شادی کے بعد مجھے کبھی بھی ایسا نہیں لگا کہ میری آزادی سلب ہوئی ہے۔ شاید اس لیے کہ مجھے نہ راتوں کو گھر سے غائب رہنے کی عادت تھی نہ نشے یا جوئے کی لت۔
ہاں، پہلی بار تھوڑی سی کوفت اس وقت ہوئی، جب میں نے شادی کے بعد پہلی تنخواہ زینت کودی۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ تنخواہ مجھے اپنے ہی پاس رکھنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ محنت میں کرتا ہوں۔
آخر میں نے سوچ لیا کہ اب اگلے مہینے سے تنخواہ اپنے پاس ہی رکھوں گا۔ اگلے مہینے پہلی تاریخ کے بعد پورا ہفتہ گزرگیا۔ میں نے تنخواہ کا کچھ ذکر ہی نہیں کیا۔
’’اویس، آپ کو تنخواہ نہیں ملی کیا؟‘‘ آخر ایک دن وہ پوچھ بیٹھی۔
’’نہیں تو، مل گئی ہے، کیوں؟‘‘ میں نے انجان بنتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تو اس دفعہ خرچہ دینے کا ارادہ نہیں ہے؟‘‘ اس نے کہا۔
’’ارے نہیں، میں دیکھ رہا تھا کہ تم بغیر تنخواہ کے کتنے دن گزار سکتی ہو؟‘‘ میں نے بات مذاق میں ٹال دی اور تنخواہ اس کے ہاتھ میں دے دی۔
پھر ہر بار یہ ہی ہوتا میں مہینے کے آخری دنوں میں خود کو بار بار سمجھاتا کہ آخر وہ میری بیوی ہے۔ میری تنخواہ پر اس کا حق ہے۔ پھر وہ اس پیسے کو ضائع تو نہیں کرتی، بلکہ سب ہی اس کے سلیقے کی تعریف کرتے ہیں۔ اقبال کی امی جب کبھی ملنے آتیں تو اس کا سلیقہ دیکھ کر بہت خوش ہوتیں۔
’’اویس میاں! بیوی تو تمہیں ہیرا ملی ہے۔‘‘ وہ زینت کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتیں۔
ندیم کی بیوی بھی کئی دفعہ کہہ چکی تھی ’’اویس بھائی! آپ لکی ہیں۔ حسن، سلیقہ اور خوش مزاجی سب کچھ زینت بھابی میں موجود ہے۔‘‘
’’لگتا ہے، تم نے کوئی زبردست نیکی کی ہے جس کا اجر بلاشبہ اللہ میاں نے تمہیں زینت بھابی کی صورت میں دیا ہے۔‘‘ ندیم مذاق کرتا۔
ایسے جملے سن کر مجھے واقعی زینت پر پیار آجاتا۔ میں سوچتا واقعی اس کی قدر کرنی چاہیے اور درحقیقت میں نے کبھی اسے دکھ پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہ ہوتا۔
ہاں، البتہ تنخواہ ہاتھ میں آتے ہی ساری باتیں بھک سے میرے ذہن سے اتر جاتیں اور ذہن شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتا۔
’’آخر جب محنت میں کرتا ہوں تو تنخواہ اس کے ہاتھ میں کیوں دوں؟‘‘ مجھے غصہ آتا۔
’’وہ بیوی ہے، پھر وہ تمہارے پیسے کو تمہارے گھر اور تمہاری ذات پر ہی تو خرچ کرتی ہے۔‘‘ میرے اندر سے کوئی مجھے سمجھاتا۔
میں اپنے آپ کو قائل کرنے کی کوشش کرتا مگر تنخواہ ملتے ہی جانے مجھے کیا ہوجاتا۔
یوں ہی روٹھتے ہنستے، کبھی خوش اور کبھی ناراض، وقت گزرتا رہا۔
زندگی ایک خود کار زینہ ہے۔ جو غیر محسوس طریقے پر آگے بڑھ رہا ہے اور اب اس خود کار زینے پر میرے اور زینت کے درمیان ایاز، خالد اور مریم بھی تھے۔ میرا آنگن مہک رہا تھا۔ ہمارے بچے اچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ میں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ضروریات کی وجہ سے ایک جگہ پارٹ ٹائم جاب کرلی تھی۔ مگر میرا انداز اب بھی وہی تھا۔ جب میرے ہاتھ میں تنخواہ آتی تو میں اپنے اندر وہی پہلے دن والا انداز محسوس کرتا۔ زینت کو تنخواہ دیتے ہوئے مجھے سخت کوفت ہوتی لیکن وقت نے اتنا اثر ضرور ڈالا تھا کہ میرے چہرے یا انداز سے اب یہ نہ معلوم ہوتا کہ میں اس وقت ذہنی طور پر الجھن محسوس کررہا ہوں۔
دھیرے دھیرے زندگی کا خود کار زینہ ہمیں اس منزل پر لے آیا تھا، جہاں ہمیں اپنی اولاد کے فرائض سے سکبدوش ہونا تھا۔
مریم کے لیے ایک بہت اچھے گھر سے رشتہ آیا ہوا تھا۔ معزز فیملی تھی، لیکن میں کچھ پریشان تھا۔ وہ لوگ رخصتی جلدی چاہتے تھے۔ جب کہ میرے وسائل اتنے نہ تھے۔ یہ ہی بات مجھے پریشان کررہی تھی۔ زینت میرے لیے کافی لے کر آئی تو اس کی مسکراہٹ جیسے کہہ رہی تھی کہ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو۔‘‘
اچھی شریکِ حیات واقعی غیر محسوس طریقے پر آپ کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لے لیتی ہے۔ اس کے پاس کافی تیاری مکمل تھی۔ کچھ کیش بھی تھا۔مجھے اس کے سلیقے کی داد دینی پڑی۔ اور یوں ہم جلد ہی مریم کے فرض سے سبکدوش ہوگئے۔
ایاز اور خالد بھی اپنی تعلیم مکمل کرچکے تھے۔ ایاز ہاؤس جاب کررہا تھا اور خالد ایک فرم میں انجینئر تھا۔ بہت سے گھرانوں کی نگاہیں ہماری طرف تھیں۔ اپنے پرائے سب ہی آس لگائے بیٹھے تھے۔ پہلے جو لوگ بات بھی نہ کرتے تھے۔ وہ اب بہانے بہانے اپنے گھر بلاتے۔ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہ تھا۔ میرا بس چلتا تو میں کسی کو مایوس نہ کرتا۔
محفلوں میں میک آپ سے سجے ہوئے چہرے، گھر آئے مخصوص مہمانوں کے سامنے بن سنور کر جانا، کون نمائش بننا پسند کرتا ہے۔ وقت نے ذہنیتوں کو بدل دیا ہے۔ انسان کتنا مجبور ہوجاتاہے… میں رات کے اندھیرے میں سب کے لیے دعا کرتا۔ آخر یہ سب میرے لیے مریم تھیں۔
میں نے اور زینت نے فیصلے کا اختیار ایاز اور خالد کو دیا تھا۔ وہ رشتوں اور مصلحتوں کا بوجھ ذہن پر لیے بغیر بہتر فیصلہ کرسکتے تھے۔ آخر رشتوں اور مصلحتوں کی بنا پر کیے گئے فیصلے زندگی کی کامیابیوں کے ضامن کیسے بن سکتے تھے؟
اور پھر ہمارا آنگن شرمائے لجائے قدموں سے لپٹی پازیب کی جھنکار سے گونج اٹھا۔
میں اور زینت مطمئن تھے۔ دونوں بیٹے معاشرے میں اچھا مقام رکھتے تھے۔
بیٹوں کی شادی کے بعد جب مجھے تنخواہ ملی تو میرے اند چھپا ہوا وہ بچہ بہت خوش تھا۔ اب تنخواہ میرے پاس رہے گی۔
اس لیے جب زینت نے پیسے مانگے تو میں حیران ہوا۔ ’’بھئی، اب تو تنخواہ میرے ہاتھ میں رہنے دو۔‘‘ آخر میں شکوہ کربیٹھا۔
’’تو تمہارا بچپن ابھی گیا نہیں۔‘‘ زینت مسکرائی۔ پھر یوں بات آگے بڑھائی ۔ ’’اویس! بیٹی بوڑھی ہوجاتی ہے۔ مگر لین دین بوڑھا نہیں ہوتا۔ مریم کے گھر خوشی ہونے والی ہے، ننھیال سے چھوچھک جانا ہے، مجھے تیاری کرنی ہے۔‘‘ اس نے مجھے تفصیل بتائی۔
’’واقعی!‘‘ میں بے اندازہ خوش تھا۔
مریم پورے دنوں سے تھی، ڈاکٹر نے آپریشن بتایا تھا۔ میں اور زینت دونوں پریشان تھے۔ اگرمریم کو کچھ ہوگیا تو… میں اس سے آگے کچھ نہ سوچ سکا۔
رات کے دو بجے بزرکی گونج نے دلوں کو دہلادیا۔ ہم سب جاگ گئے۔ مریم کی سسرال سے فون آیا تھا۔ اس کی حالت ٹھیک نہ تھی۔ اسے ہسپتال لے کر جارہے تھے۔ میں اور زینت بھی فوراً ہسپتال چل دئیے۔
آخر خدا نے لرزتے دلوں کی التجا سن لی۔ صبح چھ بجے مریم کے ہاں بیٹا ہوا، ہم سب نے سکون کا سانس لیا۔ مریم کی زندگی کے لیے نہ جانے کیاکیا منتیں مانی گئی تھیں، مریم گھر آئی تو نذر و نیاز کا اہتمام کیا گیا۔ زینت کے چہرے پر بے حد طمانیت تھی۔
مریم کی وجہ سے زینت پریشان رہی تھی۔ امید و بیم کی اس کیفیت نے اسے تھکا ڈالا تھا۔ انجانے خدشات نے اسے نڈھال کردیا تھا۔ اب جو بے سکونی ختم ہوئی تو وہ بستر سے لگ گئی۔
’’دو مہینے تک میری بہوئیں جی جان سے اس کی خدمت کرتی رہیں۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ لیکن جو خدا کو منظور … کہیں کہیں انسان کتنا بے بس ہوجاتا ہے۔
اور آج مہینے کی پہلی تاریخ ہے۔ میری تنخواہ ملی ہے، گھر کے اندر قدم رکھتے ہی جیسے میری نگاہوں نے کسی کو تلاش کرنا چاہا۔ میرا دل چاہا، زینت مجھ سے پوچھے: ’’اویس! تنخواہ مل گئی؟‘‘
میرے لبوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ ابھری اور معدوم ہوگئی۔ ہمیشہ مجھے خواہش رہی تھی کہ مجھ سے تنخواہ کوئی نہ لے اور آج میرے پاس پیسے تھے اور لینے والا کوئی نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں ان کا کیا کروں۔
بعض اوقات کچھ چیزیں بے حقیقت لگتی ہیں، میں آگے بڑھا۔ ایاز کے کمرے سے آواز آرہی تھی: ’’واہ! محنت میں کروں اور تنخواہ تمہیں دے دوں۔ یہ کیاطریقہ ہوا بھئی!