تازہ انتخابات کے نتائج

شمشاد حسین فلاحی

ملک کی پانچ ریاستوں میں منعقد ہونے والے انتخابات ختم ہوگئے۔ ان انتخابات میں کانگریس پارٹی کو کراری شکست ہوئی۔ اسے دہلی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور راجستھان سے بھی جب کہ مخالف پارٹی کو ایک اضافی ریاست بھی ملی اور جہاں پہلے سے اس کی حکومت قائم تھی وہاں پر بھی وہ قائم رہی۔ جب کہ دہلی میں سب سے بڑی پارٹی رہنے کے باوجود واضح اکثریت حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے اسے مایوسی اور مستقبل میں خطرات اور اندیشوں کا سامنا ہے۔

ان حالیہ انتخابات میں جہاں کانگریس کی ناکامی اور بی جے پی کی کامیابی اور اس کے اسباب و عوامل بحث کا موضوع رہے وہیں’ عام آدمی پارٹی‘ کی حیرت انگیز کامیابی پر بڑے زور و شور سے بحث ہوتی اور اب بھی جاری ہے۔ لوگ یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ ایک نوجوان کے ذریعے محض چند ماہ پہلے قائم کی گئی سیاسی پارٹی نے نہ صرف ناقابل تصور کامیابی حاصل کی بلکہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کا کھیل بگاڑ دیا۔ اس پارٹی نے ۔70 میں سے 28 سیٹیں حاصل کیں اور 20 سیٹوں پر دوسرے نمبر پر رہے جب کہ کئی سیٹوں پر ہارنے کا تناسب تین ہزار ووٹ کے لگ بھگ رہا ہے، جو سب سے بڑی پارٹی کے لیے بھی تشویش ناک ہے۔

ان پانچ ریاستوں کے انتخابات کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2002 کے مسلم کش فسادات کے علاوہ کئی جرائم میں گھرے وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی کی قیادت میں لڑا اور انہی کو اپنی جانب سے آئندہ کے پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا۔ جبکہ سیاسی پارٹیاں ان انتخابات کو آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے سیمی فائنل قرار دے رہی تھیں۔ اور لوگوں کو یہ باور کرایا جا رہا تھا کہ جو پارٹی اسے جیت لے گی وہی آئندہ سال دہلی میں راج کرے گی۔ یہ خیال دل کے بہلانے کے لیے تو اچھا ہوسکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ حقیقت بھی ہو۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اٹل جی کے زمانے میں بھی اسی طرح کے ریاستی انتخابات میں کامیابی کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے حق میں لہر سمجھ لیا اور قبل از وقت ہی الیکشن کی شفارش کر ڈالی اور نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے انہیں اقتدار سے باہر کر دیا۔ اس دوران بھی میڈیا اور بی جے پی قیادت نے مودی کو مہرہ بناکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس وقت کانگریس کے خلاف لہر ہے اور لوگ بی جے پی کو دہلی کے اقتدار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر تو کسی حد تک صحیح ہوسکتی ہے کہ برسر اقتدار پارٹی سے شکایات ہوتی ہیں اور عوام کبھی کبھی اقتدار کی مخالفت میں بھی ووٹ کرتے ہیں مگر پورا ملک کسی لہر میں بہ جائے گا اب یہ ممکن نہیں کیوں کہ ووٹر اب باشعور ہے اور اپنے اور ملک کے مسائل پر بھی نظر رکھتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تک دہلی میں مضبوط قیادت یا تو کانگریس کی رہی ہے یا کچھ سالوں کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ دہلی کا اقتدار سنبھالا ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی دوسری حکومتیں آئیں وہ غیر مستحکم ہی رہیں۔ ایک مرحلے میں کانگریس نے بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ پھر عوام نے اسے سبق سکھایا۔ مگر یہ سبق کوئی متبادل نہ دے سکا۔ اسی عرصہ میں شدت پسند ہندو طاقتوں کا عروج ہوا اور عوام نے انہیں بھی اقتدار کی زمام سونپ کر دیکھا مگر وہ بھی ان کی توقعات پر پوری نہ اتر سکیں اور باہر ہوگئیں۔ اب ہندوستانی عوام کی بدقسمتی ہے کہ وہ انہی دو سیاسی پارٹیوں اور اس کے حلیفوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر مجبور ہے۔

دہلی کے حالیہ انتخابات کو اس تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے کہ کرپشن وبے ایمانی میں تمام ہی سیاسی پارٹیاں ناک تک ڈوبی ہوئی ہیں۔ سیاست داں اور امراء و وزراء عیش کر رہے ہیں اور عوام بنیادی ضرورتوں کے لیے نہ صرف ترس رہے ہیں بلکہ تڑپ رہے ہیں۔ مہنگائی مسلسل ان کی پشت پر کوڑے برسا رہی ہے اور وہ تکلیف کے عالم میں چھٹ پٹا رہے ہیں۔ ایسے میں جب ایک نوجوان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ صاف ستھری اور ایمان دارانہ سیاست اور مہنگائی کے خلاف نعرہ لگایا تو وہ اس کے ساتھ ہولیے۔ بات صاف ہے کہ اب عوام تمام پرانی سیاسی پارٹیوں اور ان کی بے ایمانیوں اور وعدہ خلافیوں سے اوب چکے ہیںاور اول الذکر دونوں بڑی پارٹیاں اور ان کے حلیف محض ہندوستانی عوام کی مجبوری ہیں اور وہ دو برائیوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے پر مجبور ہیں، اور اب اسٹیج اور میدان ان طاقتوں کے لیے بالکل خالی ہے، جو صاف ستھری سیاست اور ایماندارانہ حکومت کو وعدہ کریں۔

دہلی کے انتخابات نے یہ بات بھی ثابت کی کہ عوام اب اپنے مسائل کو لے کر اتنے سنجیدہ اور سیاست دانوں سے اتنے بیزار ہیں کہ وہ برادری اور اونچ نیچ کی سیاست کو بھی خاطر میں نہیں لائیں گے اور یہ کہ ملک کے مفاد کے لیے وہ مذہبی تفریق کی دیواروں کو بھی ڈھانے کے لیے تیار ہیں۔

یہ انتخابات کانگریس کے لیے تازیانہ، بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے امتحان، عام مسلمانوں کے لیے مقام غور و فکر اور مسلم سیاست کے موید سیاسی گروپوں اور مسلم سیاست دانوں کے لیے عبرت و احتساب کا مقام ہیں کہ وہ طویل عرصہ سے یا تو عوام کے ذریعے رد کی گئی (Rejected) قوتوں کا دم چھلہ بن کر جیتے رہے ہیں یا بغیر محنت، نظریاتی خود اعتمادی اور عوامی سیاسی ایجنڈے کے اس ملک میں نیا سیاسی انقلاب لانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ ہندوستانی مسلمان مسلم سیاست، اس کے خط و خال، اہل وطن کے مسائل و مشکلات، اپنے ایجنڈے کے امتیازات و مواقع اور اس کے فوائد و نقصانات پر اجتماعی بحث کریں۔ اس لیے کہ یہ بحث نصف صدی سے بھی زیادہ مدت سے رکی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان سیاسی بے شعوری، بے وقعتی اور بے وزنی کا شکار ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں