سوچتی ہوں، یہ کہوں یا نہ کہوں ان سے ندیم!
کس طرح دوں میں انھیں مشورئہ سود و زیاں
کچھ بھی ہو پر مجھے یہ بات تو کہنا ہوگی!
فرض اکساتا ہے گو شرم پکڑتی ہے زباں
آشکارا ان پہ مری راہ گذر ہے کہ نہیں؟
ان کو معلوم مری سمتِ سفر ہے کہ نہیں؟
جس کے دشمن ہوئے وہ، زندہ ہوں اس نام پہ ہیں
جادئہ سرخ پہ وہ، جادئہ اسلام پہ میں!
کیسے پھر عزمِ سفر تازہ کریں گے دونوں
پاس رہتے ہوئے جو دور رہیں گے دونوں
سوچ لیں، دیکھ لیں حالات کے آئینے میں
کیا انھیں پھر بھی مرا ساتھ گوارا ہوگا؟
ان کے خوابوں میں تو ہے سرخ پھریروں کا جلوس
ان راہوں میں ہے مزدور کی جنت کا طلسم!
وہ تو کھا بیٹھے شفق تاب فضاؤں سے فریب!
چھا گیا ان پہ تو جذبات کی شدت کا طلسم
میری آنکھوں میں ہے قرآں کا نظامِ ہستی!
ان کی منزل سے بہت آگے ہے میری منزل!
ان کو منظور ہے کیا میرا سہارا بننا؟
میری دھندلی سی فضاؤں کا اجالا بننا؟
ان کو منظور ہے کیا کش مکشِ طوفاں میں!
ڈگمگاتی ہوئی کشتی کا کنارا بننا؟
اپنے اللہ سے اک عہد کیا ہے میں نے
مجھ کو وہ عہد بہرحال نبھانا ہوگا!