تصویروں، اخباری صفحوں اور ہڈیوں کے ڈھیر کی صورت میں ایسی بے شمار کہانیوں کے کردار دبے ہوئے ہیں، جن کے ساتھ تقدیر نے سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلتے ہوئے انہیں بلندی سے نیچے گرا دیا۔ ان میں سے کچھ کرداروںکی آوازیں عدالت میں گونجیں تو کچھ ٹی وی چینلز اور اخبارات کا حصہ بنیں اور کچھ شور مچاتی زمین بوس ہوگئیں۔
سانس لینے اور جینے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب وہ ضرور دیتی، اگر ۹۰ فیصد جلے جسم کی حالت اسے مرنے پر مجبور نہ کرتی۔ یہ احساس حیدر آباد کی ویٹنری ڈاکٹر ہی کے بارے میں نہیں بلکہ نہ معلوم کتنی بیٹیوں کے بارے میں ہے جو جلا کر ہلاک کر دی گئیں۔
اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ خواتین پرجنسی و جسمانی تشدد کے ہر روز ہی ایک دو نہیں کئی واقعات سننے اور پڑھنے میں آتے ہیں، شاید اسی لئے ہمارے آنکھوں سے حیرت رخصت ہوچکی ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب خواتین پر تشدد گلیوں اور بازاروں میں بھی ہونے لگا ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی شروع ہوگیا ہے۔ یعنی ہزار احتجاج کے باوجود یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جارہا ہے اور یہ ملک عزیز ہی میں نہیں پوری دنیا میں یکساں طور پر ترقی پا رہا ہے۔
بین الاقوامی فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی میں مشرق وسطیٰ اور مشرقِ بعید کے بیش تر ممالک میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ جنگوں، بغاوتوں اور سیاسی ابتری کے شکار ممالک کے علاوہ پرامن، مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی ریپ کی وارداتوں میں فکرانگیز حد تک اضافہ ہوا ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرنس، ڈنمارک، ہالینڈ اور جرمنی میں ایسی وارداتوں کے اعدادوشمار اکٹھے کرنے والے یونٹوں کو چونکا دیا ہے۔
قحط زدہ علاقوں ایتھوپیا اور صومالیہ میں روٹی کے ایک ٹکڑے کی خاطر لڑکیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا، ان پر تشدد کیا گیا۔
اس کڑوے سچ سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ عورتوں کے خلاف تشدد اور ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک کی روایت نہایت قدیم ہے۔ مادرسری نظام صرف کہانی دکھائی دیتا ہے حالا ں کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 1999میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ اس بات کا احساس اجاگر کرنا ضروری ہے کہ عورت کو اس سماجی استحصال سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے خلاف ہر قسم کا تشدد ختم کرنے کے لئے جامع منصوبہ بند ی کی جائے۔ نیز انسانی حقوق یونی ورسل چارٹر کا حصہ ہیں، جس کے تحت عورتوں کو ہر طرح کے حقوق کا تحفظ فراہم کیا جائے لیکن تاحال ایسا نہیں ہوا۔
تہذیب کے سفر کے ساتھ صنف نازک پر ظلم و تشدد بھی جاری ہے، آج بھی لمحہ بہ لمحہ سروں پر لٹکتی ہوئی جنسی ہراسانی اور تشدد کی تلوار ان اسباب میں سے ایک ہے جو خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔ امن اور انسانی حقوق کا آپس میں گہرا تعلق ہے، جہاں حقوق نہیں ملتے، وہاں فساد برپا ہوتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں خواتین کی ایک ہی بازگشت ہے، عورتوں کو حقوق دو، ان پر تشدد ختم کرو اور مجرموں کو سزا دو۔ اقوام متحدہ اپنی کوششوں میں ناکام ہوگئی ہے۔ سزا سے ظالموں کا بچ نکلنا ان اہم عوامل میں سے ایک ہے جو ان پر جنسی و جسمانی تشدد کے فروغ کا باعث ہیں۔
گرچہ لحظہ لحظہ تغیر پذیر دنیا میں خواتین پرتشدد کے انداز بدلتے گئے لیکن روز اول سے آج تک عورت دنیا کے تمام معاشروں میں بے توقیری کے حالات کا سامنا کررہی ہے، مگر آج کی ترقی یافتہ دنیا میں تو اس سے جینے کا حق بھی چھینا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ کے امور انسانی حقوق کے ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جن ممالک میں خواتین پر تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ان میں ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان، ایران اور جنوبی افریقا شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت اور بنگلہ دیش کے انتہائی پس ماندہ علاقوں میں 2007سے 2017کے وسط تک صرف تیزاب سے چھ ہزار نوے جھلسی خواتین کے کیسز منظر عام پر آئے لیکن ان واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں تشدد کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات ہی نہیں کئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق تشددکی شکار بیش تر خواتین کے پاس زیادتی کے ماحول میں رہنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔
گزشتہ چند برسوں میں یہ جاننے کے لئے کہ دنیا میں عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے، عالمی سطح پر دو سو سے زائد سروے کئے گئے، جن میں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ممالک شامل تھے۔ سروے رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز دس میں سے چھ خواتین پر گھریلو تشدد کیا جاتا ہے۔ انہیں مکوں، لاتوں، چھریوں، گھونسوں اور تاروں ہی سے نہیں مارا پیٹا جاتا بلکہ آہنی نوک دار اوزاروں سے بھی ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جیلوں میں قید خواتین بھی غیر محفوظ ہیں۔ جیل کے محافظ ہی ان پر جسمانی و جنسی تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہاں خاندان اور کمیونٹی کی حفاظت سے محروم خواتین آسانی سے تشدد کا شکار ہوجاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پچاس برس سے امریکا کی جیلوں میں قیدی خواتین انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ وہ تشدد اور بنیادی سہولتوں سے محروم ظالمانہ غیر انسانی رویوں کو برداشت کررہی ہیں۔
اکیسویں صدی میں بھی عورت پر تشدد ان کی چیخ وپکار اور مظلومیت کی داستانیں عالمی سطح پر سنی تو جارہی ہیں لیکن یہ کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا میں تشدد کی شکار خواتین کوانصاف نہیں ملتا ،خواہ تشدد گھروں میں کیا جائے یا جیل خانوں میں یا مسلح تنازعات میں احتسابی عمل کے فقدان کی وجہ سے ایک ایسی فضا پیدا ہوچکی ہے ،جس میں بد سلوکی اور تشدد کا ارتکاب آسان سے آسان تر ہوتا جارہا ہے۔
مسلح تنازعات کے دوران شہری آبادی خاص طور پر عورتوں اور لڑکیوں کو بہت زیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے والی عورتیں اکثر جنسی تشدد کا شکار ہوجاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں خاندان والے بھی ایسی لڑکیوں کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔
اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو بوسنیا ہرز گووینا میں 1993ء تک جنگ کے حوالے سے ہونے والے زنا بالجبر کے واقعات کی تعداد چالیس ہزار تھی۔ 1999ء میں روانڈا کی عورتوں کے ایک سروے کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ 1994ء قتل عام کے دوران 39 فی صد عورتوں کا ریپ کیا گیا تھا اور 72 فی صد عورتیں کسی نہ کسی ایسی عورت کو جانتی تھیں جس کے ساتھ ریپ ہوا تھا، کوسوو، البانیہ، لائبریا، کانگو، سرالیون، غرض یہ کہ جہاں بھی جنگیں یا خانہ جنگی ہوئی، وہاں عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 1996 سے پہلے تک افغانستان کے دارالحکومت کابل میں زنا بالجبر اور جنسی تشدد کے واقعات عام تھے۔
انڈونیشیا کی فوج نے تیمور کی عورتوں کے ساتھ ان کے خاندانوں کے سامنے زنا بالجبر کیا۔ برما کے صوبے بے شان میں 1990 کی دہائی میں مقامی باغیوں کو کچلنے کے لیے سیکڑوں عورتوں کا ریپ کیا گیا، یہی روسی فوجیوں نے چیچنیا میں کیا۔ زنا بالجبر، جسم فروشی اور جنسی غلامی سب جنگی جرائم ہیں۔ خواتین کے خلاف جاری یہ جنسی و ہمہ نوع تشدد موجودہ دور کی انسانیت کے ماتھے پر کلنک ہے۔
ملک کی صورتِ حال
انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق اب ہمارا ملک بھی ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیاہے جو خواتین کے لیے غیرمحفوظ ہوتے جارہے ہیں بھارت میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد، زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ادھر حالیہ دنوں میں تو جیسے جنسی تشدد اور جلا کر مار ڈالنے کے واقعات کا سیلاب سا آگیا ہے۔ زیادتی کا شکار خواتین کو مجرم سمجھنے کا رویہ بھی ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ اصل مجرموں کو سزا نہیں ملتی، پھر ریپ کے جو مقدمات درج کرائے جاتے ہیں ان میں مجرم کو سزا ہونے کی شرح صرف 26 فی صد کے قریب رہ گئی ہے۔
انورادھا گپتا جو مشن ڈائریکٹر برائے نیشنل رورل ہیلتھ مشن ہیں، انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ دہلی دنیا میں سب سے زیادہ میٹروپولیٹن پولیس رکھنے والا شہر ہے، جس کی تعداد 84000 پولیس اہل کاروں پر مشتمل ہے لیکن یہ زیادہ تر بڑے لوگوں کی حفاظت میں مصروف رہتے ہیں اس لیے عورتوں کو تحفظ نہیں مل رہا۔ رپورٹ کے مطابق اب تو حکام اور سیاسی لیڈران بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ عوامی مقامات پر بھی خواتین محفوظ نہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ
عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کا اعلان نامہ ،جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1993ء میں منظور کیا تھا۔ اس امر کی توثیق کرتا ہے کہ،’ ’ریاستوںکو پوری تن دہی کے ساتھ تشدد کے واقعات کو روکنا چاہیے،ان کی تفتیش کرنی چاہیے اور ان جرائم کے مرتکب افراد کواپنے ملک کے قوانین کے مطابق سزا دلوانی چاہیے ،خواہ تشدد ریاست کی جانب سے ہو یا اس کا ارتکاب عام افراد نے کیا ہو۔لیکن بیش تر حکومتیں ایسے اقدامات کرنے میں تاحال نا کام ہیں ،جن سے خواتین پر تشدد کا خاتمہ ہوسکے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں قیدی خواتین کو مرد اسٹاف اور گارڈز جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں لیکن وہ شکایات کرنے سے اس لیے کتراتی ہیں کہ انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ تفتیشی افسران کی باتوں کا یقین نہیں کریں گے اور اگر کر بھی لیں گے تو بعد میں انہیں اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کو سزائے موت کی منتظر ایک قیدی خاتون نے بتایا کہ ’’جب میں اپنے نومولود بچے کو اٹھاتی ہوں تو ہتھکڑیوں میں جکڑی ہوئی ہوتی ہوں اور جب بچے کو دیکھنے کے لیے نرسری جاتی ہوں تب بھی میر ے پیروں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوتی ہیں۔‘‘ ایک اور قیدی کارلا، دہرے قتل میں چودہ سال جیل میں رہی اس دوران اس پر بھی تشدد ہوتا رہا، بعد ازاں اسے زہر کا انکشن لگا کر ہلاک کردیا گیا۔
اس واقعہ کے بعد جب امریکا کی ایک عدالت میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا خواتین پرتشدد کرنے انہیں عمر قید اور سزائے موت دینے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو بیشتر ججوں کا جواب تھا کہ ’’ایسی سزائیں امریکی خواتین کو سکھاتی ہیں کہ قوانین بہت طاقت ور ہوتے ہیں اور جج اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔‘‘
قابل غور بات یہ ہے کہ ججوں نے عوام کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا، صرف امریکی خواتین کہا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مردوں کے لیے قوانین طاقت ور نہیں ہیں، جب مرد خواتین پر تشدد کرتے ہیں تو ججوں کو اپنا فرض یاد نہیں آتا۔ یہ ہے سپرپاور کا منفی رویہ۔
ٹیری گرین نے 2005 ء میں اقوام متحدہ کی امن کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ،’’ اس وقت پوری دنیا میں ایک ہی بازگشت ہے کہ ’’عورتوں کو حقوق دو ،ان پر تشد د ختم کرو اور مجرموں کو سزا دو۔اقوام متحدہ اپنی کوششوں میں ناکام ہوگئی ہے آگے کیا کر نا ہے ،یہ سوچنا ہماری ذمے داری محسوس ہونے لگی ہے۔‘‘
ٹیری گرین ،نسائی امن تنظیم بیت شالم کی نما ئندہ خاتون ہیں۔
اسی سال جب خواتین پر تیزاب سے حملوں کی خبریں اور ان کے نامکمل چہرے منظر عام پر آئے تو ٹیری گرین نے ایک کانفرنس میں اپنے خطاب میں کہا۔’’میں ایک عورت ہونے کی حیثیت سے یہ بات اچھی طر ح جانتی ہوں کہ ہم سب (عورتیں ) وحشت وبربریت سے نفرت کرتی ہیں۔تشدد ،ناانصافی اور صنفی تفریق کی علامتوں کو جڑ سے ختم کردینا چاہتی ہیں۔ایک طویل عر صے سے عورت کو صرف مظلوم اور متاثرہ فرد کے طور پر دیکھا جارہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ظالم مرد ہر روز تشدد کی نئی اور آسان راہ پر چل پڑتے ہیں۔
اب ان کے لیے تیزاب موثر ہتھیار ہے ،جس کا نتیجہ بھی سیکنڈوں میں نظر آجاتا ہے۔اس لیے اب ہمیں اپنے اردگرد کی دنیا کو خود بدلنا ہوگا۔ اپنے اوپر ہونے والے تشدد پر آواز بلند کرنی ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ عورتوں پر تشدد کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔جلد ہی وہ وقت آئے گا جب خواتین پر تشددکرنے والے مرد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے تو پھر کوئی درندہ وحشی اس سر زمین پر سر نہیں اٹھا سکے گا، مگر اس کے لیے عورتوں کو اپنی بھر پور طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘‘