’’تاجی ڈبل روٹی والا‘‘ یہ آواز مسلسل کئی ماہ سے میرا تعاقب کررہی تھی۔ گلی میں گونجنے والی یہ آواز ہمیشہ پہلی آواز ہوتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پالا، دھند، کہرا، ٹھٹھرتی ہوئی ہوائیں، یہ سب اس کے لیے بے سود تھے۔ جیسے اس کا انسانی خول موسموں کے اثر سے بے پرواہ تھا۔ جانے کس مٹی کا بنا تھا وہ! اس غضب کی سردی میں بھی وہ آواز اپنے مقررہ وقت پرلہراتی اور دھند کی طرح چادر پھاڑ کر میری سماعت سے ٹکراتی اور گم ہوجاتی۔
اس آواز کی حقیقت اور اس کے سوز کا راز جاننے کے لیے میرا دل اسی روز سے بے چین تھا جب میں نے یہ پہلی بار سنی تھی۔ اس وقت اچانک میرے دل میں ایک ہلکا سا درد اٹھا تھا اور اگلے ہی لمحے لحاف ایک طرف پھینک کر جلدی سے برآمدے میں آگئی تھی لیکن جو آواز مجھے یہاں کھینچ لائی تھی وہ اب دور جاچکی تھی۔ یوں جیسے رخصت بہار کے ساتھ ساتھ آنسو بہاتی بلبل دور تک گاتی چلی گئی ہو۔ میری طبیعت اداس ہوگئی۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور بہن بھائیوں کی چلبلی شرارتیں بھی اس روز میرا دکھ نہ بانٹ سکیں۔یوں لگتا تھاکہ میری کوئی قیمتی چیز کھوکر مجھے ملی اور پھر کھو گئی۔ میں اندر آکر پھر بستر میں گھس گئی اور اس ننھی سی، تھرتھراتی ہوئی آواز کے متعلق سوچنے لگی۔
اسکول میں چھٹیاں نہیں تھیں مگر گویا اسکول تفریح گاہ بنے ہوئے تھے، ہم سب جاتے اور گپ شپ کرکے واپس آجاتے کیونکہ ہمیں نتیجے کا انتظار تھا۔
اگلے روز پھر اسی وقت اسی آواز نے اسی انداز اور اسی لے میں ابھر کر مجھے جگادیا اور میں بے اختیار کھنچی ہوئی برآمدے میں آگئی۔ جہاں تک میری نظر جاسکی۔ وہ کہرے کا سینہ چیرتی ہوئی گئی مگر وہاں تو صرف پالا تھا۔اس کے بعد کئی ماہ تک یہ آنکھ مچولی ہوتی رہی اور مجھے گمان ہونے لگا کہ اس آواز کی کوئی اصلیت نہیں۔ بلکہ وہ تو چاند رات میں چیخنے والی ایسی چکوری ہے جو کسی ویرانے میں درخت کی سب سے اونچی شاخ پر بیٹھی چاند پر نظریں گاڑے سینہ پھلا پھلا کر نوحہ خوانی کررہی ہو۔ اس آواز کا تعاقب بے سود تھا۔ میری پوری سعی کے باوجود یہ کھوج نہ لگا کہ یہ سوز کس کے گلے سے نکلتا ہے اور کسی کو جگائے بغیر خود بخود خاموشی سے ڈوب جاتا ہے۔ یا الٰہی! گلی گلی گھومنے والی یہ آواز کس کے جگر کا ٹکڑا ہے جو یوں صبح صبح سر پر خوانچہ جمائے قدم قدم پر آواز لگاتا پھرتا ہے۔ یہ کس کے کلیجے کی ٹھنڈک ہے جو جسم کو ٹھٹھرادینے والی سردی میں چند سکوں کے بدلے احساسات سے بیگانہ گھر گھر صدا لگاتی ہے؟
’’تاجی ڈبل روٹی والا‘‘
مجھے یقین تھا کہ اس کے خوانچے میں کئی روز کی باسی روٹی بھی ہوگی مگر’تاجی‘ کہہ کرنہ معلوم وہ خود کو دھوکا دینا چاہتا تھا یا لوگوں کو؟ اتنے سویرے بھلا کون لیتا ہوگا؟ میں نے سوچا… اور پھر ایک دن میں اس کے آنے سے پہلے ہی نیچے جاکر گلی میں کھڑی ہوگئی۔ جوں ہی اس آواز نے اندھیرے کا جگر کاٹا میں گرم چادر کو جسم سے لپیٹے تیزی سے آگے بھاگی اور چند ہی لمحوں میں اس کے مقابل کھڑی تھی۔
میلی کچیلی، پھٹی ہوئی ہلکی سی دری میں سر اور گردن کو لپیٹے، پیروں میں ربڑ کے گھسے ہوئے جوتے پہنے ہوئے اور چیتھڑوں کے ڈھیر میں چھپا وہ میرے سامنے کھڑا تھا۔ انسانیت کی ایک ننگی داستان! مصور کی ادھوری تصویر کی طرح وہ حیرت سے میری طرف دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو ’’آؤ آؤ دیکھو میں ہی وہ آواز ہوں جو تمہارے دل میں اتر گئی ہے۔ مگر جس پر کوئی غور نہیں کرتا اور اس نامکمل تصویر کی طرح جسے پورا کرنے سے پہلے مصور کے ہاتھ مفلوج ہوگئے ہوں۔ جس میں رنگ بھرنے سے قبل ہی فنکار کی آنکھیں دھندلا گئی ہوں۔‘‘ اس نے مجھے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں خوف تشکک اور حیرانی کے سائے منڈلا رہے تھے۔ نیلے نیلے ہونٹ یوں کھلے ہوئے تھے جیسے چٹکنے کو تیار شگوفہ۔ ایک ہاتھ سے خوانچہ تھامے دوسرے سے جیب، وہ ایک مجرم کی طرح میرے سامنے تھا جیسے میں نے اسے چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ گویا پوچھ رہا ہو کہ:
’’بتا تو میری حقیقت تک کیوں پہنچ گئی؟ حقیقت تو بڑی عریاں ہوتی ہے۔ کیا تو میری عریانی کا مذاق اڑانے آئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تو مجھ سے ایک دھیلے کا بھی مال نہیں خریدے گی مگر … مگر‘‘
’’آواز کی حقیقت آواز سے زیادہ حسین نہ سہی مگر اس سے زیادہ دل سوز ضرور ہوتی ہے۔‘‘ میں بڑبڑائی تو وہ تیزی سے مڑا۔ اس کا ننھا سا ناپختہ اور ناتراشیدہ ذہن بھلا میری بات کیا سمجھتا، میں نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور کہا:
’’ارے سنو تو! مجھے ڈبل روٹی چاہیے۔ رات اچانک مہمان آگئے ہیں۔ بہت دیر سے تمہارا انتظار کررہی ہوں۔ یہ ساری ڈبل روٹیاں کتنے کی ہوں گی؟‘‘
’’ساری؟‘‘ حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹنے لگیں۔
’’ہاں ہاں! ساری۔ اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے۔ مہمان بھی تو بہت سے ہیں نا۔‘‘ میں نے اسے پچکارتے ہوئے کہا ’’کتنے پیسے لوگے سب کے؟‘‘
’’پچاس روپئے۔ میڈم یہ ایک مجھے بارہ آنے کی ملتی ہے۔ چار آنے میرا منافع ہے، مجھے کل ساڑھے بارہ روپئے ملتے ہیں آپ صرف دس روپئے دے دیجیے۔‘‘میں نے پچاس روپے اس کی ہتھیلی پر رکھ دئیے اور خوانچہ پکڑ لیا۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے میں نے کہا : ’’بھئی بہت بھاری ہے، ہم سے نہیں اٹھ رہا۔ تم بڑے بہادر بچے ہو، ذرا اسے اوپر تک لے چلونا۔‘‘ وہ فوراً تیار ہوگیا اورمیرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
’’جب تم سامان بیچ لیتے ہو تو گھر جاکر بھلا کیا کرتے ہو؟ میں بتاؤں تم سوتے ہوگے، پھر اٹھ کر گلی میں گُلّی ڈنڈا کھیلتے ہوگے، گولیاں اور کبڈی ہوتی ہوگی اور …‘‘ اس نے میری بات درمیان ہی سے کاٹ دی۔
’’جی نہیں! میں سودا بیچ کر اسکول چلاجاتا ہوں۔ میں پانچویں جماعت میں پڑھتا ہوں۔ جانے سے پہلے ماں کو دوپہر کے لیے آٹا دال لاکر دیتا ہوں۔ میری ماں کہتی ہے کہ بیٹا جلدی سے پڑھ لے پھر ہم غریب نہیں رہیں گے۔‘‘
اب میں اسے کیسے سمجھاتی کہ یہاں تو پڑھے لکھے لوگ بھی غریب رہ جاتے ہیں۔ بات کو جاری رکھنے کے خیال سے میں نے کہا:
’’تم جب بازار سے سودا خریدتے ہو تو دکاندار تو تمہیں خوب لوٹتے ہوں گے؟ اتنے چھوٹے سے تو ہو تم!‘‘
وہ تیر کی طرح میری طرف مڑا اور بولا: ’’کیوں لوٹ لیتے ہوں گے، میں کوئی بے وقوف ہوں جو لُٹ جاؤں، میں بھی تو دکاندار ہوں۔ بس اتنا فرق ہے کہ میں اپنی دکان کندھے پر لیے پھرتا ہوں اور وہ چل کر دکان تک جاتے ہیں۔‘‘
اس کی بات سن کر مجھے بڑا دکھ ہوا۔ کاش! اس نے کوئی بھولی سی بات کہہ دی ہوتی۔ وہ تو ایک دم پکی عمر کے مردوں کی طرح بولنے لگا تھا۔ میں نے پوچھا:’’ایسی باتیں تمہیں کون سکھاتا ہے؟‘‘
کہنے لگا: ’’سکھاتا کون، چار سال سے ڈبل روٹی بیچ رہا ہوں، اتنی چھوٹی سی بات بھی نہیں سیکھ سکتا۔‘‘
میں چپ ہوگئی کیونکہ اس سے بحث بے کار تھی۔ اس کی گفتگو اس کی آواز کی طرح بے ساختہ نہ تھی، اس میں تجربے کا نچوڑ تھا جو مجھے اچھا نہیں لگا۔ ڈبل روٹی پہنچا کر وہ واپس چلا گیا اور میں خواہش کے باوجود اسے چائے کی ایک پیالی بھی نہ پلاسکی۔ میرا خیال تھا اس سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوگی۔ میں کمرے میں لاکر اس کی پیاری پیاری باتیں سنوں گی مگر تمام خوشیوں پر اوس پڑگئی۔ خوشی کی امیدکتنی پُرکشش ہوتی ہے مگر حاصل ہوکر وہ کتنی تلخ ہوجاتی ہے… بالکل سراب کی طرح۔ میں نے ڈبل روٹی اٹھاکر بے دلی سے اخباروں پر ڈال دی اور لحاف میں گھسنے ہی والی تھی کہ اس کی آواز نے مجھے پھر چونکا دیا۔ وہ شرمایا شرمایا سا جھینپی سی ہنسی ہنس رہا تھا۔ میں نے اسے اندر بلالیا تو اس نے جھجکتے ہوئے ڈھائی روپے میرے تکیے پر رکھ دیے اور بولا:
’’معافی دو جی میں واپس کرنے بھول گیا۔‘‘ اس نے پھر ایک اچٹتی ہوئی نظر اپنے بچے ہوئے سرمائے پر ڈالی اور پوچھا : ’’مہمان اب تک سورہے ہیں جی؟ ایک دفعہ ہمارے ہاں پہلی بار مہمان آئے تھے۔ سویرے سویرے اٹھ کر میری ساری ڈبل روٹی کھاگئے۔ میں کھٹولی کے نیچے گھس کر رونے لگا۔ خوب ر ویا۔ میری ماں بولی ارے! مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں…! یہ رونا دھونا کیسا۔ چل نکل باہر۔ اللہ کا شکر ادا کر۔ تیرے گھر رحمت کی سواری اتری ہے۔‘‘
کہہ کر وہ زور زور سے یوں ہنسنے لگا گویا اسے دنیا کا کوئی غم لاحق نہ ہو۔ جیسے وہ روز گار کا مارا معمولی خوانچہ فروش نہ ہو بلکہ باغ میں چہچہانے والی کوئی بلبل ہو، ناز و نعم میں پلا ہوا کوئی شہزادہ ہو۔ میرے دل میں اس کے لیے پھر ڈھیر سارا پیارامنڈ آیا۔ میں اسے کتنا غلط سمجھی تھی، وہ تو بالکل بچہ ہی تھا، بیوقوف سا! میں نے اسے کھینچ کر بستر پر بٹھالیا اور بوا سے چائے منگوائی تو بڑی بدتمیزی سے بالکل بچوں کی طرف چائے پینے لگا۔ مجھے اس میں اور اپنے بھائی میں صرف اتنا فرق نظر آیا کہ میرا بھائی اگر اس بدتمیزی سے چائے پیتا تو امی اسے بار بار ٹوکتیں، بدتمیز ہونے کا مژدہ سناتیں، محفل کے آداب سے بیگانہ ٹھہراتیں اور بار بار جھنجھلاتیں لیکن اس پر یہ باتیں لادی نہیں جارہی تھیں۔
چائے پی کر اس نے اپنی کلائی سے منہ پونچھا، زبان سے چٹخارے کی آواز نکالی اور کھڑا ہوگیا۔اس کی آنکھیں ایک دم ہیروں کی طرح چمکنے لگیں۔ نیلے نیلے ہونٹوں پر ایک دم گلابی رنگ بکھر گیا۔ معصومیت کی ایک لہر اس کے چہرے پر پھیل گئی۔ میں خود پر قابو نہ رکھ سکی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ چائے کی ایک حقیر سی پیالی کے لیے وہ کس قدر ممنونیت کا اظہار کررہا تھا۔ میں کھسیانی سی ہوگئی۔
یک لخت اس نے پلٹ کر اپنی بیچی ہوئی کائنات کی طرف دیکھا، بالکل یوں جیسے کسان اپنی ہری بھری تیار فصل کی طرف دیکھتا ہے۔ اور اس کے چہرے پر طمانیت بھری مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ پھر کچھ سوچتے کچھ جھجکتے ہوئے اس نے جیب سے وہ روپئے نکالے جو میں نے اسے دئے تھے، انہیں غور سے دیکھا اور واپس جیب میں ڈال لیا۔ لیکن اگلے ہی لمحے دوسرے ہاتھ سے جیب پکڑ کر پھر تمام نقدی نکال لی۔ اس کی آواز کی لرزش کو میں نے صاف محسوس کیا: ’’ڈبل روٹی واپس کردیں۔ یہ لیں اپنے پیسے۔ میں ابھی اتنے پیسے دوبارہ بنالوں گا جی۔‘‘ اس نے اداسی سے میری طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو:
’’تم بنگلے کی رہنے والی بھلا یہ باسی ڈبل روٹی حلق سے کیسے اتار سکوگی، رہے تمہارے مہمان، مجھے معلوم ہے تمہارے ہاں کوئی مہمان نہیں آیا اور اگر کوئی آیا بھی ہو تو، اسے یہ ناشتہ کراؤگی؟ چھی چھی اور ویسے بھی ضرورت کے تحت لی گئی چیز کو کوئی یوں پھینکا کرتا ہے۔تم میری غریبی کا مذاق اڑانا چاہتی تھیں سو اڑالیا۔ تمہیں تو اب خصوصی ہدایات کے تحت اس پیالی کو دھلوانا پڑے گا۔ جس میں میں نے چائے پی ہے کیونکہ اس کے کناروں سے میری غربت اور گندگی کے جراثیم چمٹے ہوئے ہیں۔
’’فرش جس پر میں نے بدتمیزی سے چائے گرادی ہے، تم بار بار فینائل سے دھلواؤ گی۔ لاؤ اب میری ڈبل روٹی واپس کردو۔ تم کیا جانو میں رات کو بہت دور سے یہ لاتا ہوں اور ایک ایک کو بیچتے ہوئے محنت کی تپش اور عظمت کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں۔ جانتی ہو جب کوئی پالے کامارا، ننگا سا بچہ، کوئی کھانسی سے بے حال بوڑھا، کوئی دکھیاری نحیف بڑھیا، کوئی مریض یا کوئی بھوکا آدمی ڈبل روٹی خریدتا ہے تو اس کے چہرے پر کیسی جگمگاہٹ ہوتی ہے، کبھی تم نے کسی بھوکے شخص کو ڈبل روٹی خریدتے دیکھا ہے؟ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لیا ہے؟ اس کے سامنے دنیا کی تمام تشبیہیں اور استعارے ہیچ ہیں اور میں اس وقت خود کو اتنا بڑا آدمی تصور کرتا ہوں جتنا تم حویلی کی دیواروں پر چراغاں کرکے بھی محسوس نہیں کرتی ہو گی۔ میں مناسب نفع لیتا ہوں نا بس اسی لیے میرا مال جلدی بک جاتا ہے پھر اب تو مجھے واقعی دیر ہونے لگی ہے، مجھے اسکول بھی تو جانا ہے آخر!‘‘
’’بی بی جی اٹھالوں نا اپنا مال؟‘‘ اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا اور میں جھر جھری لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ میرے خیالات منتشر ہوگئے۔ نامعلوم کیوں مجھے احساس ہوا کہ میرے دل میںایک چور سا چھپا بیٹھا تھا جسے اس گنوار لڑکے نے پکڑ لیا ہے۔ یہ ٹھیک کہتا ہے، یہ سوکھی باسی روٹی میں اپنے منہ تک لے جانے کی ہمت بھی نہیں رکھتی، کجا کھانا۔ اور یہ پیالی! میں تو کم از کم ابالے بغیر اسے استعمال نہیں کروں گی۔ میں مساوات کی قائل بنی غریبوں سے ہمدردیاں جتاتی پھرتی ہوں۔ لیکن حقیقت میں خود پرستی کا شکار ہوں۔ میں نے اپنے خیالوں کے عریاں جسم پر ہمدردیوں کے جو دبیزخول چڑھا رکھے ہیں ان کے اندر میری شخصیت ہر وقت ننگی رہتی ہے اور آج اس عریانی کو اس حقیر سے لڑکے نے بے نقاب کردیا تھا۔
اچانک نفرت کا ایک ابال سا میرے دل میں امڈ آیا۔ آخر میں کیوں اس نامعلوم لڑکے کے لیے اس قدر جذباتی ہوگئی تھی، ہمدردیوں کے یہ سوتے کیوں اچانک میرے دل سے بہنے لگے تھے؟ میں نے کیوں صبح کی دل کش نیندیں اس کی آواز پر نچھاور کردی تھیں؟ اس کے زندہ وجود کا قرب حاصل کرنے کے لیے میں کیوں اس طرح اسے پکڑ لائی تھی اور اب جبکہ وہ اپنی تمام حقیقتوں اور سچائیوں کے ساتھ میرے سامنے کھڑا بڑی صفائی سے اپنا بیچا ہوا مال صرف اس لیے لے جانے پر مصر ہے کہ میرے ہاتھ ڈبل روٹی بیچتے ہوئے اس نے محنت کی تپش اور عظمت کو اپنے دل پر محسوس نہیں کیا۔ اپنے مال کی بے حرمتی اسے فروخت کرنے کے بعد بھی گوارا نہیں، پھر آخر کیوں میں اس کی بے بسی کا مذاق اڑانے پر تلی ہوئی ہوں؟
اس نے اپنی زندگی کا ٹھوس ضابطہ بنا رکھا ہے، لا یعنی اور بے سروپا باتیں سوچنے کے لیے نہ اس کے پاس وقت ہے اور نہ ضرورت۔ وہ اپنے ننھے سے وجود میں خوش ہے۔ وہ امید و بیم کے بھنور سے لاعلم ہے، … وہ غریب ہی رہے تو اچھا ہے۔ مجھے اس پر احسانات کا بار گراں لادنے کا کوئی حق نہیں … اور نہ ہی اس کی عظمت کو نقصان پہنچانے کا۔
تو اب آپ ہی بتائیے کیا یہ ’’تاجی ڈبل روٹی‘‘ میں اسے واپس کردوں…؟