مسلم اور بخاری شریف کی حدیث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے اپنی دو لڑکیوں کی یا دو بہنوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن وہ شخص اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں وسطی اور سبابہ، اور جس نے ان کی بہترین تربیت کی، ان پر احسان کیا اور ان کو بیاہ دیا تو وہ جنت میں جائے گا۔‘‘
بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ امیر ہو یا غریب، سب کے دل کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ بیٹیاں سدا خوش و آباد رہیں۔ لیکن ان کی پرمسرت زندگی اور خانہ آبادی کا راز اس میں ہے کہ مائیں ان کی پختہ دینی نہج پر تعلیم و تربیت کا کام انجام دیں۔ تعلیم و تربیت میں جہاں رسمی تعلیم شامل ہے وہیں تربیت میں یہ بات بھی لازم ہے کہ لڑکی کو سلیقہ مندی، گھر داری، رشتوں کو نباہنا اور مسائل کو حل کرنے جیسے امور سکھائے جائیں تاکہ وہ نئے گھر کو آباد کرسکے۔ اچھی تعلیم و تربیت کی بنا پر ایک لڑکی اچھی بہو، بیوی اور ماں کا درجہ حاصل کرسکتی ہے، کیوں کہ دوسری طرف اگر مسائل کا انبار بھی ہوا تو وہ خود کسی کے لیے مسائل اور مشکلات کا سبب نہیں بنے گی بلکہ وہ مسائل اور پریشانیوں کو قابو میں رکھنے، سمجھوتا کرنے یا پھر انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھے گی۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ اچھی تعلیم و تربیت اور اس پر عمل کرنے والی لڑکی سو فیصد خوش گوار زندگی گزار سکتی ہے۔
بعض اوقات سسرال میں اسے اس قدر گمبھیر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس کی ساری تربیت اور سلیقہ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ لیکن کم از کم وہ دوسروں کے لیے مسائل پیدا نہیں کرے گی، صبر و تحمل اور درگزر سے کام لے گی۔ لیکن اگر اس کی تعلیم و تربیت پر ’’خاص دھیان‘‘ اور توجہ نہ دی گئی تو وہ ایک ’’پرامن‘‘ ماحول کو بھی فساد کا گھر بنا سکتی ہے۔ اگر سامنے والا بھی اس جیسا ہوا تو پھر اس کے گھر کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اسی لیے ماؤں کو اپنی بیٹیوں کو ’’نئے گھر‘‘ کو بسانے اور سنوارنے کے لیے ابتدا ہی سے اچھی تربیت سے آراستہ کرنا چاہیے۔ یقینا اس کے اچھے اثرات آئندہ زندگی میں نظر آئیں گے۔
اماں کی کہی ہوئی چند باتیں اور ان کے کہے ہوئے چند جملے ہم بہنوں اور بھائیوں کو آج تک ازبر ہیں جنہوں نے ہمیں سنوارنے میں مثبت اثرات مرتب کیے۔ اماں بڑے اعتماد سے کہتی تھیں کہ
٭ مجھے اپنی بیٹیوں پر اندھا اعتماد ہے کہ وہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر کے سوا کوئی راستہ نہیں جانتیں۔
٭ کھانا بنانے سے رغبت پیدا کرنے کے لیے کہتیں: چاہے تم کتنا بھی پڑھ لکھ لو، سسرال میں ہانڈی و چولھا سنبھالنا ہی پڑے گا۔ سدا کچن کی حکمرانی نصیب ہو، کیوں کہ یہی خوش نصیبی کی علامت ہے۔
٭ لڑکی کی عزت دنیا میں سسرال سے ’’بنا کر‘‘ رکھنے میں ہے، اور میکے میں بھائیوں اور بھابیوں سے بنا کر رکھنے میں ہے۔
٭ مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے سے بچوں میں ادب و آداب پیدا ہوتے ہیں۔
٭ بیٹی ماں کا عکس ہوتی ہے، اگر وہ سسرال میں اپنا سلیقہ اور اخلاق دکھائے گی تو یقینا دنیا اس کی ماں کی تعریف کرے گی۔ اگر سسرال میں بدتمیزی، پھوہڑ پن یا بداخلاقی کا مظاہرہ کرے گی تو یہی کہا جائے گا کہ ’’جیسی ماں ویسی بیٹی۔‘‘ یعنی ماں کی عزت بیٹیوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
ان ہی جملوں کا سہارا لے کر ہم نے اپنی بیٹیوں کو بھی سسرال روانہ کیا۔ الحمد للہ انھیں کم سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں کچھ مائیں بیٹیوں کی دنیوی تعلیم پر تو بڑا زور لگاتی ہیں، لیکن اگلے گھر گرہستی کے لیے کچھ سامان کا انتظام نہیں کرتیں، بلکہ کچھ مائیں اور بہنیں انہیں منفی طور طریقوں سے بھی آراستہ کرتی رہتی ہیں۔ سامنے والا اگر درگزر اور سمجھ بوجھ والا ہوگا تو پھر تو معاملہ چل سکتا ہے، ورنہ روز روز کے فساد سے سارا کنبہ (شوہر، بچے اور بقیہ گھر والے) متاثر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی کاہلی، پھوہڑ پن، سستی اور ناسمجھی میں اپنا نقصان کرتی ہیں۔ ایسی بہوئیں سسرال میں اور شوہر کے دل میں مقام اور عزت حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ مجھے اپنی ایک پیاری دوست کی بات بہت پسند آئی جسے میں یہاں آپ سب سے ضرور شیئر کروں گی، بلکہ اس کی بیٹی کی زبانی سنیں:
’’میں مشترکہ خاندان میں رہتی ہوں، الحمد للہ شوہر کے علاوہ سسرال میں ساس سسر، نندوں، دیور، دیورانیوں تمام رشتوں سے جڑی ہوئی ہوں، اور اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتی ہوں۔ مجھے ان تمام رشتوں کی اہمیت کا بھی اندازہ ہے۔ میری والدہ کی نصیحت ہے کہ ساس کو کبھی ساس نہ سمجھنا، وہ ایک ’’ماں‘‘ ہیں، اگر کچھ سمجھاتی ہیں یا کہتی ہیں تو ماں سمجھ کر اُن کی بات کو سننا، ناگوار لگے تو درگزر کرنا، کبھی ان کے سامنے زبان نہ چلانا، یہی اب تمہارا گھر ہے۔ کام کی زیادتی بھی ہوسکتی ہے۔ کچھ باتیں ایسی ہوں گی جو تمہارے مزاج اور خیالات کے برعکس ہوں گی جنہیں برداشت کرنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے کہ شوہر غصے والا یا ناز نخرے اٹھوانے والا ہو، تحمل سے کام لینا، دوسروں کی رائے کو اہمیت دینا۔ سسرال میں ماں باپ کے گھر جیسا آرام ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا، اس پر دکھ اور افسوس کے بجائے اپنے آپ کو نئے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کرنا۔ اگر تم نے ان باتوں پر عمل کیا تو دوسروں کے نہ سہی، شوہر کے دل میں مقام اور عزت پالوگی۔ غرض کہ ماں کی بتائی ہوئی ایک ایک بات صحیح ثابت ہوئی۔ جب سسرال پہنچی تو دکھ اور کڑواہٹ اس لیے زیادہ محسوس نہ ہوئی کہ ماں نے پہلے ہی آگاہی دی تھی کہ ایسا اکثر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی تربیت کی، جس کی وجہ سے آج حالات سے سمجھوتا کرسکتی ہوں۔‘‘
٭٭٭
ایک جگہ بڑی خوب صورت بات پڑھی، یقینا آپ سب کو بھی پسند آئے گی جو کہ بہوؤں کے نام تھی:
’’ساس کا احترام کرو، ناکہ اسے اپنا حریف سمجھ کر مقابلہ بازی کرو۔ وہ عمر میں بڑی ہیں اور آپ جوان خون ہیں۔ لہٰذا آپ ان کا احساس کریں۔ اس عمر میں خواتین توجہ چاہتی ہیں۔ بڑھاپا بھی تنگ کرتا ہے۔ لہٰذا ساس کی نفسیات کو سمجھئے، عاجزی اپنائیے۔ یقین جانئے اس میں آپ کا ہی مفاد ہے۔‘‘
بچپن میں کی گئی لڑکیوں کی تربیت کے دور رس اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ عابدہ کو گھر میں پہلی بیٹی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ حد سے زیادہ ماں کے لاڈ و پیار نے اسے ضدی اور خود سر بنا دیا… اس کی بے جا طرف داری، بھائی، بہنوں پر فوقیت دینا، اس کی ہر جائز ناجائز بات کو ماننا… انہی باتوں کی وجہ سے اسے دوسروں کے احساس و جذبات کا کوئی خیال نہ تھا۔ اس کے لیے صرف اپنی ہی ذات کی اہمیت تھی۔ ماں کو اس بات کا یقینا ادراک ہوگا، اگر وہ چاہتی تو بچپن میں ہی اس کی اصلاح کی طرف توجہ دیتی، کیوں کہ اپنے سگے بہن بھائیوں سے بھی اس کا رویہ ناروا تھا۔ لیکن ایسا نہ ہوا جس کی بدولت اس کی عادتیں پختہ ہوگئیں۔ اگر گھر میں اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوتی تو وہ کہرام مچا دیتی۔ یہی عادتیں لے کر وہ سسرال پہنچی۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہاں اسے کن حالات سے دوچار ہونا پڑا ہوگا اور دوسروں کے لیے وہ کن مسائل و مشکلات کا سبب بنی ہوگی۔ وہ کہیں بھی سمجھوتا نہ کر پائی۔ کوئی بھی رشتہ دار اس سے خوش نہ تھا، یہاں تک کہ شوہر کے دل میں بھی جگہ نہ بنا پائی۔
شوہر جو اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھا دوسری شادی کر کے اس سے قطع تعلق ہوگیا۔ یقینا اس قسم کے واقعات ہمارے سامنے گزرے ہوں گے، ان کی وجوہات اور نتائج پر نظر رکھیں اور اپنی اصلاح کریں۔
ہمارے سامنے حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کی زندگی ایک بہترین مثال ہے۔ بچیوں کی تربیت کے وقت آپ کی مثال پیش کریں، آپؓ کے حالات و واقعات بیان کریں۔ آپؓ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا (ام المومنین) کی بیٹی ہیں، ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہیں عرب میں ایک مقام حاصل تھا، دولت مند، صاحبِ حیثیت طاہرہ، ام المومنین کے اعلیٰ درجے پر فائز… اپنی بیٹیوں کی تربیت آپؓ نے اس اعلیٰ نمونے پر کی کہ حضرت فاطمہؓ اپنی ساس کو ’’میری ماں‘‘ کہتیں گھر کے چھوٹے بڑے تمام کام و امور اپنے ہاتھوں سے انجام دیتیں، کہیں وہ ہمیں چکی پر آٹا پیستی نظر آتی ہیں تو کہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ کی خدمت کرتے، کہیں بچوں کی تعلیم و تربیت کرتے۔ کہیں تین تین دن کا فاقہ ہے تو لبوں پر کوئی شکایت نہیں، اور باپ کی ایسی تربیت کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضرت فاطمہ) کا حوصلہ بڑھانے کے لیے فرماتے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا کوئی اور مرد ہی نہیں۔ سبحان اللہ
میں اپنی شادی شدہ بیٹی کو اکثر حضرت فاطمہؓ کی مثال دے کر سمجھاتی ہوں کہ آپؓ سردارانِ جنت کی والدہ، دختر النبیؐ کس طرح مصائب کا سامنا کرتی ہیں۔ ان کی زندگی سے آپ سیکھیں۔ آج آپ کو دنیا کی تمام نعمتیں حاصل ہیں، اور یہ پاک بی بی آخرت کی نعمتوں کی طلب گار تھیں۔ (سبحان اللہ)
اللہ تعالیٰ ہم سب خواتین کو اپنی بیٹیوں کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہماری بچیوں کو بھی ایک اچھی بیٹی، ایک اچھی بہو اور بیوی بننے کی خوبیوں سے آراستہ ہونے کی صلاحیت پیدا فرمائے۔ (آمین)lll