میں آوارہ! میں آوارہ
حسینوں کا مارا، حسینوں کا مارا
سلو یعنی سلیم اپنے تخلیق کردہ شعر فلمی گانے کی دھن میں مزے سے گنگنا رہا تھا اور ساتھ ہی ایک خاص اسٹائل سے بالوں کو پیچھے کی طرف سنوارتا جارہا تھا۔ بلو جینز اور شوخ رنگ کی بنیان پہنے مرزا کی دکان کے قریب سیمنٹ کے چبوترے پر بیٹھا تھا۔
نکڑ کی یہ دکان اس کا خاص اڈہ تھی۔ یہاں کھڑے ہوکر شکار کا انتظار اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ مرزا اگرچہ اس کے زبردستی کے پان سگریٹ وصول کرنے سے بہت تنگ تھا لیکن کیا کرتا مجبورتھا۔ آخر اس کو بھی تو دھندا کرنا تھا اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ آج کل کاروبار کرنے کے لیے پولیس اور بدمعاش دونوں کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔
وہ خواتین ابھی کافی دور تھیں لیکن سلو گھاک تھا وہ بھانپ گیا اور مرزا کی جان چھوڑ کر گلی کے آخری نکڑ پر کھڑا ہوگیا۔
ادھر مرزا سمجھ گیا کہ آج بیچاریوں کا پرس گیا۔ سلو دیوار سے ٹیک لگائے مزے سے کھڑا تھا۔ ادھر ادھر دیکھنے کے ساتھ ساتھ آنے والیوں پر بھی ایک نظر ڈال لیتا۔ اب وہ صاف نظر آنے لگی تھیں۔ ایک تو کالی چادر میں تھی اور دوسری سیاہ برقعہ میں۔ سلو کا منہ بن گیا یہ پردے والیوں کے بارے میں اس کے اندازے اکثر غلط ثابت ہوتے تھے۔ اول تو عمر کا پتہ نہیں چلتا، دوسرے شکل نظر نہیں آتی تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ بی بی ڈرپوک ہے یا ہمت والی، تجربہ کار وپختہ کار ہے یا تازہ کلی جیسی کچی کہ ایک ہی اشارے سے ڈر جائے۔
بہر حال اس نے تو دل میں پکا ارادہ کرلیا تھا کہ پرس نہیں چھوڑے گا جو ایک کے کندھے پر جھول رہا تھا اور بھرا ہونے کے باعث یوں محسوس ہورہا تھا کہ خاصا مال ہوگا۔ سلو کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ گلی میں داخل ہوگئیں تھیں لہٰذا سلو بھی مخالف سمت سے ان کی طرف آنے لگا اور یوں ظاہر کرنے لگا گویا اس کو بھی کہیں جانے کی جلدی ہے ان کے قریب پہنچ کر اس نے مہارت کے ساتھ پرس پر ہاتھ مارا مگر پرس تو اٹک کر رہ گیا۔
سلو کا اندازہ پھر غلط ہوگیا تھا پرس والی ایک دم نیچے بیٹھ گئی اور ساتھ ہی اس نے سلو کی ایک ٹانگ پکڑ کر زور سے کھینچی۔ سلو کو ایسی دلیری کی امید نہیں تھی سو بیچارہ بے خبری میں مارا گیا۔ چاروں شانے چت وہ زور سے گرا۔ سر جاکر ایک بڑے پتھر سے ٹکرایا اور ساتھ ہی جیب
سے پستول نکل کر باہر جا پڑا۔ چادر والی لڑکی نے پاؤں سے پستول کو کنارے سے گزرتی ہوئی گندی نالی میں پھینک دیا۔
سلو نے اپنے ہتھیار کا جو یہ حشر دیکھا تو اس کی ساری بہادری ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ سر پہ ہاتھ رکھے وہ ابھی اٹھنے کی کوشش ہی میں تھا کہ برقعہ والی نے ہاتھ میں پکڑی ٹوکری زور سے اس کے سر پر دے ماری۔ سلو کو یوں لگا جیسے لوہے کا کوئی ہتھوڑا مارا ہو، اس کو دن میں تارے نظر آگئے۔
دو چار لمحے بعد سلو نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ برقعہ والی نے ٹوکری سے سات لیٹر والا کوکر نکال کر ہاتھ میں لے لیا تھا۔ سلو کو ہتھوڑے کا راز سمجھ میں آگیا۔ کوکر ہاتھ میں لیے خاتون سلو کے سر پر کھڑی مارنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کررہی تھی اور دوسری جھک کر اپنی نوک دارجوتی اتارنے کی کوشش کررہی تھی۔
سلو نے جو یہ تیاریاں دیکھیں تو ایک ہاتھ سے سر اور دوسرے سے کمر سنبھالتا ہوا پھرتی سے اٹھا تو چکر سا آگیا کیونکہ بھاری کوکر کا نشانہ چوک گیا اور وہ سر کے بجائے اس کی پیٹھ پر پڑا۔ لیکن خالص ’’زنانہ ہتھیاروں‘‘ کا خوف اس کو پیچھے دیکھے بغیر بھاگنے پر مجبور کررہا تھا۔ لہٰذا وہ بغیر پیچھے دیکھے بھاگ کھڑا ہوا اور گلی کا موڑ کاٹ کر غائب ہوگیا۔
ادھر مرزا کو یہ ساری کارروائی کسی فلمی سین کی طرح لگ رہی تھی۔ وہ ہکا بکا آنکھیں پھاڑے سب دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا پردہ خواتین کو بہادر بھی بنا دیتا ہے؟ دونوں خواتین نے اطمینان سے اپنے ہتھیاروں کو میان میں ڈالا اور چل دیں لیکن مرزا کا دل نہیں بھرا تھا کاش ایک دو کوکر اس کے سر پر بھی لگا دیتیں مرزا نے ٹھنڈی سانس لے کرسوچا!
شیطان کا فریب
ایک ماں اپنے نوجوان بچے کو جو نماز پابندی سے نہیں پڑھتا تھا کہہ رہی تھی بیٹا ! نماز پابندی سے پڑھا کرو۔ اور تو تمام کام تم وقت پر بڑے اہتمام کے ساتھ کرتے ہو مگر نماز شوق سے نہیں پڑھتے، کہتی ہی رہ جاتی ہوں۔ مجھے کتنا دکھ ہوتا ہے جب تم اللہ کی ڈیوٹی سے جی چراتے ہو۔
بیٹے نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ اماں آپ کوئی فکر نہ کریں میں بوڑھا ہوکر پکا نمازی بن جاؤں گا۔ مگر بیٹے آخرت میں اللہ تعالیٰ کو جوانی کا حساب بھی تو دینا ہے ناں! نماز صرف بوڑھوں کے لیے ہی تو نہیں ہے اللہ تمہیں بڑی عمر دے۔ مگر تمہارے پاس اس کی کیا ضمانت ہے کہ تم ضرور بڑھاپے تک پہنچوگے۔ نہ جانے کب موت کا فرشتہ آحاضر ہو۔ ماں نے بڑے پیار سے سمجھایا۔ ’’نہیں اماں! میں بہت بوڑھا ہوکر مروں گا۔ اگر بڑھاپے سے پہلے ملک الموت آیا تو میں اس کو لوٹادوں گا۔‘‘ بیٹے نے ہنس کر جواب دیا۔ ماں نے کہا اچھا بیٹے اللہ تمہاری عمر دراز کرے اور نیکی کی توفیق دے۔ ٹھیک تین ہفتے کے بعد بیٹے کو شدید نمونیہ ہوا اور موت کا فرشتہ حاضر ہوگیا مگر نوجوان بیٹا اس کو واپس نہ لوٹا سکا۔lll