سودہ جلدی جلدی اپنے کام نپٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ آج اس کی پڑوسی ملیحہ کو اس کے گھر آنا تھا۔ ملیحہ سے اس کی پہلی ملاقات ایک اسٹور میں ہوئی تھی۔ میاں بیوی اور چار بچوں پر مشتمل یہ خاندان دو تین ماہ قبل ہی اس کے پڑوس میں شفٹ ہوا تھا۔ سودہ نے ملیحہ کو آج لنچ پر بلایا تھا۔ وہ کام ختم کر کے ملیحہ کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ ڈور بیل بجی۔ دروازہ پر ملیحہ اپنی دو سال کی بیٹی کے ساتھ موجود تھی۔ سلام کرتے ہوئے سودہ ، ملیحہ کو گلے لگاتے ہوئے اندر لے آئی۔ ملیحہ’’ وائو! تم نے تو اپنا گھر بڑے سلیقے سے سجا رکھا ہے کیا تمہارے میاں تمہاری مدد کراتے ہیں یا میڈ بلواتی ہو۔‘‘
سودہ مسکرائی اورکہنے لگی’’ میرے میاں بہت اچھے ہیں مگر گھر کے کام ان کو نہیں آتے۔ ‘‘
اس کے بعد اِدھر اْدھر کے موضوعات پر دونوں کی گفتگو شروع ہو گئی۔ ملیحہ کی بیٹی اس دوران مستقل اس کو تنگ کر رہی تھی۔ ملیحہ نے اس کو خاموش کرنے کے لیے اپنے موبائل میں اس کو کارٹون لگا کر دے دیا۔ تھوڑی دیر تو وہ کارٹون سے بہلی ، مگر پھر دوبارہ تنگ کرنے لگی۔ اب ملیحہ نے فون پر ہندی گانے اور ڈانس کی ویڈیو لگا کر فون بچی کے حوالے کر دیا۔ بچی شاید اس کی عادی تھی لہٰذا اس کو دیکھتے دیکھتے سو گئی۔
ملیحہ نے یہ دیکھ کر سودہ سے کہا ’’ دیکھو کتنی چالاک ہے، ہندی گانوں اور ڈانس کی ابھی سے پہچان ہے۔ اب کیسے آرام سے سو گئی ہے۔ میں تو اس کو چپ کرانے کے لیے گھر میں بھی ٹی وی پر مووی لگا دیتی ہوں اس طرح مجھے فرصت کا وقت مل جاتا ہے۔‘‘
سودہ کو یہ بہت عجیب لگا۔ اسے ملیحہ پر افسوس ہو رہا تھا کہ کس طرح اتنی سی بچی کی غلط طریقے سے تربیت کر رہی ہے۔ اس کا دل چاہا کہ اسے کچھ سمجھائے۔ لیکن اس کی بات کے آغاز سے پہلے ہی ملیحہ دوبارہ شروع ہو گئی۔ میں نے اپنے باقی بچوں کو بھی اسی طرح رکھا ہے۔ میرے پاس کہاں اتنا ٹائم کہ ہر وقت ان کو گود میں لیے رہوں؟ ان کے نخرے سہوں؟ شروع میں تو میری ساس اس بات پر بڑا شور مچاتی تھیں کہ یہ کیا کر رہی ہو؟ ابھی سے بچوں کے دماغ میں خرافات ڈال رہی ہو۔ لیکن تم بتائو کہ میں کیا کرتی۔ یہاں تو میڈ بھی اتنی مہنگی ہوتی ہیں کہ آپ کبھی کبھی ہی بلا سکتے ہیں۔ میرے شوہر بھی میری مدد نہیں کرتے ہیں۔ ان کے گھر میں تو یہ سسٹم ہے کہ ہر کام بیوی سے ہی کرائو۔ اگر کبھی تھکا ہوا دیکھ کر کچھ مدد کرنا چاہیں تو ساس صاحبہ لیکچر دینا شروع کر تی ہیں کہ بیوی نے تو غلام بنا لیا ہے۔
یہ حقیقی واقعہ ہے جو بتاتا ہے کہ آج کے والدین کی سوچ کیا ہے اور وہ کس انداز میں اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہیں؟ غلط اور صحیح کی تمیز نہیں کر پا رہے۔ ہمارے رب نے ہمیں اولاد بطور آزمائش عطا کی ہے اور ان کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔والدین سمجھتے ہیں کہ اپنے بچے کو ڈاکٹر ، انجینئر بنانا ، اعلیٰ مناصب پر پہنچا دینا، دنیاوی ڈگریاں دلوانا اصل مقصد زندگی ہے۔ اسی کے پیچھے اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ اولاد کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لیے ہی ہلکان ہوتے ہیں ، جبکہ روزی کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔ اور آپ پر جو ذمہ داری ڈالی ہے وہ ان کی تعلیم و تربیت کی ہے کہ وہ خدا شناس اور زندگی میں حق پر قائم رہیں۔
ماں کی گود
بچے کی پہلی درس گاہ اس کی اپنی ماں ہوتی ہے۔ مان جس کردار اور سوچ کی حامل ہو گی ویسے ہی اس کے اثرات بچے کی تربیت پر پڑتے ہیں۔
امام شافعیؒ کی والدہ کا کردارہمارے سامنے ہے کہ جن کو بیوگی اور غربت میں بھی فکر تھی تو صرف اپنے بچے کی دینی اور اخلاقی تربیت کی جس کے لیے اکلوتے بچے کی جدائی برداشت کرتی رہیں۔ والدین کو اور خاص کر ماں کو جس طرح اپنے بچے کی دنیا بنانے کی فکر ہوتی ہے ویسے ہی اس کی آخرت بنانے کی بھی فکر ہونی چاہیے۔ جنت مائوں کے قدموں تلے ایسے نہیں رکھ دی گئی ہے اس کے لیے بہت محنت اور ریاضت کی ضرورت ہے۔
مرد بحیثیت والد
نسل نو ایک کچی ٹہنی کی مانند ہوتے ہیں انہیں جس رخ پر موڑ دو مڑ جاتے ہیں۔ اگر بچپن کی تربیت پختہ ہے تو آسانی سے وہ برائی کے راستہ پر نہیں جاتے اور معاشرہ کے بنائو اور اس کی تعمیرمیں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔یہی ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔ اب وقت ہے کہ والد کو آگے بڑھ کر اپنا رول ادا کرنا ہو گا۔ ماں تنہا تربیت کا حق ادا نہیں کر سکتی۔ آج کی اس چکا چوند میں باپ ہی اولاد کو گھر سے باہر کی دنیا سے دھیرے دھیرے متعارف کروا سکتا ہے۔ بچوں کا بگڑنا بہت آسان ہے اگر باپ موجود ہوتے ہوئے بھی اپنا کردار ادا نہ کرے اور یہ ہماری سو سائٹی کا بڑا المیہ ہے۔ اس کے لیے ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ باپ خود دین کا علم حاصل کرے۔ اگر باپ اسلامی سوچ رکھنے والا ہو گا اس کو یہ احساس ہو گا کہ ہر راعی سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ والد کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف بچوں کو رزق حلال کھلائے بلکہ اس کی افادیت اور حرام رزق کے نقصانات سے بھی آگاہ کرے۔ شروع سے ہی ان کے اندر شرم و حیاء کو اجاگر کیا جائے۔ ستر کی حدود ، بے لباسی اور بے حیائی سے پیدا ہونے والے مسائل کو گفتگو کا حصہ بنانا چاہیے۔ بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ حق کی خاطر کھڑے ہو سکیں اور یہ کام باپ سے زیادہ بہتر انداز میں کوئی نہیں کر سکتا۔ والد کو اپنے بچوں کا دوست بننا ہے۔
بچوں کو کوئی بھی پروفیشن اختیار کرنے کی اجازت دیں تاکہ وہ اس سائنسی دور میں کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ ہمیں صرف ڈاکٹر اور انجینئر ہی درکار نہیں بلکہ وکیل ، جج ، صحافی ، معلم ،سائنسدان ، تاجر غرض ہر میدان میں پر اعتماد مسلم نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے صالح نوجوان جو نا صرف اس سسٹم کی خرابیوں سے آگاہ ہوں بلکہ ان کو درست کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔
بزرگ اور نسل نو کی تعمیر
اسلامی تہذیب و ثقافت میں معاشرہ کے بزرگ مشترکہ اثاثہ ہوتے تھے۔ نئی نسل کی اٹھان ان بزرگوں کی آغوش عاطفت میں ہوتی تھی۔ ان کو یہ حق حاصل ہوتا تھا کہ اگر کوئی بچہ اخلاقی بے راہ روی میں مبتلا نظر آئے تو وہ اس کو بری روش کے انجام و عواقب سے خبر دار کریں اور اسلامی تعلیمات و اخلاقیات سے انحراف پر اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے اور اپنے مواعظ حسنہ سے اسے راہ حق سے بھٹکنے سے باز رکھیں۔
احنف بن قیس نے حضرت امیر معاویہ کو نئی نسل کے بارے میں کچھ اس طرح نصیحت کی تھی۔ ’’ بچے ہمارے ستون ہیں جن سے ہماری پیٹھ سہارا لیتی ہے وہ ہمارے دلوں کے مرغوب پھل ہیں ، وہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ ان ہی کو لے کر ہم دشمنوں پر حملہ کرتے ہیں ، وہی ہمارے بعد ہماری جگہ لیتے ہیں ، پس تجھے چاہیے کہ بچوں کے لیے نرم و ملائم زمین بن جا ، اگر وہ مانگیں تو انہیں دو ، تمہاری خوش نودی چاہتے ہیں تو ان سے خوش رہو، انہیں اپنی محبت سے محروم نہ رکھ ورنہ وہ تمہارے قرب سے بھڑکیں گے اور بھاری زندگی سے کھٹکیں گے اور موت کی آرزو کریں گے۔ ‘‘ خاندان کے بزرگ افراد کو حکمت اور دلجمعی کے ساتھ اس دور کے بچوں کے ساتھ تعلق رکھنا ہو گا۔ عورت کی گھر کے باہر کی ذمہ داریوں کے باعث ایک فرد کی گھر میں ہمہ وقت موجودگی اطمینان کا باعث ہوتی ہے۔ لہٰذا اس وقت کو جب والدین بچوں کو بے بی سٹنگ کے لیے اپنے والدین کے حوالے کرتے ہیں۔ اس وقت بچوں کے ساتھ دوستی اور قربت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عموماً والدین بزرگوں کی پریشانی کا خیال کرتے ہوئے بچوں کو اسکرین کے سامنے بٹھا دیتے ہیں۔ مگر اس وقت کا صحیح استعمال دور رس نتائج چھوڑتا ہے۔
نئی نسل کو اسلامی تعلیمات سے بچپن سے ہی روشناس کرانا ہو گا۔ جب گھر سے ماں باپ دونوں کے زیر سایہ پل مضبوط کردار نسل تیار ہو گی تو وہ ضرور دنیا میں انقلاب برپا کرے گی۔ لیکن اس مقصد کے لیے ایسے والدین اور بزرگوں کی ضرورت ہے جو نئی نسل کے دین اور دنیا دونوں کو بنانے کی فکر کریں۔