدہ چارپائی اور پانی کا پرانا مٹکا موجود ہو مگر میں سوچتا ہوں کہ کیا وہ محبت بھری دعائیں دینے والی بوڑھی عورت بھی اندر موجود ہوگی؟ بوڑھی عورت جسے میں نے ’’اماں جی‘‘ کہہ کر پکارا تھا۔