یہ ام خالد بنت خالد بن سعید بن العاص ہیں، ان کا نام امۃ ہے لیکن اپنی کنیت ام خالد سے مشہور و معروف ہوئیں۔ ان کے باپ ایک جلیل القدر صحابی اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے میں سبقت لے جانے والے تھے۔ ان کا نام خالد بن سعید بن عاص تھا۔ پہلے انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور پھر مدینے کی طرف، اور وہ ایک خدا ترس، تقویٰ شعار اور شہادت کے مرتبے پر فائر تھے۔
ان کی والدہ ایک جلیل القدر صحابیہ اسیمۃ بنت خلف الخزاعیۃ تھیں۔ انھیں صحابیات میں بلند مرتبہ حاصل تھا۔ اور وہ اسلام میں سبقت لے جانے والی خواتین میں سے تھیں۔ چچا عمرو بن سعید بن عاص دو ہجرتوں کا اعزاز حاصل کرنے والے تھے۔ انھوں نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور پھر مدینے کی طرف۔ وہ بھی اسلام میں سبقت لے جانے والوں میں سے تھے۔ انھوں نے جنگ یرموک میں شہادت پائی۔ اس کا بھائی خالد بن سعید بھی ایک معزز صحابی تھے۔
ان کے خاوند ایک سردار، جرنیل، حواری رسولؐ جنت کی بشارت پانے والے مشہور و معروف صحابی زبیر بن عوام تھے۔
ام خالد سرزمین حبشہ میں پیدا ہوئیں۔ اسلامی ماحول میں آنکھ کھولی اور مومن و مہاجر ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھیں۔
ام خالد نے بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ اور رسول اقدسؐ کی محبت کے ماحول میں پرورش پائی۔
ان کے والدین اکثر و بیشتر ان کے سامنے نبی کریمؐ کی وہ قدر و منزلت بیان کیا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن حکیم میں بیان کی، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
’’مومنوں کے ساتھ شفقت اور رحم دلی سے پیش آنے والے۔‘‘ (التوبہ:۱۲۸)
الوداع اور ملاقات
ام خالد بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے تقریباً دس سال کا عرصہ حبشے میں گزارا۔ پھر دو کشتیوں پر سوار مہاجرین کے ہمراہ مدینہ منورہ تشریف لائیں۔ سرزمین حبشہ سے الوداع ہوتے وقت نجاشی نے مسلمانوں سے کہا کہ میرا نبی کریمﷺ کو سلام کہنا ۔ام خالد اس منظر کا تذکرہ کچھ اس انداز میں فرماتی ہیں:
جس دن ہم دو کشتی والوں کے ہمراہ سوئے مدینہ روانہ ہونے لگے تو میں نے حبشہ کے حکمران نجاشی کو یہ کہتے ہوئے سنا۔
کہ تم سب رسول اللہﷺسے میرا سلام کہنا!
ام خالد فرماتی ہیں کہ میں بھی ان خواتین میں شامل تھی جنہوں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں نجاشی کا سلام پیش کیا تھا۔
مہاجرین کی آمد اور نبی کریمﷺ کے ساتھ ملاقات ۷ ہجری کو خیبر میں ہوئی تھی۔
آپ نے انھیں بھی غنائم میں سے حصہ دیا تھا، پھر یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔
ام خالد رضی اللہ عنہا نے مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے صحابیات میں بلند مقام حاصل کیا اور ایسے تمام کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جن کی اسلام نے عورت کو اجازت دی تھی۔
ام خالد کو میرے پاس لاؤ
ام خالد کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بڑا بلند اور قابل رشک مقام حاصل تھا۔ آپ ان کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے اور ان کے والدین کے مقام و مرتبہ اور سبقت اسلام کی خوبی و امتیاز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے۔ اس لیے خاص طور پر انہیں تحائف عنایت کیا کرتے تھے۔
ام خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ کے پاس چھوٹے سائز اور کالے رنگ کا پھول دار اونی ریشمی کپڑا لایا گیا۔ آپ نے فرمایا:
تمہاری نظر میں کون مستحق ہے جسے یہ کپڑا پہنا دوں۔
فرماتی ہیں کہ لوگ خاموش رہے۔
آپ نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ۔
مجھے رسول اللہﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے وہ کپڑا مجھے پہننے کے لیے عطا کرتے ہوئے فرمایا:
اسے خوب پہنو اور مزید کی امید رکھو۔
آپ نے یہ جملہ دو تین مرتبہ دوہرایا۔
آپ نے کپڑے کے زرد اور سرخ پھولوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا: اے ام خالد بہت خوب بہت عمدہ کپڑا ہے۔
علامہ السہیلی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ام خالدؓ اس پر فخر کا اظہار کرتی رہیں اور جو خواتین زیارت کے لیے آتیں انہیں دکھاتیں کہ یہ دیکھو میرے پاس میرے آقا کا تحفہ ہے۔
ام خالد کا حسن اخلاق
ام خالد رضی اللہ عنہا کے حالات و واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ولادت سے وفات تک حسن اخلاق کا پیکر رہیں۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے حضرت زبیر بن عوامؓ نے ان سے شادی کی جس سے عمرو اور خالد پیدا ہوئے۔
ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہیں حدیث رسولؐ روایت کرنے کا شرف حاصل تھا۔
انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سات احادیث روایت کیں، جن میں سے دو احادیث بخاری شریف میں مروی ہیں اور باقی ابو داؤد اور نسائی میں مذکور ہیں۔
حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا سے سعید بن عمرو اور عقبہ کے دونوں بیٹوں موسیٰ اور ابراہیم نے حدیث روایت کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اور ان کے علاوہ چند دیگر راویوں نے بھی حدیث روایت کی ہیں۔
ام خالد اور سنہری واقعات
ام خالد رضی اللہ عنہا کی طرف سے حالات و واقعات اور سیرت نبوی کے حوالے سے مفید معلومات بہم پہنچانے کے سلسلے میں جدوجہد بڑی قابل قدر ہے۔
انھوںنے طلوع اسلام کے موقع پر پیش آنے والے غزوات اور اہم ترین تاریخی واقعات بیان کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
ام خالد رضی اللہ عنہا نے حبشہ کے مہاجرین اور باشندوں کے بارے میں بڑی قیمتی معلومات تاریخی کتابوں کو مہیا کی ہیں۔ اپنے والد محترم کے بارے میں فرماتی ہیں۔ میرے ابا جان کا اسلام قبول کرنے کے حوالے سے پانچواں نمبر ہے۔ انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں دس سال سے کچھ اوپر رہائش پذیر رہے۔ میں وہیں پیدا ہوئی۔
انھوں نے اپنے والد محترم کا امتیاز بیان کرتے ہوئے کہا کہ میرے ابا جان نے سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ تحریر کیے۔
فرماتی ہیں کہ رسولؐ کی بعثت سے پہلے میرے ابا جان ایک رات سوئے ہوئے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مکہ میں اتنا گھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے کہ کوئی اپنی ہتھیلی بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اسی دوران بئر زم زم سے ایک روشنی نکلتی ہے۔ اور آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے۔ جس سے بیت اللہ کی فضا روشن ہوجاتی ہے۔ اور پھر پوری وادی مکہ جگمگا اٹھتی ہے۔ پھر وہ روشنی مدینے کا رخ کرتی ہے۔ جس سے مدینہ چمک اٹھتا ہے یہاں تک کہ میں نخلستان مدینہ میں واضح طور پر کھجوروں کو دیکھتا ہوں پھر میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنے بھائی عمرو بن سعید کو خواب بتایا۔ وہ بڑا دانش مند تھا۔ اس نے کہا بھائی جان، یہ واقعہ بنو عبد المطلب میں پیش آئے گا کیا آپ نے یہ روشنی ان کے آبا و اجداد کے کنوئیں سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھی ہے۔
پھر خالدؓ نے رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد آپ کی خدمت میں اپنا یہ خواب پیش کیا۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا: خالد بہ خدا وہ روشنی میں ہی ہوں۔ میں اللہ کا رسول ہوں۔ پھر آپ نے ان کے سامنے اپنی بعثت کا مقصد بیان کیا تو حضرت خالدؓ نے اسلام قبول کرلیا۔
حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا اپنے چچا عمرو بن سعیدؓ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
’’سرزمین حبشہ میں ہمارے پاس میرے چچا عمرو بن سعید تشریف لائے۔ میرے ابا جان دو سال سے وہاں حبشہ میں مقیم تھے۔ اور وہ اس وقت تک مقیم رہے جب تک مہاجرین حبشہ دو کشتیوں پر سوار ہوکر سوئے مدینہ روانہ نہیں ہوئے تھے۔ سب مہاجرین ۷ ہجری کو خیبر میں نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمرو بن سعیدؓ فتح مکہ، غزوۂ حنین، غزوۂ طائف اور تبوک میں شریک ہوئے۔‘‘
جب مسلمان شام کی طرف روانہ ہوئے تو یہ بھی ان میں شامل تھے انھوں نے جنگ اجنادین میں جام شہادت نوش کیا۔
قبول ہونے والی دعا
ام خالد رضی اللہ عنہا کی زندگی میں رسول اللہﷺ کی دعا کے بڑے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے جب کہ آپ نے اس کے حق میں یہ دعا کی تھی:
’’یہ کپڑا خوب پہنو اور مزید کی امید رکھو۔‘‘
اس دعا میں لمبی عمر پانے کی طرف ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے۔
ان کے حق میں نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی، امام بخاریؓ فرماتے ہیں جتنی عمر ان کو ملی کسی اور خاتون کے نصیب میں نہ آئی۔
علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں تمام صحابیات کے اس دنیائے فانی سے کوچ کر جانے کے بعد یہ فوت ہوئیں۔ یہ صحابی رسول سہل بن سعد کے دورِ حیات تک زندہ رہیں۔ سہل بن سعدؓ کے بارے میں مؤرخین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابی ہیں جو تمام صحابہؓ کے بعد فوت ہوئے۔
ایک دوسری جگہ امام ذہبی کہتے ہیں کہ ام خالد رضی اللہ عنہا تقریباً ۹۰ ہجری تک زندہ رہیں۔
اس طرح حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا نے بڑی لمبی عمر پائی اور زندگی بھر رسول اللہ کا عطا کردہ قیمتی تحفہ گلے سے لگائے رکھا اور اسے ہمیشہ یاد کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ اپنے رب سے جاملیں۔
اللہ ام خالد رضی اللہ عنہا سے راضی ہواور وہ اپنے اللہ سے راضی ہو اللہ نے انہیں دائمی نعمتوں والی جنتوں میں سبز رنگ کے ریشمی لباس پہنا دیے۔lll